سمندروں کی سطح میں اضافے اور ساحلوں کے قریب بڑھتی ہوئی تعمیرات کے باعث ساحل اور ریت کے ٹیلے سکڑ رہے ہیں۔ نیچر سائنس جنرل میں شائع ایک تحقیق کے مطابق ساحل سے اوسطاَ 390 میٹر کے فاصلے پر کوئی ہوٹل یا سڑک موجود ہے۔
اشتہار
ساحل سمندر اور ریت کے ٹیلے نا صرف ماحول کو متوازن رکھنے میں اہم کردار ادا کرتے ہیں بلکہ یہ کئی سمندری حیات کا قدرتی مسکن ہیں اور ان انواع کی بقا کے لیے نا گزیر ہیں۔ لیکن ساحل کے قریب شہروں میں تیزی سے بڑھتی آبادی، تعمیراتی کام، اور سطح سمندر میں اضافے کی وجہ سے ساحل اور ریت کے ٹیلے تیزی سے سکڑ رہے ہیں۔
نیچر سائنس جنرل میں رواں ماہ شائع ہونے والی ایک تحقیق کے مطابق ساحل سمندر اور ٹیلے بڑھتے ہوئے انفراسٹرکچر اور تعمیرات کی وجہ سے سکڑ رہے ہیں۔ رائل نیدر لینڈ انسٹی ٹیوٹ فار سی ریسرچ کے محققین نے دنیا بھر میں ساحلوں کے قریب تعمیرات اور ریت کے ٹیلوں کے تجزیے سے معلوم کیا ہے کہ اوسطاَ ساحل کے قریب ترین عمارت یا پکی سڑک صرف 390 میٹر کے فاصلے پر ہے۔
تحقیق کا پس منظر کیا ہے؟
رائل انسٹیٹیوٹ فار سی ریسرچ سے منسلک سائنسدان اور تحقیق کی مصنف اوا ایم لانسو نے ڈوئچے ویلے کو بتایا کہ انسانی زندگی میں سمندر اور ساحلی ماحولیاتی نظام کی حیثیت ریڑھ کی ہڈی جیسی ہے۔ دنیا بھر میں تقریبا 40 فیصد آبادی ساحلوں سے 100 کلومیٹر کے اندر رہتی ہے اور اس تعداد میں مسلسل اضافہ ہورہا ہے۔
اوا لانسو بتاتی ہیں کہ انسانی ترقی سے سمندریایکو سسٹم تیزی سے تنزلی کا شکار ہیں۔ عالمی سطح پر سطح سمندر اور شدید موسمی واقعات میں اضافے، شدید گرمی کی لہریں، خشک سالی، طوفانی بارشوں اور سیلاب سے ساحلی ماحولیاتی نظام کو شدید نقصان پہنچا رہے ہیں۔
سمندر کے درجہٴ حرارت میں اضافہ، مونگے کی چٹانوں میں ٹوٹ پھوٹ
ماحولیاتی آلودگی سے سمندر کے درجہ حرارت میں اضافہ ریکارڈ کیا جا رہا ہے جو سمندری حیات کے لیے نقصان دہ ہے۔ یہ اضافہ خاص طور پر کورال یا مونگے کی چٹانوں کو شدیدنقصان پہنچا رہا ہے۔
تصویر: imago images/Westend61
سمندری حیات اور مونگے کی چٹانیں
زیر سمندر نباتات و حیوانات کی عجیب سی دنیا پائی جاتی ہے۔ کورال پولپس کے اجتماع اور کیلشیم یا چونے سے مونگے کی چٹانیں وجود میں آتی ہیں۔ یہ ایک مخصوص درجہٴ حرارت میں کم اور گہرے سمندر میں پھلتی پھولتی ہیں۔ انہیں سمندر کا ایک حسین شاہکار تصور کیا جاتا ہے۔
تصویر: imago images/Westend61
سیشیلز کے سمندری ایکو سسٹم کا تحفظ
سیشیلز کی حکومت نے اگلے برسوں میں مونگے کی ایک تہائی چٹانوں کے تحفظ کو اہم قرار دیتے ہوئے سیشیلز سمندری توسیعی پلان نامی ایک منصوبہ شروع کیا ہے۔ اس دوران مونگے کی چٹانوں کا ڈیٹا اکٹھا کرنے کی غرض سے غوطہ خوری کی سرگرمیوں جاری ہیں۔ سیشیلز کی حکومت زیر سمندر علاقے کے تحفظ کو یقینی بنانے کی کوششوں میں ہے۔
آسٹریلوی سمندر میں بھی کورال چٹانوں کی بربادی
آسٹریلیا کے علاقے کوئنز لینڈ کے قریبی سمندر کے نیچے مونگے کی چٹانوں کو ’گرینڈ کورال ریف‘ سے تعبیر کیا جاتا ہے۔ سمندری درجہ حرارات میں اضافے نے اس وسیع چٹانی سلسلے میں انتہائی زیادہ توڑ پھوٹ پیدا کی ہے۔
تصویر: picture-alliance/Imaginechina
کورال چٹانوں کے تحفظ کے پروگرام
مختلف ملکوں نے اپنے سمندری علاقے میں مونگے کی چٹانوں کو محفوظ بنانے کے سلسلے کو شروع کر رکھا ہے۔ اس تصویر میں میکسیکو کے ساحلی شہر کان کُون میں ایک غوطہ خور زیر سمندر مونگے کی چٹانوں کی ٹوٹ پھوٹ کا جائزہ لے رہا ہے۔
تصویر: DW/J. Adler
کورال پولپس اور مونگے کی چٹانیں
سمندر کے ایکو سسٹم میں مونگیں کی چٹانوں کو زیر سمندر کا جنگلاتی علاقہ قرار دیا جاتا ہے۔ یہ زیادہ تر استوائی علاقوں میں پھلتی پھولتی ہیں۔ شدید ٹھنڈے پانی میں مونگے کی چٹانوں کم ہی افزائش پاتی ہیں۔
تصویر: imago images/Nature Picture Library
کورا چٹانیں مر رہی ہیں
سمندری حیات کے ماہرین کا کہنا ہے کہ سمندری میں آلودگی سے بھی کورال چٹانوں کے مرنے کا سلسلہ شروع ہے۔ سمندری آلودگی میں سیوریج سے لے کر کیمیائی کھاد سے پیدا ہونے والے زرعی اجناس بھی شامل ہیں۔ مونگے کی چٹانوں میں کئی ناقص اجزاء کی موجوگی کا پتہ چلا ہے۔
تصویر: Getty Images/D. Miralle
سمندزی آلودگی
زیر سمندر مونگے کی چٹانوں کو پلاسٹک کی اشیا اور دوسری مصنوعات نے بھی نقصان پہنچایا ہے۔ ساحلی علاقوں کی سیاحتوں اور موج میلے کے شوقین افراد نے بھی سمندری آلودگی میں بھرپور کردار ادا کیا ہے۔ اس تصویر ایک پلاسٹک بیگ مونگے کی چٹان سے چپکا ہوا ہے۔
تصویر: Imago
سعودی عرب بھی کورال چٹانوں کے تحفظ میں شامل
سعودی عرب نے سیاحت کو فروغ دینے کی کوششیں شروع کر رکھی ہیں۔ حکومت نے زیر سمندر مونگیں کی چٹانوں کے تحفظ کے منصوبے شروع کر دیے ہیں۔ یہ تصویر بحیرہ احمر کی ہے۔ اس میں انتہائی محفوظ کورال چٹان دیکھی جا سکتی ہے۔
تصویر: picture alliance/AP/N. Alousaimi
8 تصاویر1 | 8
لانسو کہتی ہیں کہ ان عالمی اثرات کی بنیادی وجوہات مقامی عوامل ہی جن میں زمینی و سمندری آلودگی، سمندری کٹاؤ اور سیلینائزیشن شامل ہیں۔ مگر ان میں سب سے بڑا خطرہ ساحلوں کے قریب تیزی سے ہوتا تعمیراتی کام اور انفراسٹرکچر کی بھرمار ہے۔
لانسو کے مطابق سمندری ایکو سسٹم متنوع ہے جس میں ریت کے ٹیلے، مرجان کی چٹانیں یا فائٹو پلانکٹن ہر شے کی اہمیت یکساں ہے۔ لیکن انسان کا تعمیر کردہ انفراسٹرکچر ساحلی ماحولیاتی نظام کو ایڈجسٹ کرنے کے لیے دستیاب جگہ کو محدود کر رہا ہے۔ ریتیلے ساحلوں پر سمندری حیات کے قدرتی مسکن جگہ کی کمی کے باعث تیزی سے تباہ ہو رہے ہیں۔ سطح سمندر میں تیزی سے اضافے سے کئی سمندری حیات بقا کے خدشے سے دوچار ہیں۔
تحقیق سے کون سے نئے انکشافات ہوئے ہیں؟
اوا لانسو نے ڈوئچے ویلے کو بتایا کہ ان کی ٹیم نے پہلے سے ریکارڈ شدہ ڈیٹا کو اوپن سٹریٹ میپ ڈیٹا کے ساتھ ملا کر ساحلی علاقوں کا ایک نیا نقشہ تیار کیا۔ اس کے بعد انھوں نے ساحلی پٹی کے قریب ترین پکی سڑک یا رہائشی عمارت تک فاصلے کا ڈیٹا حاصل کیا۔ لانسو کی ٹیم نے دنیا بھر میں ریتیلے ساحلوں کے ساتھ ہر ایک کلومیٹر پر اس طرح کی پیمائش کر کے نیا ڈیٹا سیٹ بھی حاصل کیا۔
اوا لانسو بتاتی ہیں کہ اس نئے اور پرانے ڈیٹا سیٹ کے تجزیئے سے معلوم ہوا کہ انفرا سٹرکچر ساحل سمندر کے اتنا قریب ہے کہ سیاح اوسطاَ صرف 390 میٹر کے فاصلے پر کوئی ہوٹل یا سڑک تلاش کر سکتے ہیں۔
وہ کہتی ہیں کہ بظاہر یہ ایک خوش آئند امر ہے کہ آپ ساحلوں کی سیر پر جائیں اور قریب ہی رہائش یا ٹرانسپورٹ مل جائے۔ لیکن اس کا بھیانک ترین پہلو یہ ہے عالمی ریتیلے ساحلوں کے تقریبا 30 فیصد سے زیادہ حصے پر اب انفراسٹرکچر ہے اور محض 100 میٹر حصہ خالی رہ گیا ہے۔ یعنی نئی تعمیرات براہ راست ساحلوں ہورہی ہیں۔
سمندروں کا عالمی دن، نیلے پانیوں کو بچانے کی نئی کوشش
شاید کم لوگ ہی جانتے ہوں کہ اس کرہ ارض پر صحت مندانہ زندگی بسر کرنے کی خاطر صاف و شفاف سمندروں کی اہمیت کس قدر زیادہ ہے۔ سمندروں کا صاف پانی حیاتیاتی تنوع اور ایکو سسٹم کو اصل حالت میں برقرار رکھنے میں مدد دیتا ہے۔
تصویر: World Resources Institute
نیلے پانیوں کو محفوظ بنائیں
عہد کیا گیا ہے کہ 2030ء تک سمندروں کو تیس فیصد تک زیادہ محفوظ بنایا جائے۔ اس مقصد کے تحت نا صرف سمندری حیات کا تحفظ یقینی بنایا جائے گا جو خشکی پر بسنے والی حیات کے مقابلے میں تین گنا زیادہ خطرے کا شکار ہے بلکہ آبی حیات کو درپیش خطرات سے نمٹنے کی کوشش کی جائے گی۔ بڑھتا ہوا درجہ حرارت سمندری پانیوں میں آکسیجن کی مطلوبہ مقدار کم کر رہا ہے اور کورل ریفز یعنی مونگے کی چٹانوں کو بھی نقصان پہنچا رہا ہے۔
تصویر: Colourbox
سمندر، زمین کو محفوظ رکھنے میں معاون
کرہ ارض کا تقریباﹰ 70 فیصد حصہ سمندروں پر مبنی ہے۔ یہ سمندر اس سیارے کی پچاس فیصد آکسیجن پیدا کرنے کا باعث بھی ہیں۔ اس زمین پر حیاتیاتی تنوع کو برقرار رکھنے والے یہ سمندر دنیا بھر میں ایک بلین نفوس کو پروٹین مہیا کرنے کا بھی ایک انتہائی اہم ذریعہ ہیں۔ یہ سمندر اس زمین کا تحفظ یقینی بناتے ہیں، اس لیے یہ یقینی بنانا ہے کہ سمندر آلودہ نہ ہوں اور اس زمین کے نظام کو چلانے میں اپنا کردار ادا کرتے رہیں۔
تصویر: Imago-Images/Leemage/Novapix/P. Carril
کاربن کا مقابلہ کرنے کی اہلیت
ساحلی علاقوں میں پائے جانے والے مینگرَوز کے درخت، آبی نباتات اور سالٹ مارشز (موٹی گھاس سے بھرپور ساحلی علاقے ) عام جنگلات کے مقابلے میں کاربن ڈائی آکسائیڈ کو چار گنا زائد حد تک جذب کر لیتے ہیں۔ اس عمل کو بلیو کاربن ایکو سسٹم کہا جاتا ہے۔ پیرس کلائمٹ معاہدے کے تحت کاربن گیسوں میں کمی کے ہدف کو پورا کرنے کے لیے یہ سمندری سسٹمز انتہائی ناگزیر ہیں۔
تصویر: picture-alliance/dpa/ESA/USGS
سمندری اقتصادیات کو مستحکم بنانا
سمندر اسی وقت اقتصادی ترقی کا ایک پائیدار ذریعہ رہیں گے جب ان کا استعمال پائیدار طریقے سے کیا جائے۔ ماہی گیری کے روایتی طریقے ساحلی علاقوں کی اقتصادیات میں بہتری میں اہم ہیں جبکہ اس سے حیاتیاتی تنوع اور مقامی کلچر کو بھی فائدہ پہنچتا ہے۔ ’بلیو اکانومی‘ کا مقصد یہ بھی ہے کہ متبادل توانائی کے ذرائع استعمال کیے جائیں تاکہ بڑھتے ہوئے عالمی درجہ حررات کی صورت میں اس زمین کا لائف سپورٹ سسٹم متاثر نہ ہو۔
تصویر: picture-alliance/Demotix
بہت زیادہ مچھلیاں پکڑنے کا عمل ترک کیا جائے
سمندروں کو پائیدار بنانے کی خاطر غیر قانونی ماہی گیری کو روکنا بھی ضروری ہے۔ اس وجہ سے جزائر گالاپاگوز میں حیاتیاتی تنوع سے بھرپور آبی زندگی کو خطرات لاحق ہو چکے ہیں۔ چینی ماہی گیری کے بحری جہاز لاطینی امریکا کے سمندری پانیوں میں وسیع پیمانے پر ماہی گیری کر رہے ہیں، جسے گرین پیس نے ’لوٹ مار‘ قرار دیتے ہوئے خبردار کیا ہے کہ بحیرہ روم میں بلیوفن ٹونا مچھلی کی بقا کو خطرات لاحق ہو گئے ہیں۔
تصویر: Getty Images/AFP/A. Solaro
پلاسٹک کا کچرہ دان
گریٹ پیسفک گاربیج پیَچ پلاسٹک اور مائیکرو پلاسٹک کوڑے کا ایک بڑا جزیرہ معلوم ہوتا ہے، جو اب امریکی ریاست ٹیکساس سے دو گنا بڑا ہو چکا ہے۔ کہا جاتا ہے کہ وہاں ایک اعشاریہ آٹھ ٹریلین پلاسٹک کے ٹکڑے جمع ہو چکے ہیں، جو اسّی ہزار ٹن کے کچرے کے وزن کے برابر ہے۔
تصویر: Greenpeace/Justin Hofman
بجلی کا حصول
سمندروں کی صاف لہروں کی مدد سے 2030ء تک یورپ میں بجلی کی ضروریات کا 10 فیصد حاصل کیا جائے گا۔ اس براعظم میں اس طرح بجلی کا حصول برطانیہ میں سب سے زیادہ اہم قرار دیا جاتا ہے۔
تصویر: Getty Images/AFP/B. Bielmann
’سمندر زندگی سے جڑے ہیں‘
سابق امریکی صدر جان کینیڈی نے انسانوں کا پانی کے ساتھ تعلق بیان کرتے ہوئے کہا تھا، ’’انسانی جسم میں موجود رگوں میں دوڑتے خون میں نمک کی اتنی ہی مقدار ہے، جو سمندری پانی میں پائی جاتی ہے، اس لیے ہمارے خون، پسینے اور آنسوؤں میں بھی نمک ہوتا ہے۔‘‘ علامت نگاری کرتے ہوئے انہوں نے یہ بھی کہا تھا، ’’ہم سمندر سے جڑے ہوئے ہیں اور جب سمندر کی طرف بڑھتے ہیں، ہم اسی سمت جا رہے ہوتے ہیں، جہاں سے ہم آئے ہیں۔‘‘
تصویر: picture-alliance/AA/M. Ciftci
8 تصاویر1 | 8
لانسو کے مطابق جاپان، جنوبی کوریا، لبنان، مصر، ترکی، اٹلی، سپین اور امریکہ کے ساحل تیزی سے بڑھتے انفرا سٹرکچر سے سب سے زیادہ متاثر ہوئے ہیں۔ ایک اندازے کے مطابق ان ممالک میں سنہ 2100 تک سطح سمندر میں اضافے سے ساحلوں کے قریب عمارتوں اور ریت کے ٹیلوں کے درمیان فاصلہ 23 سے 30 فیصد مزید گھٹ جانے کا امکان ہے۔
ریت کے ٹیلے ا تنی اہمیت کے حامل کیوں ہیں؟
ایوا لانسو نے ڈوئچے ویلے کو بتایا کہ دنیا بھر میں ایک تہائی ساحلی پٹی ریتیلے ساحلوں پر مشتمل ہے۔ ان ساحلی علاقوں میں زمین مختلف قسم کی ہے۔ جن میں ریت کے ٹیلے، پتھریلی چٹانیں، تلچھٹ والی زمین وغیرہ شامل ہیں۔
لانسوکے مطابق انسانی زندگی میں ساحل سمندر اور ریت کے ٹیلوں کی اہمیت بنیادی ہے۔ یہ سیلاب کو روکنے کے علاوہ پینے کے پانی کا ایک اہم ذریعہ ہیں۔ اس کے ساتھ ہی یہ سمندری پودوں اور جانوروں کی کئی انواع کا قدرتی مسکن بھی ہیں۔ لیکن ساحلوں کے قریب بڑھتی ہوئی تعمیرات اور سطح سمندر میں اضافے سے ریت کے ٹیلے سکڑ رہے ہیں۔
پاکستانی ساحلوں کی صورتحال کیا ہے؟
انسٹی ٹیوٹ آف اوشیانوگرافی کراچی کی ایک تحقیق کے مطابق گذشتہ 4 دہائیوں میں کراچی کی ساحلی پٹی پر تیزی سے تعمیرات ہوئی ہیں۔ تحقیق سے معلوم ہوا کہ گزری کریک کا سمندری راستہ جو 1986 تک 14 مربع کلومیٹر پر محیط تھا اب سکڑ کر محض 11 مربع کلومیٹر رہ گیا ہے۔ واضح رہے کہ گزری کریک کراچی اور گرد و نواح میں واقع مینگروز کے جنگلات اور سمندری ماحولیاتی نظام کا ایک اہم حصہ ہے۔
اس تحقیق کے مطابق ساحل کے قریب تعمیرات کے جنون سے سمندری ایکو سسٹم اور مقامی افراد کا ذریعہ معاش شدید متاثر ہوا ہے۔ یہاں زیادہ تر افراد ماہی گیری کے پیشے سے وابسطہ تھے۔ مگر ساحلی پٹی پر مینگروز کے جنگلات متاثر ہونے سے مچھلیوں کی افزائش گاہیں تباہ ہو گئی ہیں۔
کنگ پینگوئن کی نسل تیزی سے ختم ہو رہی ہے
کنگ پینگوئن ایک انتہائی دلچسپ سمندری حیات ہے، جس کی ایک صفت اُس طویل مسافت طے کرنا ہے۔ اپنی اس عادت کے تحت یہ ہزاروں کلومیٹر تک تیرتا چلا جاتا ہے۔
تصویر: picture-alliance/dpa
کنگ پنگوئن۔ قطب جنوبی کا پرشکوہ شاہکار
کنگ پنگوئن کی جسامت بہت بڑی نہیں ہوتی۔ یہ پینگوئن میں دوسری بڑی جسامت کا حامل ہے۔ سمندر میں دیر تک تیرنا اس کی جبلت ہے۔ چھوٹی چھوٹی مچھلیاں اس کا من بھاتا کھاجا ہیں۔
تصویر: picture-alliance/blickwinkel/K. Wothe
کنگ پنگوئن کی نسل ناپید ہو رہی ہے
حالیہ کچھ برسوں کے دوران کنگ پینگوئن کی نسل میں شدید کمی دیکھی گئی ہے۔ اس کو ایک طرف سمندری درجہٴ حرارت میں تبدیلی کا سامنا ہے تو برفانی بلیاں بھی اس کے تعاقب میں رہتی ہیں۔
تصویر: Reuters/E. Su
سمندر کی خیریت پینگوئن سے جانیے
یہ عام طور پر کہا جاتا ہے کہ اگر پینگوئن خوش آباد ہیں تو سمجھ لیجیے کہ سمندر کے حالات بھی بہتر ہیں۔ اس ضرب المثل کے مطابق زمین کے درجہٴ حرارت میں اضافے نے سمندر کے پانی کے اوسط درجہٴ حرارت کو تبدیل کر دیا ہے اور اس کے ساتھ کاٹھ کباڑ بھی سمندر میں بے پناہ ہے۔ یہ سب پینگوئن کے لیے لیے بہتر نہیں ہے۔
جنوبی افریقہ اور قطب شمالی کے درمیان واقع ایک جزیرے پر رہنے والے کنگ پینگوئنز کی ایک بڑی تعداد ہلاک ہو چکی ہے۔ ان ہلاکتوں کو ماحولیاتی تبدیلیوں کے انتہائی منفی اثرات کا نتیجہ قرار دیا گیا ہے۔
تصویر: picture alliance/blickwinkel/K. Wothe
نھنا کنگ پنگوئن
یہ تصویر ایک دو ماہ کے کنگ پینگوئن کی ہے۔ ابتدا میں یہ سیاہی مائل ہوتا ہے اور بتدریج اس کی ہیت میں سفیدی اور زردی ظاہر ہونے لگتی ہے۔
تصویر: Reuters/E. Su
کنگ پینگوئن کا ایک جوڑا
قطب جنوبی کی شناخت کا حامل کنگ پینگوئن یورپی ملکوں کی طرح جرمنی کے کئی چڑیا گھروں کی زینت بھی ہے۔ یہ جوڑا جرمن شہر وُوپرٹال کے چڑیا گھر میں رکھا گیا ہے۔
تصویر: AP
قطب جنوبی کی پگھلتی برف اور کنگ پینگوئن
ویسے تو کنگ پینگوئن کا مسکن کروزیٹ جزائر ہیں۔ لیکن یہ بحر قطب جنوبی کے جنوب علاقے میں خوراک کی تلاش کے لیے پہنچتے ہیں اور اس برف پر چہل قدمی اُن کا من پسند کام خیال کیا جاتا ہے۔ پینگوئن کی یہ نسل اب قطب جنوبی میں قدرے کم دکھائی دیتی ہے۔
تصویر: picture-alliance/Wildlife
برفانی بلی بھی برفانی چیتے کی نسل سے ہے
بظاہر برفانی چیتا قطب جنوبی میں کم دکھائی دیتا ہے۔ اس علاقے میں گھنی پشم والی بلیوں کو ضرور دیکھا گیا ہے۔ یہ بنیادی طور پر برفانی چیتے کی نسل ہے۔ قطب جنوبی میں برفانی بھیڑیے بھی پینگوئن کی طاق میں ہوتے ہیں۔
تصویر: Getty Images
قطب جنوبی کی برفانی چادر بھی ناپید ہو رہی ہے
کنگ پینگوئن جنوبی سمندری حدود تک اپنی خوراک کے حصول کا سفر کرتے رہے ہیں اور اب ان سمندروں میں پانی اتنا ٹھنڈا نہیں رہا، جس میں یہ جانور خوشدلی سے زندہ رہ سکتا ہے۔ قطب جنوبی کی برفانی چادر بھی بگھل کر کمزور ہوتی جا رہی ہے۔ کسی جگہ پر سے اندرونی پہاڑ دکھائی دینے لگے ہیں۔ سارا ماحول کنگ پینگوئن کے لیے پریشان کن ہے۔
تصویر: picture-alliance/dpa
9 تصاویر1 | 9
گزری کریک اور ملحقہ علاقے جو کبھی مچھلیوں سے بھرے ہوتے تھے اب وہاں جیلی فش کا راج ہے اور ماہی گیر دیگر پیشے اختیار کرنے پر مجبور ہیں۔ اس کے ساتھ ہی کراچی کی ساحلی پٹی پر بڑے پیمانے پر رہائشی سکیموں کی تعمیر سے مون سون سیزن میں سیلاب کا خطرہ بھی بڑھ گیا ہے۔
مسئلے کا حل کیا ہے؟
رائل نیدر لینڈ انسٹی ٹیوٹ آف سی ریسرچ کے محققین کا کہنا ہے کہ ریتیلے ساحلوں کے قریب وہ علاقے جہاں ساحل تیزی سے سکڑ رہے ہیں انھیں "پروٹیکٹڈ ایریا" قرار دے کر وہاں ہر طرح کی تعمیرات پر پابندی لگانا ضروری ہے۔ اس کے ساتھ ہی دیگر علاقوں کے لیے تعمیرات کی حد مقرر کی جائے۔ یہ فاصلہ پروٹیکٹڈ ایریاز سے چار گنا زیادہ ہونا چاہئے تاکہ سطح سمندر میں اضافے سے مستقبل میں ان علاقوں میں ساحل بلکل غائب نہ ہو جائیں۔
اوا لانسو کہتی ہیں کہ دنیا بھر میں اب تک ریتیلے ساحلوں کے قریب صرف 16 فیصد علاقوں کو پروٹیکٹڈ ایریا قرار دیا گیا ہے۔ اس شرح کو تیزی سے بڑھانے کے علاوہ ساحلی علاقوں میں تعمیرات اور آبادکاری سے متعلق قوانین نافذ کرنا وقت کی ضرورت ہے۔