سپریم کورٹ کا فیصلہ اور نوازلیگ، پیپلزپارٹی رابطے
31 مارچ 2009ادھر مسلم لیگ نواز کے سیکرٹری جنرل اقبال ظفر جھگڑا نے عدالتی فیصلے پر تبصرہ کرتے ہوئے اسے عوام اور جمہوری اصولوں کی فتح قرار دیا۔ ڈوئچے ویلے کے لئے ایک انٹرویو میں اقبال ظفر جھگڑا کا کہنا تھا کہ میاں شہباز شریف ایک بہترین منتظم ہیں اور اگر گورنر ہاؤس نے ماضی کی روش نہ اپنائی تو پنجاب میں سیاسی صورتحال کے ساتھ ساتھ امن و امان کے حالات بھی بہترہوں گے۔
’’یقیناآزادعدلیہ کی فتح بھی ہے اور یہ ثابت بھی ہوا کہ جب عدلیہ آزاد ہو گی ،دبائو نہیں ہو گا تو پھر یقینا متاثرین کو ریلیف بھی ملے گا اور جو وہ فیصلے کریں گی وہ بھی انشاء اللہ میرٹ پر بھی ہی ہوں گے‘‘۔
دوسری جانب بعض حلقوں کا خیال ہے کہ پنجاب حکومت کی معطلی کے فیصلے کی طرح اس کی عبوری بحالی میں بھی جلد بازی سے کام لیا گیا جس سے اس تعصب کو تقویت ملی ہے کہ عدلیہ ابھی تک سیاست کے تابع ہے اس حوالے سے ’’دی فرائیڈے ٹائمز ‘‘ کے چیف ایڈیٹر نجم سیٹھی نے ڈوئچے ویلے کو بتایا :’’نواز شریف صاحب اور شہباز شریف صاحب کےلئے یہ ایک جوڈیشل این آر او ہے ۔پہلے بھی قانون سیاست کے نیچے تھا اب پھر قانون سیاست کے نیچے ہے۔ اچھی بات یہ ہے کہ اس وقت جوسیاست کے نیچے قانون ہے اس کی بناء پر اب شاید ہم میں تھوڑی سی اسٹیبلٹی آ جائے۔ پہلے گندی سیاست ہو رہی تھی اب شاید بہتر سیاست ہوجائے ۔‘‘
مبصرین کے خیال میں دونوں بڑی جماعتوں نے پنجاب میں پرامن بقائے باہمی اور کچھ لو کچھ دو کی بنیاد پر مفاہمت کا جو عمل شروع کیا ہے اس کی کامیابی کا دارومدارایک بارپھر وزیر اعلیٰ اور گورنر ہاؤس کے مابین تعلقات پر ہو گا کیونکہ ایوان صدرکے ذرائع اس بات کا دعویٰ کر رہے ہیں کہ صدر زرداری گورنر پنجاب سلمان تاثیر کو تبدیل کئے بغیر مفاہمت کے عمل کو آگے بڑھانا چاہتے ہیں اور مسلم لیگ نواز کی طرف سے گورنر کی تبدیلی کے مطالبے پر چپ سادھ لینے کا اقدام بھی بظاہر اسی مفاہمانہ پالیسی کا نتیجہ ہے۔