1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

سپلائی رُوٹ کی بندش سے معیشت متاثر ہے، نیٹو

3 جنوری 2012

نیٹو نے افغانستان میں اپنے فوجیوں کو پاکستان کے راستے رسد کی فراہمی کے لیے سپلائی رُوٹ کے جلد کھلنے کی امید ظاہر کی ہے۔ ساتھ ہی اس بندش کو نقصان دہ بھی قرار دیا ہے۔

تصویر: AP

افغانستان میں تعینات غیرملکی افواج کے ایک ترجمان بریگیڈیئر جنرل کارسٹین جیکبسن کا کہنا ہے کہ نیٹو پاکستان کے ساتھ تعلقات کی جلد از جلد بحالی چاہتی ہے۔

ان کا کہنا ہے کہ نیٹو پاکستان کے ساتھ تعلقات کو معمول پر لاتے ہوئے اس کے راستے اپنے فوجیوں کو پہنچنے والی رسد کی بھی بحالی چاہتی ہے۔ جنرل جیکبسن کا کہنا ہے کہ سپلائی روٹ کی بندش سے سرحد کے دونوں طرف کی معیشتیں متاثر ہیں۔

انہوں نے کہا: ’’ہم اس بات سے آگاہ ہیں کہ ایسی چیزیں جو افغانستان نہیں پہنچ پا رہیں اور وہ بارڈر کنٹرول پوائنٹس پر رُکی ہوئی ہیں۔ اس سے بنیادی طور پر معیشت اور افغانستان اور پاکستان میں ٹرانسپورٹ سے وابستہ افراد متاثر ہیں۔‘‘

جنرل جیکبس نے مزید کہا: ’’پاکستان کے ساتھ تعلقات کی جلد از جلد بحالی افغانستان اور عالمی برادری کے مفاد میں ہے۔‘‘

تاہم انہوں نے افغان عوام میں پائے جانے والے ان خدشات کو ردّ کیا کہ اس سپلائی رُوٹ کی بندش سے نیٹو اپنے فوجیوں کے لیے خوراک اور ایندھن مقامی مارکیٹوں سے خریدے گی، جس کی وجہ سے ان اشیا کی قیمیتں بڑھ جائیں گی۔ انہوں نے کہا کہ نیٹو کے ذخائر کافی سے زائد ہیں۔

نیٹو نے نومبر میں پاکستان کی فوجی چوکیوں کو نشانہ بنایا تھاتصویر: AP

قبل ازیں پاکستان کے جنوبی شہر کراچی کی بندرگاہ پر ایک اہلکار نے بتایا کہ سپلائی رُوٹ بند ہونے سے نیٹو کی فوجی گاڑیاں اور دیگر سامان بندرگاہ پر جمع ہو رہا ہے۔ اے ایف پی کے مطابق اس اہلکار نے بتایا: ’’اس وقت 3,676 فوجی گاڑیاں اور نیٹو فورسز کے 1,732 کنٹینرز بندرگار پر موجود ہیں۔‘‘

پاکستان نے نیٹو کی جانب سے چھبیس نومبر کے حملے کے بعد اس کا سپلائی رُوٹ بند کر دیا تھا۔ فوجی چوکیوں پر ہونے والے اس حملے میں پاکستان کے چوبیس فوجی ہلاک ہو گئے تھے۔

ان حملوں کے باعث پاکستان اور امریکہ کے تعلقات بھی مزید کشیدہ ہوئے، جن میں دراصل رواں برس مئی میں دہشت گرد گروہ القاعدہ کے سابق سربراہ اسامہ بن لادن کی امریکی فورسز کے ایک خفیہ آپریشن کے دوران پاکستانی شہر ایبٹ آباد میں ہلاکت کے بعد پہلے سے ہی تلخی چلی آ رہی تھی۔

رپورٹ: ندیم گِل / خبر رساں ادارے

ادارت: عابد حسین

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید

مزید آرٹیکل دیکھائیں
ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ سیکشن پر جائیں

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ

ڈی ڈبلیو کی مزید رپورٹیں سیکشن پر جائیں