سِلک روڈ منصوبہ، کیا چین قرض کے پھندے تیار کر رہا ہے؟
2 ستمبر 2018چین صدر شی جن پنگ نے بین الاقوامی ’نیو سِلک روڈ‘ منصوبے کا اعلان سن دو ہزار تیرہ میں کیا تھا۔ اس تجارتی منصوبے کے تحت بیجنگ حکومت کی طرف سے فراہم کردہ اربوں ڈالر سے مختلف ممالک میں ریلوے لائنز، سڑکیں اور بندرگاہیں تعمیر کی جا رہی ہیں۔
اس منصوبے کے پانچ برس بعد چینی صدر دفاعی پوزیشن پر آ گئے ہیں کیوں کہ اس حوالے سے خدشات میں اضافہ ہوا ہے کہ چین غریب ممالک میں قرض کے جال بچھا رہا ہے اور بہت سے ممالک وسائل میں کمی کی وجہ سے ان کی ادائیگی نہیں کر پائیں گے۔
دوسری جانب اس منصوبے کی سالگرہ کے حوالے سے منعقدہ ایک تقریب میں چینی صدر شی نے اس کا بھرپور طریقے سے دفاع کیا ہے۔ ان کا کہنا تھا، ’’یہ کوئی چینی کلب نہیں ہے۔ یہ منصوبہ ایک آزاد، کھلا اور بھرپور منصوبہ ہے۔‘‘
چینی صدر کا کہنا تھا ’بیلٹ اینڈ روڈ‘ ممالک کے ساتھ ان کی تجارت پانچ ٹریلین ڈالر سے بھی تجاوز کر چکی ہے جبکہ براہ راست سرمایہ کاری کا حجم 60 بلین ڈالر سے زائد ہو چکا ہے۔ لیکن بعض ماہرین اس منصوبے کی قدر و قیمت پر ہی سوال اٹھا رہے ہیں۔
اگست میں بیجنگ کا دورہ کرنے والے ملائیشیا کے وزیراعظم مہاتیر محمد کا کہنا تھا کہ ان کا ملک 20 ارب ڈالر کے ریلوے کے ایک پراجیکٹ سمیت تین چینی منصوبوں کو ختم کر رہا ہے۔
پاکستان کے نئے وزیراعظم عمران خان نے سی پیک منصوبے کے حوالے سے مزید شفافیت لانے اور چینی قرضوں کی واپسی سے متعلق خدشات کا اظہار کیا ہے۔
مالدیپ کے جلاوطن اپوزیشن لیڈر محمد نشید نے بحر ہند میں چینی اقدامات کو ’زمین کی چوری‘ اور ’استعماریت‘ قرار دیا ہے کیوں کہ اس ملک کو ملنے والا اسی فیصد قرض چین نے فراہم کیا ہے۔ سری لنکا چینی قرض کی پہلے ہی بہت بڑی قیمت ادا کر چکا ہے۔ سری لنکا نے چین کے 1.4 ارب ڈالر کے منصوبوں کے قرض کی عدم ادائیگی کی وجہ سے اپنی ایک انتہائی اہم بندرگارہ 99 برسوں کے لیے چین کو لیز پر فراہم کر دی ہے۔
جے کیپیٹل ریسرچ سینٹر کی شریک بانی اور ڈائریکٹر این سٹیونسن یانگ کا نیوز ایجنسی اے ایف پی سے گفتگو کرتے ہوئے کہنا تھا، ’’غیر ملکی امداد کے معاملے میں چینی بیوروکریسی بہت زیادہ باصلاحیت نہیں ہے۔‘‘ ان کا کہنا تھا، ’’یہ بات حیران کن نہیں ہونی چاہیے کہ وہ اس معاملے میں بہت ذہین نہیں ہیں۔ ان کی وجہ سے ملائیشیا میں ایسا سیاسی بحران پیدا ہوا ہے، جو غیر متوقع تھا۔‘‘
ان کا کہنا تھا، ’’جس طرح یوآن کمزور ہو رہا ہے، بین الاقوامی سطح پر بطور پارٹر چینی کردار بھی مبہم ہوتا جا رہا ہے۔ ایسے خدشات ہیں کہ مستقبل میں مختلف ممالک اس کے منصوبوں پر تنقیدی نگاہیں ڈالنا شروع کر دیں گے۔‘‘
چین ترقی پذیر ممالک میں ضرورت کا بنیادی ڈھانچہ فراہم کر رہا ہے اور ان منصوبوں کے لیے خام مال بھی زیادہ تر خود ہی فراہم کرتا ہے۔ اس طرح ان ممالک میں چین کی اضافی صنعتی صلاحیت اور اسٹاک کی کھپت ہو رہی ہے۔
پاکستان: تجارت کے ليے ڈالر کی جگہ يوآن کے استعمال پر غور
دوسری جانب سینٹر فار گلوبل ڈویلپمنٹ کی ایک تحقیق میں آٹھ ممالک میں ایسے چینی قرضوں اور ان کے استحکام کے حوالے سے ’’سنگین خدشات‘‘ کا اظہار کیا گیا ہے۔ ان آٹھ ممالک میں پاکستان، جبوتی، مالدیب، منگولیا، لاؤس، مونٹی نیگرو، تاجکستان اور کرغیزستان شامل ہیں۔
چین اور لاؤس ریلوے منصوبے کی لاگت 6.7 ارب ڈالر ہے۔ ایک تحقیق کے مطابق یہ رقم اس جنوب مشرقی ایشیائی ملک کے سالانہ جی ڈی پی کے نصف کے برابر ہے۔ سوال یہ ہے کہ یہ ملک کیسے یہ قرض واپس کر پائے گا؟
آئی ایم ایف کے مطابق افریقی ملک جبوتی کو ’’ادائیگی قرض کے لیے ضبطی جائیداد کے انتہائی خطرے‘‘ کا سامنا ہے۔ سن دو ہزار چودہ کے مقابلے میں اس ملک کا حکومتی قرض 50 فیصد سے بڑھ کر سن دو ہزار سولہ میں 85 فیصد تک پہنچ چکا تھا۔
چین کی طرف سے تنقید مسترد
دوسری جانب چین ایسے تمام تر الزامات کو مسترد کرتا ہے۔ جمعے کے روز چینی وزارت خارجہ کے ترجمان ہوا چونائنگ نے ایسے الزامات کو رد کیا کہ چین اپنے تجارتی پارٹنرز پر سخت شرائط والے قرض کا بوجھ ڈال رہا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ سری لنکا اور پاکستان پہلے ہی بیرونی قرض کے بوجھ میں ڈوبے ہوئے تھے اور بیجنگ حکومت نے تو انہیں بہت ہی کم قرض فراہم کیا ہے۔
ان کا مزید کہنا تھا، ’’ یہ غیر معقول بات ہے کہ اگر پیسہ مغرب دے تو اس کی تعریف کی جاتی ہے کہ یہ اچھا اور میٹھا ہے اور اگر ایسا چین کرے تو وہ گنہگار ہے اور جال بچھا رہا ہے۔‘‘
یانگ کہتی ہیں کہ چین کی طرف سے فراہم کردہ قرضہ جات کے لیے ڈالر کرنسی کی اصطلاح استعمال کی جاتی ہے لیکن ’’حقیقت میں یہ قرض ٹریکٹروں، کوئلے کی شپمنٹس، انجنئرنگ سروسز اور دیگر اشیا کی صورت میں فراہم کیا جاتا ہے۔ لیکن چین ان قرضوں کی واپس ادائیگی کرنسی میں طلب کرتا ہے۔‘‘
حال ہی میں آئی ایم ایف نے بھی اس حوالے سے چین سے مزید شفافیت قائم کرنے کا مطالبہ کیا تھا۔
ا ا / ع ب ( اے ایف پی )