آج کل دکاندار کھانے پينے کی اشياء پر ’سپر فوڈ‘ کا لیبل لگا دیتے ہیں، جس کا مقصد محض فروخت بڑھانا اور قيمتوں ميں اضافہ کرنا ہوتا ہے۔
اشتہار
بازاروں میں فروخت ہونے والی مصنوعات پر چسپاں لیبلز پر مت جائیے۔ کئی اشياء پر ’سپر فوڈ‘ کا ليبل، اس کی فروخت میں اضافے کی خاطر لگايا جاتا ہے۔ لیکن جرمنی میں کچھ علاقائی پھل اور سبزیاں ایسی ہیں، جنہیں زیادہ سے زیادہ کھانا چاہیے۔ دسمبر کے اواخر میں مسيحی تہوار کرسمس اور نئے سال کے موقع پر دعوتوں ميں زیادہ کھانے پینےکے بعد بہت سے لوگ جنوری میں صحت مند غذا اور عادات اپنانے کی کوشش کرتے ہیں۔ سبزی خور بننے سے لے کر دودھ دہی کو اپنی خوراک سے نکال دینے تک کئی طرح کے ٹرینڈ لوگوں ميں مقبول ہونے لگتے ہيں۔
مختلف اقسام کے کھانوں کے صحت سے متعلق فوائد پر متضاد معلومات بہت عام ہیں. اسی طرح دکاندار اشیاء بیچنے کے لیے اس پر ’سپر فوڈ‘ کا لیبل بھی لگا دیتے ہیں۔ جرمن شہريوں کا کہنا ہے کہ یہ بے تکی سی بات ہے کہ کوئی خاص پھل یا سبزی کھانے سے انسان کسی لا علاج بیماری سے محفوظ رہ سکتا ہے۔
یورپی فوڈ انفارمیشن کونسل نے بھی اس بات پر زور دیا ہے کہ اس طرح کے حربوں سے صارفين کو بے وقوف نہیں بنانا چاہیے بلکہ اس بات کو یقینی بنانا چاہیے کہ لوگوں کی غذا متنوع اشياء پر مبنی ہو۔
مصنوعات پر سپر فوڈ کا لیبل لگانے کا طرز عمل صارفين کے رحجانات پر اس حد تک اثر انداز ہوتا ہے کہ ايک حاليہ رپورٹ کے مطابق، جرمنی یورپ میں چیا بیجوں کا سب سے بڑا درآمد کنندہ ملک بن گیا۔ کيونکہ چيا کے بيجوں کو ان کے فوائد کی وجہ سے عموماً ’سپر فوڈ‘ کہہ کر بيچا جاتا ہے۔
زيادہ تر وسطی امریکا میں اگنے والے یہ بیج گزشتہ ایک دہائی کے دوران یورپ میں کافی مقبول ہوئے ہیں۔ تاہم کچھ جرمنوں کو شاید اب تک اس بات کا احساس نہیں ہے کہ ان کے اپنے ملک میں صحت مند اجزاء سے بھر پور پھل اور سبزیاں پائے جاتے ہیں جیسے کہ کیل اور سیب۔ ان موسمی اور علاقائی پھلوں اور سبزیوں کو کھانا، نہ صرف صحت مند رہنے کے لیے مفید ہے بلکہ اس سے مقامی معیشت کو بھی فائدہ پہنچتا ہے۔
’’آج کھانے میں کیا ہے؟ ‘‘، ’’کیڑا برگر ‘‘
جیسے جیسے دنیا کی آبادی بڑھ رہی ہے، خوراک کی عالمی صنعت غذا کی فراہمی کے ایسے تادیر دستیاب رہنے والے ذرائع تلاش کر رہی ہے جو ہمارے ماحول کی پیداوار ہوں۔ کیڑے مکوڑوں کا کردار بھی اس حوالے سے اہم ہے۔
تصویر: Getty Images/AFP/T. Yamanaka
ٹِڈے سے بنا مزے دار کھانا
گزشتہ چالیس سالوں میں قابل کاشت زمین کا قریب ایک تہائی حصہ بڑھتی آبادی کی نذر ہو گیا ہے۔ اس صورت حال سے پیدا ہونے والی غذائی مشکلات کو دور کرنے کے لیے بہت سے افراد کا ماننا ہے کہ کیڑے خوراک کا بہترین نعم البدل ثابت ہو سکتے ہیں۔ جیسا کہ ٹوکیو کا یہ شہری بڑے مزے سے انڈے پر ٹڈی رکھ کر کھا رہا ہے۔
تصویر: Getty Images/AFP/T. Yamanaka
کانگو میں کیٹر پلر
کیڑوں کو انسانی خوراک کے طور پر استعمال کرنے کو ’اینٹوموفیجی‘ یا حشرات خوری کہتے ہیں۔ کانگو کے شہر کنشاسا کے تصویر میں نظر آنے والے اس ریستوران میں کیٹلر پلرز کو زیتون کے تیل کے ساتھ گِرل کیا جاتا ہے جو سستے بھی ہیں اور پروٹین کا ذریعہ بھی۔
تصویر: Getty Images/AFP/J.D. Kannah
آج جھینگر پکائیں
یورپ اور امریکا میں متعدد مقامات ایسے ہیں جہاں اب بھی حشرات خوری پوری طرح قابل قبول نہیں ہے۔ اس تصویر میں سڈنی کے ایک ماہر باورچی نوشاد عالم جھینگروں کی ایک خاص ڈش دکھا رہے ہیں۔
تصویر: Getty Images/AFP/S. Khan
کھانے پر یہ رینگتا ہوا سا کیا ہے؟
کیڑوں کو بہت کم خوراک کی ضرورت ہوتی ہے۔ دوسرے یہ کہ یہ بذات خود مچھلیوں اور جانوروں کی پائیدار خوراک ہیں۔ بنکاک کے ریستوران کی اس تصویر میں پروں والی چیونٹیاں مچھلی کے ساتھ پیش کی جا رہی ہیں۔
تصویر: Getty Images/AFP/L. Suwanrumpha
پام آئل کا نعم البدل؟
انڈونیشیا میں ایک ہوٹل ’ بائٹ بیک‘ کے مالک کیڑوں کو پام آئل کے نعم البدل کے طور پر فروغ دے رہے ہیں اُن کا کہنا ہے کہ کیڑے نہ صرف غذائیت سے بھر پور ہیں بلکہ ان میں بہت زیادہ معدنی مواد اور چربیلے ایسڈ بھی پائے جاتے ہیں۔
تصویر: Founders Valley/Biteback Indonesia
کیڑا لالی پاپ بھی
سن 2050 تک گوشت کی عالمی ڈیمانڈ پچھتر فیصد تک بڑھنے کی توقع ہے۔ ایسے میں ماحولیاتی پروٹین یعنی حشرات سے بنی طرح طرح کی خوردنی مصنوعات بنانے پر کام کیا جا رہا ہے۔ تصویر میں دکھائے گئے کیڑوں اور جھینگروں سے بنے یہ لالی پاپ بھی اسی سلسلے کی ایک کڑی ہیں۔
تصویر: Getty Images/AFP/K. Bleier
شہد کی مکھی کا کیک
برلن کے ماحولیاتی میلے میں آنے والے شہد کی مکھی والے اس کیک کے چسکے بھی لیتے ہیں۔ تاہم اس دباؤ کے پیش نظر کے شہد کی مکھیوں کی اپنی آبادی اب دنیا بھر میں کم ہو رہی ہے، فراوانی سے دستیاب دوسرے حشرات کو غذا میں شامل کرنے پر غور کیا جا رہا ہے۔