1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

سپریم کورٹ کا شہریت ترمیمی قانون پر عمل درآمد روکنے سے انکار

22 جنوری 2020

بھارتی سپریم کورٹ میں شہریت سے متعلق ترمیمی ایکٹ پر سماعت ہوئی۔ تاہم عدالت نے کہا کہ جب تک وہ حکومت کا موقف نہیں سن لیتی اس وقت تک وہ اس پر کوئی حکم نہیں دے سکتی۔

Indien Christen protestieren gegen Einbürgerungsgesetz
تصویر: Getty Images/AFP/D. Sarkar

شہریت ترمیمی ایکٹ کے خلاف اس وقت ملک کے مختلف علاقوں میں احتجاجی مظاہرے ہورہے ہیں جس کے خلاف سپریم کورٹ میں درجنوں اپیلیں دائر کی جا چکی ہیں۔ ان اپیلوں میں فوری طور پر حکم امتناع کی استدعا کی گئی تھی۔ لیکن عدالت نے اس قانون پر عمل درآمد کو روکنے سے یہ کہہ کر انکار کر دیا کہ جب تک وہ حکومت کا موقف نہیں سن لیتی اس وقت تک اس پر کوئی بھی حکم صادر نہیں کیا جا سکتا ہے۔ ۔

عدالت عظمی نے اس مقدمے کے لیے پانچ رکنی بڑی بینچ تشکیل دینے کا بھی اشارہ کیا ہے۔ چیف جسٹس آف انڈيا اے بوبڈے کی قیادت میں تین رکنی بینچ کے سامنے اس کیس کی سماعت کے لیے 143 اپیلیں تھیں۔ حکومت کے اٹارنی جنرل کے وینیو گوپال کا کہنا تھا کہ 143 اپیلوں میں سے صرف ساٹھ کی کاپیاں فراہم کی گئی ہیں اور سب کے مطالعے کے لیے چھ ہفتے درکار ہیں لیکن عدالت نے چار ہفتوں کی مہلت دی ہے۔

عدالت عظمی نے تمام ریاستوں  کے ہائی کورٹس کو بھی ہدایات دی ہیں کہ چونکہ شہریت ترمیمی قانون سے متعلق اپیلیں زیر سماعت ہیں لہذا اس نوعیت کی کسی بھی اپیل پر عدالتی کارروائی نہیں ہونی چاہیے۔ 

شہریت ترمیمی قانون مودی حکومت نے متعارف کرایا ہےتصویر: DW/A. Ansari

اپیلوں کی پیروی کرنے والے معروف وکیل کپل سبّل اور اے ایم سنگھوی نے عدالت سے کہا کہ شہریت ترمیمی ایکٹ پر عمل فوری طور پر روک دیا جانا چاہیے جبکہ آبادی سے متعلق قومی رجسٹر کو موخر کرنے کی ضرورت ہے۔ وکلاء کے مطابق شہریت ترمیمی ایکٹ بھارتی آئین کی روح کے منافی ہے، اس لیے اسے غیر قانونی قرار دیا جائے۔

شہریت ترمیمی قانون پر رواں برس دس جنوری سے عمل شروع ہے اور اس کی مخالفت میں کئی سیاسی جماعتوں، رہنماؤں، غیر سرکاری تنظیموں اور سرکردہ شخصیات نے عدالت سے رجوع کیا ہے۔

بھارتی حکومت نے شہریت سے متعلق جو نیا قانون منظور کیا ہے اس میں پڑوسی ممالک، پاکستان، افغانستان اور بنگلہ دیش سے آنے والے ایسے تمام تارکین وطن کو شہریت دینے کی بات کی گئی ہے جو وہاں اقلیت میں ہیں لیکن مسلمان اس میں شامل نہیں ہیں۔ اس کے خلاف  ملک کے مختلف شہروں میں گزشتہ ایک ماہ سے احتجاجی مظاہرے جاری ہیں۔

دارالحکومت نئی دہلی کے شاہین باغ کی ہی طرح  اب لکھنؤ، پٹنہ اور مونگیر جیسے تقریباً چالیس مقامات پر دھرنے شروع ہوگئے ہیں، جس میں شرکت کرنے والی غالب اکثریت خواتین کی ہے۔ بعض ریاستی حکومتوں نے اس قانون کے خلاف قراردادیں منظور کر چکی ہیں۔

نیشنل رجسٹریشن بل کے خلاف احتجاجی مظاہروں کا سلسہ جاری

03:46

This browser does not support the video element.

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں
ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ سیکشن پر جائیں

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ

ڈی ڈبلیو کی مزید رپورٹیں سیکشن پر جائیں