سکھوں کے مظاہرے: بھارت نے کینیڈا کے سفیر کو طلب کر لیا
27 مارچ 2023
بھارت نے نئی دہلی میں کینیڈا کے اعلیٰ سفارت کار کو طلب کرکے وینکوور میں اپنے مشن ہیڈ کوارٹر کے باہر سکھ علیحدگی پسندوں کے حامیوں کی جانب سے احتجاجی مظاہروں پر عدم اطمینان کا اظہار کیا ہے۔
اشتہار
نئی دہلی کا کہنا ہے کہ اسے توقع ہے کہ کینیڈا کی حکومت وینکوور میں بھارتی مشن کے ہیڈ کوارٹر کو تحفظ فراہم کرے گی۔ کینیڈا میں بڑی تعداد میں سکھ آباد ہیں جو، بھارتی ریاست پنجاب میں خالصتانی تحریک کے حامی ہیں۔
واضح رہے کہ بھارت کی ریاست پنجاب کے ایک مفرور سکھ علیحدگی پسند رہنما امرت پال سنگھ کے کینیڈا میں رہنے والے حامی بھی ایک آزاد سکھ ریاست کا مطالبہ کر رہے ہیں۔ کینیڈين میڈیا کے مطابق مقامی سکھ برادری نے بھارتی مشن کے باہر امرت پال سنگھ کی حمایت میں مظاہرہ کیا۔
اتوار کے روز نئی دہلی میں بھارتی وزارت خارجہ کے ترجمان نے ایک بیان میں کہا کہ اسے اس بات پر گہری تشویش ہے کہ آخر مظاہرین کو مبینہ طور پر اس کے سفارتی مشن کے تحفظ کی خلاف ورزی کرنے کی اجازت کیسے دی گئی۔
بیان میں کہا گیا کہ،’’توقع کی جاتی ہے کہ کینیڈا کی حکومت ہمارے سفارت کاروں کی حفاظت اور ہمارے سفارتخانے کے احاطے کی حفاظت کو یقینی بنانے کے لیے تمام ضروری اقدامات کرے گی تاکہ وہ معمول کے مطابق اپنے سفارتی ذمہ داریوں کو پورا کر سکیں۔‘‘
بیان میں مزید کہا گیا کہ بھارتی حکومت نے اس بارے میں وضاحت طلب کی ہے کہ پولیس کی موجودگی میں،’’ایسے عناصر کو ہمارے سفارتی مشن اور قونصل خانوں کی سلامتی کو نقصان پہنچانے کی اجازت کیسے دی گئی۔‘‘
ویانا کنونشن کے تحت کینیڈا کی حکومت کو اس کی ذمہ داریوں کے بارے میں یاد دلایا گیا، اور ان افراد کو گرفتار کرنے اور ان کے خلاف قانونی کارروائی کرنے کو کہا گیا ہے، ’’جن کی اس طرح کی کارروائیوں میں ملوث ہونے کی پہلے بھی شناخت کی جا چکی ہے۔‘‘
بھارت سے باہر کینیڈا میں دنیا کی سب سے بڑی سکھ کمیونٹی رہتی ہے۔
امرت پال سنگھ کون ہیں اور احتجاج کیوں ہو رہا ہے؟
امرت پال سنگھ ایک بنیاد پرست قسم کے سکھ مبلغ ہیں، جو حال ہی میں ایک علیحدہ سکھ ریاست 'خالصتان' کے قیام کے دیرینہ خواب کو دوبارہ زندہ کرنے کے بعد سرخیوں میں آئے ہیں۔ حالیہ مہینوں میں انہوں نے پنجاب کے دیہی علاقوں میں ریلیاں نکالیں اور انہوں نے سکھ مذہب کی اپنی سخت گیر تشریح کے ساتھ ہی خالصتان تحریک کو زندہ رکھنے پر زور دیا۔
بھارتی حکام نےگزشتہ ایک ہفتے سے بھی زیادہ وقت سے امرت پال سنگھ کی تلاش شروع کر رکھی اور اس سلسلے میں ان کے تقریبا 100 حامیوں کو گرفتار بھی کیا چا چکا ہے۔
اس دوران شمالی ریاست پنجاب میں موبائل اور انٹرنیٹ سروسز کو بند کر دیا گیا اور بہت سے علاقوں میں دیگر سخت بندشوں کے ساتھ ہی چار سے زائد افراد کے اجتماع پر پابندی کا بھی سامنا ہے۔
پولیس نے سنگھ اور ان کے حامیوں پر قتل کی کوشش، قانون نافذ کرنے والے اداروں میں رکاوٹ ڈالنے اور بدامنی پھیلانے کا الزام لگایا ہے۔
گزشتہ ہفتے بھارتی پولیس نے لندن میں اپنے ہائی کمیشن کے باہر ہونے والے احتجاج کی تحقیقات شروع کیں، جہاں سکھ مظاہرین پنجاب پولیس کی کارروائی کی مذمت کرنے کے لیے جمع ہوئے تھے۔ بہت سے مطاہرین نے ’’خالصتان‘‘ کی حمایت میں بینرز اٹھا رکھے تھے، اور احتجاج کے دوران کمیشن کی بالکونی سے بھارتی پرچم کو اتار پھینکا گیا تھا۔
امرت پال سنگھ کے حامیوں نے سان فرانسسکو میں بھارتی قونصل خانے کے باہر بھی احتجاج کیا تھا، جس کے بعد نئی دہلی نے امریکی محکمہ خارجہ کے ساتھ اپنا "سخت احتجاج" درج کر وایا تھا۔
اشتہار
خالصتانی تحریک
بھارتی صوبے پنجاب کو سکھوں کے لیے ایک علیحدہ ریاست خالصتان بنانے کی مہم کافی پرانی ہے اور اس سے وابستہ بیشتر رہنما امریکا، کینیڈا اور برطانیہ جیسے ممالک میں رہ کر اپنی مہم لاتے ہیں۔
چبھارتی ریاست پنجاب تقریباً 58 فیصد سکھ اور 39 فیصد ہندو آبادی پر مشتمل ہے۔ اس ریاست کو 1980ء اور 1990ء کی دہائی کے اوائل میں خالصتان کے حامیوں کی ایک پرتشدد علیحدگی پسند تحریک نے ہلا کر رکھ دیا تھا۔ اس دوران ہزاروں لوگ مارے گئے تھے۔
بھارت نے اکثر غیر ملکی حکومتوں سے بھارتی تارکین وطن میں سخت گیر سکھوں کی سرگرمیوں پر شکایت کی ہے، جو اس کا کہنا ہے کہ بڑے پیمانے پر مالی دباؤ کے ساتھ شورش کو بحال کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔
ص ز/ ک م (اے ایف پی، روئٹرز)
گولڈن ٹیمپل پر حملے کے تیس سال
سکھوں کے لیے ’خالصتان‘ کے نام سے ایک الگ وطن کے قیام کی تحریک کو ٹھیک تیس سال پہلے بھارتی فوج کے آپریشن بلیو سٹار کے ذریعے کچل دیا گیا تھا۔ چھ جون 1984ء کو ہونے والی اس کارروائی میں سینکڑوں ہلاکتیں ہوئی تھیں۔
تصویر: Getty Images
سکھوں کا مقدس ترین مقام
بھارتی شہر امرتسر میں سکھ مذہب کے پیروکاروں کا مقدس ترین مقام ’گولڈن ٹیمپل‘ واقع ہے۔ چھ جون کو اس عبادت گاہ پر حملے کے تیس برس مکمل ہو گئے۔ چھ جون 1984ء کو بھارتی فوج نے ’آپریشن بلیو سٹار‘ کے دوران اس عبادت گاہ میں گھس کر سینکڑوں افراد کو ہلاک کر دیا تھا۔ اس واقعے کی تیس ویں برسی کے موقع پر بھی گولڈن ٹیمپل میں ایک آزاد وطن کے حق میں نعرے لگائے گئے لیکن وقت کے ساتھ ساتھ یہ تحریک کمزور پڑ چکی ہے۔
تصویر: Narinder Nanu/AFP/Getty Images
تیس سالہ تقریب میں کرپانیں اور تلواریں
چھ جون 2014ء کو گولڈن ٹیمپل میں سکھوں کے دو گروپوں کے درمیان تصادم میں دونوں جانب سے تلواریں اور کرپانیں نکل آئیں اور کچھ لوگ زخمی ہو گئے۔ 1984ء کے فوجی آپریشن کے تیس برس مکمل ہونے پر یادگاری تقریب کے دوران سکھ مذہب کی ایک سیاسی جماعت شرومنی اکالی دل کے حامیوں نے معمولی اختلاف کے بعد آزاد ریاست کے حق میں نعرے لگانے شروع کر دیے، جنہیں بعد ازاں سکیورٹی گارڈز نے گوردوارے سے نکال دیا۔
تصویر: UNI
سکھ نوجوانوں کی بدلتی ترجیحات
گولڈن ٹیمپل پر حملے کی یاد میں تقریبات کا انعقاد ہر سال ہوتا ہے لیکن نوّے کی دہائی میں ’’خالصتان‘‘ کے لیے شروع ہونے والی تحریک اب ماند پڑتی جا رہی ہے۔ ایک آزاد سکھ ریاست کے مخالف سُکھدیو سندھو کہتے ہیں:’’اب پنجاب کے لوگ 1984ء کے حالات سے بہت آگے جا چکے ہیں۔ تب یہ تحریک اس وجہ سے کامیاب ہوئی تھی کہ نوجوان اس میں شامل تھے۔ ان نوجوانوں کی ترجحیات بدل چکی ہیں۔ وہ بندوقوں کی بجائے روزگار چاہتے ہیں۔‘‘
تصویر: N. Nanu/AFP/Getty Images
سنت جرنیل سنگھ بھنڈراں والے
80ء کے عشرے میں سکھ علیحدگی پسندوں کی قیادت سنت جرنیل سنگھ بھنڈراں والے نے کی، جو چھ جون 1984ء کو بھارتی فوج کے آپریشن کے دوران ہلاک ہو گئے تھے۔ اُس وقت اُن کی عمر صرف سینتیس سال تھی۔
تصویر: picture alliance/AP Images
جب فوجی بوٹوں سمیت اندر گھُس گئے
امرتسر میں چھ جون 1984ء کو کیے جانے والے فوجی آپریشن میں تقریباً 500 افراد مارے گئے تھے۔ یہ آپریشن وہاں موجود سکھ علیحدگی پسندوں کو گولڈن ٹیمپل سے نکالنے کے لیے کیا گیا تھا، جو سکھوں کے لیے ایک علیحدہ وطن خالصتان کا مطالبہ کر رہے تھے۔ اس وقت بھارتی فوجی سکھوں کے اس مقدس ترین مقام میں جوتوں سمیت داخل ہو گئے تھے۔ اس دوران ٹیمپل کی عمارت کو بھی نقصان پہنچا تھا۔
تصویر: picture-alliance/dpa
اندرا گاندھی اپنےسکھ محافظ کے انتقام کا نشانہ
گولڈن ٹیمپل میں فوجی آپریشن کے کچھ ہی عرصے بعد اُس وقت کی بھارتی وزیر اعظم اندرا گاندھی کو اُن کے اپنے ہی محافظوں ستونت سنگھ اور بے انت سنگھ نے گولی مار کر ہلاک کر دیا۔ اندرا گاندھی کے قتل کے بعد پھوٹنے والے فسادات میں سرکاری اعداد و شمار کے مطابق صرف نئی دہلی ہی میں 3000 سے زائد سکھوں کو قتل کر دیا گیا تھا۔ سکھ گروپوں کے مطابق یہ تعداد 4000 سے بھی زیادہ تھی۔ ہزاروں سکھ بے گھر بھی ہو گئے تھے۔
تصویر: picture-alliance/united archives
بھنڈراں والے کی یادیں اب بھی تازہ
یہ تصویر 2009ء کی ہے، جب گولڈن ٹیمپل پر حملے کو پچیس برس مکمل ہوئے تھے۔ سکھ علیحدگی پسند اب بھی ہر سال چھ جون کو گولڈن ٹیمپل پر جمع ہوتے ہیں اور خالصتان تحریک کی قیادت کرنے والے سنت جرنیل سنگھ بھنڈراں والے کو یاد کرتے ہیں۔
تصویر: Getty Images/AFP
سکھ مذہب کے بانی گورو نانک
امرتسر کے مرکزی سکھ میوزیم میں آویزاں اس پینٹنگ میں سکھ مذہب کے بانی گورو نانک تلونڈی (موجودہ پاکستان کے شہر ننکانہ صاحب) میں اپنے ساتھیوں کے ساتھ نظر آ رہے ہیں۔ گورو نانک کے ایک جانب اُن کے مسلمان ساتھی بھائی مردانہ اور دوسری جانب ہندو ساتھی بھائی بیلا کھڑے ہیں۔
امرتسر میں واقع گولڈن ٹیمپل دنیا بھر کے سکھوں کی مقدس ترین عبادت گاہ ہے، جہاں ہر وقت ایک میلہ سا لگا رہتا ہے۔ 2008ء کی اس تصویر میں پاکستان، بھارت اور دنیا بھر سے گئے ہوئے سکھ اپنے پہلے سکھ گورو گورو نانک دیو کی 539 ویں سالگرہ کی تقریبات میں شریک ہیں۔
تصویر: AP
بیرون ملک آباد سکھوں میں تحریک اب بھی زندہ
نیویارک میں سکھ علیحدگی پسندوں کے اجتماع کا ایک منظر۔ سکھوں کی آزادی کی تحریک اور اُن کے لیے ایک الگ وطن ’’خالصتان‘‘ کی حمایت کرنے والے اب بھی موجود ہیں۔ امریکا، کینیڈا، برطانیہ اور دیگر ملکوں میں مقیم تارکین وطن آج بھی خالصتان کے حق میں ہیں۔ نیوز ایجنسی اے ایف پی کے مطابق بیرون ملک مقیم سکھوں کی تعداد 18 سے 30 ملین کے قریب ہے اور آج بھی پنجاب کے ساتھ ان کے روابط قائم ہیں۔
تصویر: AP
سنگ بنیاد حضرت میاں میر نے رکھا
امرتسر کے گولڈن ٹیمپل کی بنیاد سکھ رہنما گورو ارجن صاحب کی خصوصی خواہش کے احترام میں لاہور سے خصوصی طور پر جانے والے ایک مسلمان صوفی بزرگ حضرت میاں میر نے سولہویں صدی میں رکھی تھی۔ یہ سنہری عبادت گاہ ایک خوبصورت تالاب میں تعمیر کی گئی ہے، جسے سیاحوں کی بھی ایک بڑی تعداد دیکھنے کے لیے جاتی ہے۔ سکھ اپنی اس عبادت گاہ کو مذہبی رواداری، محبت اور امن کی علامت گردانتے ہیں۔