1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں
تنازعاتایشیا

کشمیر: سپریم کورٹ نے حد بندی پر اعتراضات کو مسترد کر دیا

صلاح الدین زین
13 فروری 2023

کشمیر کے ہند نواز رہنماؤں سمیت اپوزیشن کے لیے یہ آخری امید تھی، تاہم بھارتی سپر یم کورٹ نے مودی حکومت کے دلائل تسلیم کرلیے۔ حالانکہ اپوزیشن کا موقف ہے کہ انتخابی حلقوں کی دوبارہ ترتیب کا عمل صرف بی جے پی کے حق میں ہے۔

Indien Recht auf Privatsphäre- Oberster Gerichtshof
تصویر: Getty Images/AFP/S. Hussain

بھارتی سپریم کورٹ نے 13 فروری پیر کے روز جموں و کشمیر کی اسمبلی اور پارلیمان کے انتخابی حلقوں کی از سر نو حد بندی کے خلاف دائر کردہ درخواستوں کو خارج کرتے ہوئے، مودی حکومت کے فیصلوں کو درست قرار دے دیا۔ 

بھارتی کشمیر میں دو یورپی سیاح برفانی تودے کے نیچے دب کر ہلاک

بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی کی قیادت والی ہندو قوم پرست جماعت بی جے پی کی حکومت نے اپنے زیر انتظام ریاست جموں و کشمیر کے خصوصی آئینی اختیارات کو ختم کرتے ہوئے خطے کو دو حصوں میں تقسیم کرنے کے بعد، انتخابی حلقوں کی نئی حد بندی کا حکم دیا تھا۔  

انو رادھا کی کتاب کشمیر کے حالات سے پردہ اٹھاتی ہے

 تاہم کشمیر کی ہند نواز سیاسی جماعتوں کے ساتھ ہی بھارت کی دیگر سیاسی جماعتوں نے اس پر یہ کہہ کر اعتراض کیا تھا کہ اس عمل سے صرف اور صرف بی جے پی کو سیاسی فائدہ پہنچے گا۔

کشمیر سے تعلق رکھنے والے دو شہری، عبدالغنی خان اور محمد مٹّو، نے مودی حکومت کے فیصلے کے آئینی جواز کو عدالت میں چیلنج کیا تھا، جس کی سماعت کشمیر سے تعلق رکھنے والے ایک جج سنجے کشن کول اور اے ایس اوکا نے کی اور دونوں ان کی درخواست کو خارج کر دیا۔

حلقوں کی حد بندی کا معاملہ کیا ہے؟

انتخابی حلقوں کی نئی حد بندی وقت کے ساتھ آبادی میں ہونے والی تبدیلیوں کی نمائندگی کرنے کے لیے ریاستی اسمبلی یا پھر پارلیمانی حلقوں کی حدود کو دوبارہ تشکیل دینے کا عمل ہے۔ مودی حکومت کی طرف سے قائم کردہ حد بندی کمیشن نے گزشتہ برس مئی میں جموں و کشمیر میں حد بندی کے لیے اپنی حتمی رپورٹ پیش کی تھی۔

اس میں کمیشن نے سات اضافی حلقوں کی سفارش کی تھی، جس میں سے چھ جموں علاقے کے لیے تھیں اور وادی کشمیر کے لیے صرف ایک سیٹ کا اضافہ کیا گیا تھا۔ جموں و کشمیر میں پہلے مجموعی طور پر اسمبلی کی 83  سیٹیں تھیں، تاہم اب یہ 90 ہو گئی ہیں۔

سیاسی مبصرین کا کہنا ہے کہ نئی حد بندی سے سب سے زیادہ فائدہ بی جے پی کو ہو گا۔تصویر: Mukhtar Khan/AP/picture alliance

جموں کی آبادی 44 فیصد ہے لیکن سیٹوں کی مناسبت اسے اب 48 فیصد کی حصہ داری دی گئی ہے جب کہ 56 فیصد آبادی والے وادی کشمیر کو سیٹوں میں صرف 52 فیصد حصہ داری ملی ہے۔ اس سے قبل تک اس کی حصہ داری 55.4 فیصد تک تھی۔

بھارت میں سن 2026 سے پہلے تک ایسے کسی بھی اقدام پر پابندی عائد ہے اور یہ کام انتخابی کمیشن کی ذمہ داری ہے۔ لیکن مودی حکومت نے اس کے باوجود یہ کرنے کا حکم دیا اور اس کے لیے ایک مخصوص کمیشن تشکیل دیا گیا۔ اسی لیے اسے عدالت میں چیلنج کیا گیا تھا۔

دسمبر میں سپریم کورٹ نے کمیشن کی تشکیل کو چیلنج کرنے والی درخواست پر اپنا فیصلہ محفوظ کر لیا تھا۔ درخواست گزاروں کی دلیل تھی کہ سن 2019 ایکٹ کے تحت صرف الیکشن کمیشن کو حد بندی کرنے کا اختیار ہے۔ تاہم مودی حکومت نے کہا کہ کشمیر سے متعلق تنظیم نو ایکٹ حد بندی کمیشن کو بھی ایسا کرنے کی اجازت دیتا ہے۔

ہند نواز سیاسی جماعتیں ناراض

کشمیر کی پیپلز ڈیموکریٹک پارٹی (پی ڈی پی) اور پیپلز کانفرنس سمیت متعدد ہند نواز جماعتیں حد بندی کو کشمیری عوام کو ''بے اختیار کر دینے'' کی کوشش قرار دیتی رہی ہیں۔ حزب اختلاف کی جماعت کانگریس نے بھی اسے جانبداری اور سیاسی مقاصد پر مبنی بتایا۔

ان جماعتوں کا کہنا ہے کہ حد بندی کمیشن نے آبادی کی بنیاد کو نظر انداز کیا اور اپنی مرضی کے مطابق فیصلہ کر دیا۔ ''اس کا مقصد یہ ہے کہ جموں و کشمیر کے عوام کو کسی بھی طرح اختیارات سے محروم کر دیا جائے۔''

سیاسی مبصرین کا کہنا ہے کہ نئی حد بندی سے سب سے زیادہ فائدہ بی جے پی کو ہو گا۔ جموں خطے میں جو نئی اسمبلی سیٹیں بنائی گئی ہیں وہ ہندو اکثریتی علاقوں پر مشتمل ہیں۔ وادی کشمیر میں جو واحد نئی سیٹ بنائی گئی ہے وہ سرحدی کپواڑہ ضلع سے کاٹ کر بنائی گئی ہے جہاں سجاد غنی کی قیادت والی پیپلز کانفرنس کا غلبہ ہے۔ اور وہ ماضی میں بی جے پی کے حلیف رہ چکے ہیں۔

 تجزیہ کاروں کے مطابق اگر بی جے پی جموں خطے میں اپنی 2014 کی کارکردگی کو دہرانے میں کامیاب ہوتی ہے، تو وہ واحد سب سے بڑی پارٹی بن کر ابھرے گی کیونکہ وادی میں ووٹر مختلف جماعتوں کے درمیان منقسم ہیں۔

کشمیر: خصوصی آئینی حیثیت کا خاتمہ، تین سال میں کیا کچھ بدلا

05:04

This browser does not support the video element.

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ سیکشن پر جائیں

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ

ڈی ڈبلیو کی مزید رپورٹیں سیکشن پر جائیں