’سپر سائیکلون‘: لاکھوں بھارتی شہریوں کی محفوظ مقامات پر منتقلی
12 اکتوبر 2013مشرقی بھارت کے ساحلی شہروں اِچھاپُورم اور بَھوبانیشور سے ملنے والی رپورٹوں کے مطابق فیلین نامی یہ سائیکلون اپنی شدت اور وسعت کے اعتبار سے ان سب سے بڑے سمندری طوفانوں میں شمار کیا جا رہا ہے، جن کا آج تک بھارت کو سامنا کرنا پڑا ہے۔ اس لیے خدشہ ہے کہ فیلین کے نتیجے میں بھارت کو اس کے ساحلی زرعی علاقوں اور ماہی گیروں کے دیہات میں شدید ترین تباہی کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔
خبر ایجنسی روئٹرز نے لکھا ہے کہ مقامی وقت کے مطابق ہفتے کی دوپہر تک یہ تیز رفتار سمندری طوفان اتنے زیادہ سمندری علاقے پر پھیلا ہوا تھا کہ خلیج بنگال کا زیادہ تر حصہ اس کی زد میں آ چکا تھا۔
سیٹلائٹ سے لی گئی تصویروں کے مطابق تب تک فیلین مشرقی بھارت کے ساحلی علاقوں سے قریب دو سو کلو میٹر دور تھا۔ موسمیاتی ماہرین کے مطابق یہ طوفان آج ہفتے کی رات کے ابتدائی حصے میں بھارتی ساحلی علاقوں سے ٹکرائے گا۔ ساتھ ہی اس طوفان کی شدت اتنی ہو چکی ہے کہ اسے تقریبا ایک سپر سائیکلون قرار دیا جا سکتا ہے۔
بھارتی حکام کو خدشہ ہے کہ ساحلی علاقوں میں فیلین بارہ ملین تک انسانوں کو متاثر کر سکتا ہے۔ فیلین کے بھارتی ساحلی علاقوں تک پہنچنے سے قبل آج ہفتے کو قبل از دوپہر تک مختلف صوبوں کے نشیبی ساحلی علاقوں سے چار لاکھ سے زائد انسانوں کو محفوظ مقامات پر منتقل کیا جا چکا تھا۔
چند خبر رساں اداروں نے اپنے آبائی رہائشی علاقوں سے دیگر مقامات پر منتقل کیے جانے والے بھارتی شہریوں کی تعداد چار لاکھ چالیس ہزار اور نصف ملین کے درمیان تک بتائی ہے۔
قدرتی آفات کے مقابلے کے بھارتی قومی ادارے نیشنل ڈیزاسٹر مینجمنٹ اتھارٹی کے نائب سربراہ ششی دھر رَیڈی نے روئٹرز کو بتایا، ‘‘یہ سول آبادی کے حفاظتی انخلاء کے ان سب سے بڑے واقعات میں سے ایک ہے، جو آج تک بھارت میں مکمل کیے گئے ہیں۔‘‘ ششی دھر رَیڈی نے ملکی دارالحکومت نئی دہلی میں آج ہفتے کی دوپہر صحافیوں کو بتایا کہ ان کے ادارے کو خدشہ ہے کہ فیلین کی وجہ سے وسیع تر مالی نقصانات کا امکان کافی زیادہ ہے۔
ان کے بقول، ‘‘وسیع تر مالی نقصانات کے زیادہ خطرے کی وجہ اس طوفان کا حجم ہے۔ ساتھ ہی ہماری ترجیح یہ بھی ہے کہ انسانی جانوں کا ممکنہ ضیاع کم سے کم ہو۔‘‘ روئٹرز نے اپنی رپورٹوں میں لکھا ہے کہ فیلین کا سب سے طاقتور مرکزی حصہ، جسے ماہرین ‘آئی آف دا سٹورم‘ کہتے ہیں، جنوب مشرقی بھارتی ریاست آندھرا پردیش کے ماہی گیری کے لیے مشہور قصبے ڈون کُورُو Donkuru سے ٹکرائے گا۔
حکام نے وہاں سے مقامی آبادی کی بسوں کے ذریعے دیگر مقامات کی طرف منتقلی کا عمل کافی پہلے ہی شروع کر دیا تھا۔ اس علاقے سے عام لوگوں کی محفوظ مقامات کی طرف بسوں کے ذریعے منتقلی آج ہفتے کو بھی جاری رہی۔ لیکن جب ان شہریوں کو وہاں سے نکالا جا رہا تھا، تب بھی فیلین کی آمد سے پہلے شدید بارش ہورہی تھی اور تیز رفتار ہواؤں کی وجہ سے درختوں کی شاخیں اسی طرح ٹوٹ کر گر رہی تھیں جیسے تیز آندھی میں گھاس کے تنکے۔
اس وقت فیلین کے باعث چلنے والی طوفانی ہواؤں کی رفتار 210 کلو میٹر فی گھنٹہ تک ریکارڈ کی گئی ہے۔ اس سائیکلون کے مشرقی بھارتی ساحلی علاقوں تک پہنچتے ہی وہاں سطح سمندر میں عارضی طور پر تین سے چار میٹر تک کا اضافہ ہو جائے گا۔