1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

سپریم کورٹ کا حکم: قانونی ماہرین منقسم

عبدالستار، اسلام آباد
12 فروری 2021

پاکستانی سپریم کورٹ نے ایک حکم کے تحت جسٹس قاضی فائزعیسی کو وزیرِ اعظم عمران خان سے متعلق مقدمات سننے سے روک دیا ہے۔ اس عدالتی حکم پر وکلا برادری کا نقطہ نظر منقسم ہے۔

Pakistan Oberster Gerichtshof in Islamabad
تصویر: Reuters/C. Firouz

چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس گلزار احمد کا کہنا تھا کہ قاضی فائز عیسی نے ذاتی حیثیت میں وزیر اعظم عمران خان کے خلاف ایک پٹیشن دائر کی ہے، لہذا غیرجانبداری کے اصول کے لئے یہ مناسب نہیں ہوگا کہ وہ ایسے مقدمات سنیں، جو وزیر اعظم سے متعلق ہوں۔ انہوں نے یہ حکم وزیر اعظم کی طرف سے پچاس ملین روپے کے ترقیاتی فنڈز ارکان اسمبلی کو دینے کے حوالے سے دائر ایک مقدمے کو نمٹاتے ہوئے جمعرات کو دیئے تھے۔

ان کا کہنا تھا، ''انصاف کے اصولوں کا تقاضہ ہے کہ وہ ایسے مقدمات نہ سنیں، جو وزیر اعظم سے متعلق ہوں۔‘‘

پاکستانی وزیر اعظم عمران خان

وکلا برادری منقسم

 کئی قانونی حلقے چیف جسٹس کی اس دلیل سے متفق ہیں اور ان کے خیال میں غیر جانبداری کا تقاضہ ہے کہ جسٹس فائز عیسی ایسے مقدمات نہ سنیں۔ سپریم کورٹ بار ایسویشن کے صدر لطیف آفریدی ایڈوکیٹ نے اس حکم کا دفاع کرتے ہوئے ڈی ڈبلیو کوبتایا، ''میرے خیال میں یہ حکم بالکل مناسب ہے۔ قاضی فائز عیسی کو خود اس بینچ سے علیحدہ ہوجانا چاہیے تھا یا چیف جسٹس کو کہنا چاہیے تھا کہ وہ اس بینچ کا حصہ بننا نہیں چاہتے کیونکہ ان کی بینچ میں موجودگی مفادات کے ٹکراو کا تاثر دے گی اور یہ غیر جانبداری کے اصولوں کے خلاف ہوگا۔ یہ بہت بنیادی قانونی نقطہ ہے، جو ایک عام آدمی بھی سمجھ سکتا ہے۔‘‘

کیا پاکستان میں ججز کی خفیہ نگرانی جاری ہے؟

 'حکم نامناسب ہے‘

تاہم کئی دوسرے قانونی ماہرین اس حکم کی مخالفت کر رہے ہیں اور ان کے خیال میں یہ حکم مناسب نہیں ہے۔ سپریم کورٹ بار ایسویشن کے سابق صدر علی احمد کرد کا کہنا ہے کہ اس فیصلے سے یہ تاثر جائے گا کہ سپریم کورٹ ایسٹیبلشمنٹ کے دباو میں ہے۔ کرد نے مزید کہا کہ''سب کو معلوم ہے کہ قاضی فائز عیسی کو ایسٹیبلشمنٹ پسند نہیں کرتی اور اب اس حکم سے عوام میں یہ تاثر جائے گا کہ معزز عدلیہ طاقتور حلقوں کے دباو میں ہے۔ میرے خیال میں یہ فیصلہ آئین کے منافی بھی ہے کیونکہ آئین کے مطابق سپریم کورٹ تمام معزز ججز پر مشتمل ہے اور وہ برابر ہیں۔ اور اگر سب ججز برابر ہیں تو انہیں فیصلے سنانے کا بھی حق ہے۔ آئین کی روسے کوئی جج کسی دوسرے کو فیصلے سنانے سے نہیں روک سکتا۔‘‘جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے خلاف صدارتی ریفرنس کالعدم قرار

ارکانِ اسمبلی کو فنڈ دینے کا معاملہ

سپریم کورٹ بار ایسویشن کے ایک اور سابق صدر امان اللہ کنرانی کا کہنا ہے کہ وہ اس فیصلے کی بھرپور مخالفت کرتے ہیں۔ ''فائز عیسی کو اس لئے ہٹایا گیا کیونکہ ان کی موجودگی کی صورت میں اس بات کا امکان تھا کہ فنڈز کی فراہمی ثابت ہوجائے۔ یہ ایک اوپن سیکرٹ ہے کہ ارکان اسمبلی کو فنڈز دیئے جاتے ہیں۔ عمران خان بھی فنڈز دے رہا ہے اور سینیٹ کے لئے ووٹ خرید رہا ہے۔‘‘

پاکستانی سپریم کورٹ کے جج جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کا تعلق بلوچستان سے ہےتصویر: Supreme Court of Pakistan

ان کا مزید کہنا تھا کہ وہ مفادات کے ٹکراو کی منطق کو نہیں مانتے۔ ''کیا افتخار چوہدری پرویز مشرف کے خلاف نہیں تھے اور کیا انہوں نے ہی مشرف کے خلاف غداری کا مقدمہ دائر کرنے کا حکم نہیں دیا تھا۔ اس وقت تو کسی نے یہ بات نہیں اٹھائی اور آج بلوچستان سے واحد جج کو مقدمات سننے سے روکا جا رہا ہے۔‘‘جسٹس فائز عیسیٰ کو مبینہ دھکمیاں: کئی حلقوں ميں تشویش

غلط بیانی کا ممکنہ نتیجہ

امان اللہ کنرانی کا کہنا ہے کہ اس حکم سے حکومت کے لئے ایک بہت بڑی پریشانی بھی کھڑی بھی ہو سکتی ہے۔ ''سپریم کورٹ نے حکومت کی اس بات پر یقین کر لیا ہے کہ وہ یا وزیر اعظم ارکان اسمبلی کو ترقیاتی فنڈز کی مد میں پیسے نہیں دے رہے لیکن کل اگر ثابت ہوگیا کہ حکومت نے پیسے دیئے ہیں، تو یہ عدالت سے جھوٹ بولنے کے مترادف ہوگا، جس پر جھوٹ بولنے والوں کو سزا بھی ہو سکتی ہے اور وزیر اعظم کو نا اہل بھی قرار دیا جا سکتا ہے۔‘‘

علی احمد کرد کا کہنا ہے کہ ماضی میں ایسی مثال موجود ہے کہ عدالت نے ایک رکن اسمبلی کو جھوٹا حلف نامہ جمع کرانے پر نا اہل قرار دیا۔

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ سیکشن پر جائیں

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ

ڈی ڈبلیو کی مزید رپورٹیں سیکشن پر جائیں