1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

سپاٹ فکسنگ: آئی سی سی کے اقدامات

22 نومبر 2010

سپاٹ فکسنگ سکینڈل بعد کرکٹ حلقوں میں شروع ہونے والی گرما گرم بحث کے دوران ہی بین الاقوامی کرکٹ کونسل نے کہا ہے کہ تمام رکن ممالک اپنی ڈومیسٹک کرکٹ میں انسداد بد عنوانی کے قوانین کے مؤثر ہونے کی جانچ پڑتال کریں۔

محمد عامر بھی سپاٹ فکسنگ سکینڈل میں ملوث بتائے گئے ہیںتصویر: AP

پاکستان قومی کرکٹ ٹیم پر سپاٹ فکسنگ کے الزامات کی جانچ پڑتال کا سلسلہ تو جاری ہی ہے لیکن ساتھ ہی بین الاقوامی کرکٹ کونسل ICC نے تمام رکن ممالک کو ہدایات بھی جاری کر دی ہیں کہ وہ اپنے اپنے ہاں ڈومیسٹک سطح پر کھیلی جانے والی کرکٹ میں انسداد بدعنوانی کا ایک کوڈ متعارف کروائیں۔

پاکستانی کرکٹ ٹیم کے حالیہ دورہ انگلینڈ کے دوران سلمان بٹ، محمد عامر اورمحمد آصف سپاٹ فکنسگ سکینڈل میں ملوث پائے گئے تھے۔ اِس بناء پر ICC نے ان تینوں کھلاڑیوں پر عارضی طور پر پابندی عائد کر دی تھی۔ اِس پابندی کے مطابق وہ بین الاقوامی کرکٹ میں اس وقت تک حصہ نہیں لے سکتے، جب تک ان کے اوپر عائد الزامات کی جانچ پڑتال نہیں ہو جاتی۔

پاکستانی کرکٹ بورڈ کے چیئر مین اعجاز بٹتصویر: AP

بات ان کھلاڑیوں پر پابندی عائد کرنے پر ہی ختم نہ ہوئی بلکہ اس واقعے کے بعد دنیائے کرکٹ میں یہ بحث شروع ہوئی کہ جوئے بازی، میچ فکسنگ اور سپاٹ فکسنگ پر قابو پانے کے لئے کیا کیا جا سکتا ہے۔ کرکٹ ماہرین کی سر توڑ مشاورت کے بعد ICC کے چیف ایگزیکٹو ہارون لوگارٹ نے اب کہا ہے کہ اس سنگین مسئلے پر قابو پانے کے لئے ڈومیسٹک کرکٹ میں بنیادی اصلاحات کی ضرورت ہے۔

لوگارٹ کی طرف سے جاری کئے گئے ایک بیان میں کہا گیا ہے کہ تمام رکن ممالک اپنے اپنے ہاں ڈومیسٹک کرکٹ کے قوانین کا بغور جائزہ لیں اور جہاں ضرورت ہو، وہاں ترامیم عمل میں لائیں۔

لوگارٹ نے مزید کہا کہ پاکستان میں ڈومیسٹک کرکٹ کو بہتر بنانے کے لئے انہوں نے انسداد بد عنوانی کے قوانین کا ایک خاکہ تیار کیا ہے،جو پاکستانی کرکٹ بورڈ کے لئے کافی فائدہ مند رہے گا۔ انہوں نے مزید کہا کہ یہ خاکہ جلد ہی تمام رکن ممالک کو بھی ارسال کر دیا جائے گا۔ ICC کی کوشش ہے کہ ان نئے قوانین پرآئندہ سال سے عملدرآمد شروع کر دیا جائے۔

رپورٹ: عاطف بلوچ

ادارت: امجد علی

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید

مزید آرٹیکل دیکھائیں
ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ سیکشن پر جائیں

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ

ڈی ڈبلیو کی مزید رپورٹیں سیکشن پر جائیں