سٹیم سیل طریقہء علاج ’نقصان دہ‘ ہے: سائنس دان
24 جون 2010کینیڈا اور تھائی لینڈ کے سائنسدانوں نے ’جرنل آف امیریکن سوسائٹی آف نیفرولوجی‘ میں شائع ہونے والی اپنی ایک تحقیقی رپورٹ میں کہا ہے کہ سٹیم سیل طریقہء علاج کے انسانی جسم پر خطرناک نتائج دیکھے گئے ہیں۔ ان سائنسدانوں کے مطابق گردوں کی تکلیف میں مبتلا ایک مریض کے جسم میں سٹیم سیلز داخل کئے گئے، جس کے ردعمل میں جسمانی بافتوں کو شدید نقصان پہنچا اور پھر انفیکشن کی وجہ سے اس شخص کی موت واقع ہو گئی۔
یہ رپورٹ بنکاک کی ایک یونیورسٹی اور یونیورسٹی اور ٹورونٹو کی مشترکہ تحقیق پر مبنی ہے۔ محققین نے ایک مریض کے گردے پر اس طریقہء علاج کے دوران گردے پر پڑنے والے اثرات کا تجزیہ کیا۔ سائنسدانوں کا کہنا ہے کہ سٹیم سیل داخل کرنے سے مریض کو کسی قسم کا کوئی فائدہ نہیں ہوا بلکہ جس جگہ سے جسم میں سٹیم سیلز داخل کئے گئے، وہاں بافتوں کو شدید نقصان پہنچا۔ اس مریض کا ایک نجی کلینک میں علاج کیا جا رہا تھا۔
بنکاک یونیورسٹی سے وابستہ اس تحقیقی ٹیم کی سربراہ ڈاکٹر دُوانگ بانجاساک نے کہا کہ اس سے قبل کسی مریض پر سٹیم سیل طریقہء علاج کے ایسے اثرات کبھی بھی نہیں دیکھے گئے ہیں۔ انہوں نے اس تحقیقی رپورٹ میں خبردار کیا کہ علاج کے اس طریقے پر ابھی مزید کام کی ضرورت ہے اور اس کے بعد ہی اسے مریضوں پر آزمایا جانا چاہیے۔ سائنسدانوں کا خیال ہے کہ سٹیم سیل طریقہء علاج کے استعمال کے وقت شدید احتیاطی تدابیر کی ضرورت ہے۔ ماہرین کے مطابق سٹیم سیل تحقیق اور علاج کے درمیان ابھی خاصہ فاصلہ ہے۔
بیشتر سائنسدانوں کو تاہم امید ہے کہ سٹیم سیلز بہت سی بیماریوں کے علاج میں اہم کردار ادا کر سکتے ہیں۔ محققین کہتے ہیں کہ اب تک کی گئی تحقیق سے واضح ہوتا ہے کہ بالغ انسانوں کی ہڈیوں کے گودے سے حاصل کئے جانے والےسیلز، سٹیم سیل تکنیک کے ذریعے گردوں سمیت دیگر انسانی اعضاء کے خلیوں میں تبدیل کئے جا سکتے ہیں۔
پہلے جانوروں کے جسموں پر کی گئی ایک تحقیق کے بعد کہا گیا تھاکہ جانوروں کے گردوں سمیت جسم کے دیگر اعضاء میں سٹیم سیل داخل کرنے سے جسمانی بافتوں کو خطرات لاحق نہیں ہوتے۔
رپورٹ: عاطف توقیر/خبر رساں ادارے
ادارت: گوہر نذیر گیلانی