جرمنی میں ایک خاتون ایک سپر مارکیٹ میں چوری کرتے ہوئے پکڑی گئی۔ اس کی سکرٹ کے نیچے سے نو کلوگرام چاکلیٹ برآمد ہوئی۔ بعد ازاں اس ملزمہ کی ایک ساتھی کی کار سے بھی مزید پچاس کلوگرام چوری شدہ چاکلیٹ برآمد کر لی گئی۔
اشتہار
جرمنی کے شہر براؤن شوائیگ سے جمعرات چھبیس اپریل کو ملنے والی نیوز ایجنسی ڈی پی اے کی رپورٹوں کے مطابق اس خاتون کو، جس کی عمر 35 سال بتائی گئی ہے، سپر مارکیٹ کے عملے کے ایک رکن نے اس وقت رنگے ہاتھوں پکڑ لیا، جب وہ چاکلیٹ کے پیکٹ اپنی سکرٹ کے نیچے چھپا رہی تھی۔
بعد ازاں جب سپر مارکیٹ کے عملے کی ایک خاتون رکن نے اس عورت کی ایک کمرے میں لے جا کر جامہ تلاشی لی، تو اس کی سکرٹ کے نیچے سے، جس کی مختلف جیبوں والی تہیں تھیں، مجموعی طور پر قریب نو کلوگرام رنگ برنگی چاکلیٹیں برآمد ہوئیں۔
اس پر سپر مارکیٹ کے ڈیوٹی مینیجر نے پولیس کو اطلاع کر دی، جو فوراﹰ موقع پر پہنچ گئی۔ ملزمہ نے پولیس کو بتایا کہ اس کی ایک ساتھی قریب ہی اپنی گاڑی میں اس کی واپسی کا انتظار کر رہی تھی۔ پھر جب ملزمہ کے ساتھ پولیس اس کی دوست تک پہنچی اور تلاشی لی گئی، تو اس گاڑی سے مزید 50 کلوگرام چاکلیٹیں برآمد ہوئیں۔
مٹھائیوں کا بین الاقوامی تجارتی میلہ
02:52
پولیس نے مجموعی طور پر ان دونوں خواتین کے قبضے سے جو قریب ڈیڑھ من چاکلیٹ برآمد کی، وہ طرح طرح کے برانڈز اور ذائقوں والی تھی۔
اس میں سینکڑوں کی تعداد میں چاکلیٹ بارز کے ایسے پیکٹ بھی تھے، جن کا فی کس وزن عام طور پر 100 گرام یا 200 گرام ہوتا ہے۔ چوری شدہ لیکن برآمد کر لی گئی اس تقریباﹰ 60 کلوگرام چاکلیٹ کی مالیت کا اندازہ ایک ہزار یورو سے زائد لگایا گیا ہے۔
براؤن شوائیگ پولیس کی ایک خاتون ترجمان نے اس بارے میں جمعرات کے روز بتایا، ’’ملزمہ نے جو سکرٹ پہن رکھی تھی، اس کی کئی جیبیں اور تہیں تھیں۔ اسی لیے وہ اس سکرٹ کے نیچے نو کلوگرام چاکلیٹ چھپانے میں کامیاب رہی تھی۔‘‘
دونوں خواتین کے خلاف شاپ لفٹنگ (کسی دکان سے چوری) کے الزام میں مقدمہ درج کر لیا گیا ہے۔ یہ بات ابھی واضح نہیں کہ ان دونوں عورتوں کے اس جرم کی وجہ ان کا بہت زیادہ چاکلیٹ کھانے کا شوق بنا یا پھر وہ اتنی زیادہ چوری شدہ چاکلیٹ آگے کسی اور کو بیچنا چاہتی تھیں۔
م م / ش ح / ڈی پی اے
پختونخوا میں گُڑ کی پیداوار
آئیے تصویر بہ تصویر دیکھیں کہ پاکستانی صوبے خیبرپختونخوا میں گڑ بنتا کیسے ہے۔
تصویر: DW / D. Baber
گُڑ کے کارخانے
صوبہ خیبر پختونخوا کے بیشتر اضلاع میں گنے سے گڑ بنانے کے لیے قائم کیے گئے گھانی یا چھوٹے کارخانوں میں ویسے تو گڑ بنانے کا سلسلہ دسمبر میں شروع ہوجاتا ہے، لیکن کاشت کاروں اور ماہرین کے مطابق جنوری، فروی اورمارچ میں بنایا جانے والا گڑ اعلیٰ معیار کا سمجھا جاتا ہے۔
تصویر: DW / D. Baber
پہلا مرحلہ گنے کا رس
گنے سے گڑ بنانے کے عمل کے پہلے مرحلے میں مشین کے ذریعے گنے سے رس نکالا جاتا ہے۔ اس کے لیے پٹرول یا پھر بجلی سے کام کرنے والی مشین کو چلایا جاتا ہے۔ پرانے زمانے میں ان مشینوں کو بیلوں کے ذریعے گھمایا جاتا تھا۔
تصویر: Festausschuss BONNER KARNEVAL e. V.
بڑی کڑاھی
ٹب سے گنے کے رس کو دوسرے مرحلے کے لئے ایک بڑی کڑاھی میں ڈالا جاتا ہے، جہاں پر اس کو آگ کے ذریعے پکایا جاتا ہے۔ اس عمل کے دوران رس کو چھانا جاتا ہے اور غیر ضروری مواد کو نکالا جاتا ہے۔
تصویر: DW / D. Baber
چھلکے بھی کام کے
رس نکلنے کے بعد گنے کے چھلکے دھوپ پر سوکھنے کے لیے رکھے جاتے ہیں، جن کو بعد میں گڑ بنانے کے لیے بطور ایندھن استعمال کیا جاتا ہے۔ اکثر بارش یا ناخوش گوار موسم میں ان کے سوکھنے کا عمل متاثر ہوجاتا ہے۔ جس کی وجہ سے گڑ کی پیداور میں بھی سستی آجاتی ہے۔
تصویر: DW / D. Baber
رس ٹھنڈا کرنے کا پرات
رس کے پکنے کے بعد اس کو لکڑی سے خاص طور پر بنائے گئے ایک بڑے ’پرات‘ یا ’آتھرا‘ میں ڈالا جاتا ہے، جہاں پر اس کو ٹھنڈا کرنے کا عمل شروع ہوجاتا ہے۔ اس عمل کے دوران گڑ کے تیار کیے گئے اس مادے کو مسلسل ہلایا جاتا ہے تاکہ یہ خستہ ہو۔
تصویر: DW / D. Baber
بزرگوں کا تجربہ
اس مرحلے میں گھانی کا تمام عملہ حصہ لیتا ہے۔ کارخانے کے کسی تجربہ کار بزرگ یا کسان کے مشورے کے بعد ایک خاص وقت کے بعد گڑ کو ایک طرف جمع کرنا شروع کیا جاتا ہے۔
تصویر: DW / D. Baber
گڑ تیار
گڑ کو اسی پرات یا آتھرا میں جمع کیا جاتا ہے، اس عمل میں گڑ کے بھیلیوں کے سائز کا تعین بھی کیا جاتا ہے۔ بھیلیاں یا ٹیکیاں بنانے کے دوران اس میں مختلف خشک میوے بھی شامل کیے جاسکتے ہیں، جس کو علاقائی زبان میں ’مصالہ دار‘ گڑ کہتے ہیں، جس کو بہت پسند بھی کیا جاتا ہے۔
تصویر: DW / D. Baber
گڑ منڈی میں
گڑ کی تیاری کے بعد اس کو منڈیوں میں بھیجا جاتا ہے، جہاں سے اس کی ترسیل ملک بھر کے علاوہ افغانستان، مشرق وسطیٰ اور وسطی ایشیا کے بیشترممالک بھی کی جاتی ہے۔
تصویر: DW / D. Baber
کچھ گنا شوگر ملوں کو فروخت
ملک بھر میں گھانیوں میں جہاں قدیم طریقے سے گڑ بنانے کا عمل اب بھی جاری ہے اور زیادہ تر کاشت کار اسی پر انحصار کرتے ہیں وہیں دوسری طرف کچھ کاشت کار فصل کی تیاری کے بعد گنے کو شوگر ملز کے ہاتھوں فروخت کردیتے ہیں، جس سے ان کے خیال میں فوری اور نقد آمدنی ہوتی ہے۔