سُوچی روہنگیا مسلمانوں پر مظالم کی مذمت کریں، ملالہ
صائمہ حیدر
4 ستمبر 2017
میانمار میں روہنگیا مسلمانوں کے مبینہ قتل عام اور مظالم کے حوالے سے سوشل میڈیا میں گرما گرم بحث اور تبصرے ہو رہے ہیں۔ ملالہ یوسف زئی نے بھی اپنے حالیہ ٹویٹ میں روہنگیا مسلمانوں پر مبینہ مظالم کے خلاف احتجاج کیا ہے۔
اشتہار
روہنگیا مسلمانوں پر میانمار حکومت کے مبینہ مظالم پر جیسے جیسے عالمی میڈیا کی رپورٹنگ بڑھتی جا رہی ہے، سماجی رابطوں کی ویب سائٹوں پر بھی اس اہم موضوع پر تبصروں اور تنقیدی پیغامات کا سلسلہ زور پکڑ رہا ہے۔ ملالہ یوسف زئی نے اپنے ایک ٹویٹر پیغام میں لکھا ہے،’’میں جب بھی خبریں دیکھتی ہوں میرا دل روہنگیا کے مسلمانوں کے آلام پر دکھتا ہے۔ میں اس ضمن میں درج ذیل اقدامات کا مطالبہ کرتی ہوں۔
1- اس تشدد کو بند کیا جائے۔ آج ہم میانمار سیکیورٹی فورسز کی جانب سے ہلاک کیے گئے بچوں کی تصاویر دیکھ رہے ہیں۔ ان بچوں نے کسی پر حملہ نہیں کیا تھا پھر بھی ان کے گھر جلا دیے گئے۔
2- اگر میانمار روہنگیا مسلمانوں کا گھر نہیں ہے تو پھر نسلوں سے یہ کہاں رہ رہے تھے؟ تو پھر ان کا گھر کہاں ہے؟
3- میں مطالبہ کرتی ہوں کہ میرے ملک پاکستان سمیت دیگر ممالک بھی بنگلہ دیش کی طرح تشدد اور دہشت سے فرار ہونے والے روہنگیا خاندانوں کو پناہ، خوراک اور تعلیم تک رسائی دیں۔
گزشتہ چند سالوں سے میں نے ایسے تمام الم ناک اور شرم ناک مظالم کی مذمت کی ہے۔ میں اب بھی اپنی نوبل پرائز یافتہ ساتھی آنگ ساں سوچی کی جانب سے ایسی ہی مذمت کا انتظار کر رہی ہوں۔ یہی انتظار تمام دنیا اور روہنگیا مسلمان بھی کر رہے ہیں۔‘‘
خیال رہے کہ میانمار کی نوبل پرائز یافتہ رہنما آنگ سان سوچی نے میانمار میں روہنگیا مسلمانوں پر مظالم کے الزام کو مسترد کیا ہے۔ علاوہ ازیں دو روز قبل آنگ سان سُوچی نے اقوام متحدہ کی حقوقِ انسانی کونسل کے اُس فیصلے کو رَد کر دیا تھا، جس میں میانمار کی سکیورٹی فورسز کی جانب سے روہنگیا مسلمان اقلیت کے خلاف جرائم کے الزامات کی تحقیقات کرنے کے لیے کہا گیا ہے۔ سوچی کے اس رویے پر بھی کڑی تنقید کی جا رہی ہے اور اُن سے سوشل میڈیا پیغامات میں متعدد صارفین نے امن کا نوبل پرائز لوٹانے کا مطالبہ بھی کیا ہے۔
بے دخلی اور انسانی اسمگلنگ کا شکار، روہنگیا کی ہجرت
پناہ کے متلاشی سولہ سو افراد کشتیوں کے ذریعے انڈونیشیا اور ملائشیا کی ساحلوں تک پہنچ چکے ہیں۔ یہ افراد میانمار کے روہنگیا مسلمانوں اور بنگلہ دیش کے مہاجرین پر مشتمل ہیں۔ ہجرت کی یہ کہانی تصاویر کی زبانی۔
تصویر: Reuters/R: Bintang
ایک روایتی انداز
اتوار دس مئی کو چار کشیتوں کے ایک قافلے میں چھ سو افراد انڈونیشیا کے صوبے آچے پہنچے۔ اسی روز تقریباً ایک ہزار افراد تین مختلف کشیتوں میں شمالی ملائشیا کے سیاحتی علاقے لنگاوی کے ساحلوں پر اترے۔ ان میں کم از کم دو کشتیوں کو مقامی مچھیروں نے ڈوبنے سے بچایا، جس کے بعد کے تمام معاملات پولیس نے اپنے ہاتھوں میں لے لیے۔
تصویر: Reuters/R. Bintang
بد حالی
ان میں سے کچھ کشتیوں میں گنجائش سے زیادہ مسافر سوار تھے، جن میں خواتین اور بچے بھی شامل تھے۔ انسانی اسمگلرز ممکنہ طور پر ان افراد کو بھوک اور پیاس کی حالت میں بے یار و مددگار چھوڑ کر فرار ہو گئے۔ امدادی تنظیموں کا کہنا ہے کہ کشتیوں کا قافلہ تقریباً ایک ہفتے قبل روانہ ہوا تھا۔ ان میں سے بہت سے افراد کو فوری طبی امداد کی بھی ضرورت تھی۔
تصویر: Reuters/R: Bintang
ایک پُر خطر سفر
ہر سال انتہائی غریب بنگلہ دیشی اور بدھ مت کے پیروکاروں کے اکثریتی ملک میانمار سے ہزاروں روہنگیا مسلمان ملائشیا اور انڈونیشیا پہنچتے ہیں۔ اقوام متحدہ کے مطابق رواں سال کے پہلے تین مہینوں میں پچیس ہزار کے قریب افراد انسانی اسمگلرز کی کشیتوں میں بیٹھ کر یہ سفر کر چکے ہیں۔
تصویر: Asiapics
بے وطن
ینگون حکومت میانمار میں آباد اندازاً آٹھ لاکھ روہنگیا مسلمانوں کو غیر قانونی بنگلہ دیشی قرار دیتی ہے۔ ان میں سے زیادہ تر کے پاس کوئی شناخت نہیں ہے اور نسلی فسادات نے ان میں سے بہت سوں کو نقل مکانی پر مجبور کیا۔ ایک اندازے کے مطابق 2012ء کے بعد سے تھائی لینڈ پہنچنے والے روہنگیا کی تعداد ڈھائی لاکھ بنتی ہے۔
تصویر: Reuters/R: Bintang
جدید اندازِ غلامی
ایک فلاحی تنظیم فورٹیفائی رائٹس کے میتیھو اسمتھ نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ روہنگیا ملائشیا پہنچانے کے لیے انسانی اسمگلرز کو دو سو امریکی ڈالر تک دیتے ہیں۔ وہ مزید بتاتے ہیں کہ سفر کے دوران انہیں کھانے پینے کا مناسب سامان مہیا نہیں کیا جاتا ہے اور نہ ہی بیٹھنے یا لیٹنے کے لیے مناسب جگہ دستیاب ہوتی ہے۔ دوران سفر انہیں مارا پیٹا بھی جاتا ہے بعض واقعات میں تو قتل بھی کیا گیا ہے۔
تصویر: picture-alliance/AP Photo/S. Yulinnas
تھائی لینڈ کا خوف
بعض روہنگیا افراد کو اسمگلرز کی گاڑیوں میں تھائی لینڈ میں داخل ہونے پر مجبور کیا جاتا ہے۔ یہ اسمگلرز ان افراد کو جنگلوں میں یرغمال بنا لیتے ہیں اور تاوان ادا کرنے کے بعد انہیں آزادی نصیب ہوتی ہے۔ بنکاک حکومت کے ایک حالیہ آپریشن میں پولیس نے جنگلوں میں اجتماعی قبریں دریافت کی ہیں، جس کے بعد بہت سے اسمگلرز نے نئے طریقے اپنانے شروع کر دیے ہیں۔
تصویر: Reuters/D. Sagolj
کارروائی کے نتائج
بنکاک حکومت کے آپریشن کے نتیجے میں جنوبی تھائی لینڈ کے جنگلات میں روہنگیا اور بنگلہ دیشی تارکین وطن کی ایک بڑی تعداد ملی ہے۔ بتایا گیا ہے کہ آپریشن شروع ہو نے کے بعد اسمگلرز ان افراد کو چھوڑ کر فرار ہو گئے۔ ملنے والے پناہ گزینوں سے تھائی حکام پوچھ گچھ کر رہے ہیں۔
تصویر: AFP/Getty Images/Str
مہاجرت کی لہر
جنوب مشرقی ایشیا کو تنازعات، ظلم و ستم اور غربت کی وجہ سے نقل مکانی کی لہر کا سامنا ہے۔ ابھی حال میں بتایا گیا کہ ایشیا پیسیفک ممالک کے تقریباً بارہ ملین افراد نے ہجرت کی، جو کسی بھی خطے میں سب سے بڑے پیمانے پر ہونے والی نقل مکانی ہے۔