سکھ رہنما کا قتل: کنیڈا کا بھارت کے خلاف الزامات کا اعادہ
22 ستمبر 2023
کینیڈا نے سکھ کارکن کی ہلاکت میں بھارتی حکومت کے ملوث ہونے کے الزامات کا اعادہ کرتے ہوئے نئی دہلی سے تعاون کی اپیل کی ہے۔ امریکہ کا کہنا ہے کہ اس معاملے میں بھارت کو کوئی رعایت نہیں دی گئی ہے۔
اشتہار
کینیڈا کے وزیر اعظم جسٹن ٹروڈو نے جمعرات کے روز ایک بار پھر ان الزامات کا اعادہ کیا کہ سکھ رہنما ہردیپ سنگھ نجر کے قتل میں بھارتی ایجنسیاں ملوث ہیں اور کہا کہ اس پر یقین کرنے کی ''معتبر وجوہات'' ہیں۔
انہوں نے کہا کہ ان کا ملک بین الاقوامی قوانین پر مبنی اصولوں پر عمل کرتا ہے اور بھارت کو اس معاملے کو سنجیدگی سے لینے کی ضرورت ہے، نیز اسے اس معاملے کو ٹالنے کے بجائے اوٹاوا کے ساتھ تعاون کرنا چاہیے۔
جمعرات کو نیویارک میں اقوام متحدہ میں کینیڈا کے مستقل مشن میں ایک پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے جسٹن ٹروڈو نے کہا، ''جیسا کہ میں نے پیر کے روز کہا تھا، اس بات پر یقین کرنے کی معتبر وجوہات ہیں کہ ایک کینیڈین کے قتل میں بھارتی حکومت کے ایجنٹ ملوث تھے۔''
ان کا مزید کہنا تھا، '' کینیڈاکی سرزمین پر، یعنی...ایک ایسی دنیا میں جہاں بین الاقوامی قوانین پر مبنی رٹ کی اہمیت ہوتی ہے، قانون کی حکمرانی میں یہ چیز انتہائی بنیادی اہمیت کی حامل ہوتی ہے...ہمارے ہاں آزاد جج اور مضبوط عدالتی نظام ہے۔''
جسٹن ٹروڈو نے کہا، ''ہم بھارتی حکومت سے مطالبہ کرتے ہیں کہ وہ اس معاملے کو سنجیدگی سے لے اور اس معاملے میں مکمل شفافیت اور احتساب نیز انصاف کو یقینی بنانے کے لیے ہمارے ساتھ مل کر کام کرے۔''
انہوں نے مزید کہا، ''ہم قانون کی حکمرانی پر مبنی ملک ہیں۔ ہم کینیڈا کے باشندوں کو محفوظ رکھنے اور اپنی اقدار اور بین الاقوامی قوانین پر مبنی آرڈر کو برقرار رکھنے کے لیے ضروری اقدام کرتے رہیں گے۔ فی الوقت ہماری توجہ بھی یہی ہے۔''
ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ ''ہم اس بات کو اجاگر کرنے کی کوشش کر رہے ہیں کہ کسی بھی ملک کے لیے اپنی سرزمین پر کسی شہری کے قتل میں ملوث ہونے کی بات کتنی ناقابل قبول ہو سکتی ہے۔''
بھارت کو رعایت نہیں، امریکہ
ادھر امریکہ کا کہنا ہے کہ وہ کینیڈا کی سرزمین پر سکھ رہنما ہردیپ سنگھ نجر کی ہلاکت کے بعد کے الزامات پر نئی دہلی اور اوٹاوا کے درمیان بڑھتے ہوئے سفارتی تناؤ کے درمیان بھارت اور کینیڈا کے ساتھ مسلسل رابطے میں ہے۔
حب قومی سلامتی کے مشیر جیک سلیوان سے پوچھا گیا کہ کیا امریکی صدر جو بائیڈن سفارتی تنازع پر وزیر اعظم نریندر مودی سے بات کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں، تو انہوں نے نامہ نگاروں کو بتایا کہ ''میں اس نجی سفارتی بات چیت کی تفصیل میں نہیں جاؤں گا، جو اس موضوع پر پہلے ہی ہو چکی ہیں یا ہونے والی ہے۔ ہم اس معاملے پر اعلیٰ سطح پر بھارت کے ساتھ رابطے میں رہے ہیں اور آئندہ بھی رہیں گے۔''
انہوں نے مزید کہا کہ یہ معاملہ، ''ہمارے لیے تشویشناک بات ہے۔ یہ وہ چیز ہے جسے ہم سنجیدگی سے لیتے ہیں۔ یہ وہ چیز ہے جس پر ہم کام کرتے رہیں گے۔'' انہوں نے مزید کہا کہ اس معاملے میں بھارت کو ''کوئی خاص چھوٹ'' نہیں دی گئی ہے۔
اشتہار
نئی دہلی نے کیا کہا؟
ادھر جمعرات کو نئی دہلی میں وزارت خارجہ کے ترجمان اریندم باغچی نے کہا کہ کینیڈا نے ان الزامات کے حوالے سے ابھی تک کوئی خاص معلومات شیئر نہیں کی ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ بھارت کینیڈا سے دہشت گردی سے متعلق الزامات کا سامنا کرنے والوں کے خلاف کارروائی کرنے کو کہتا رہا ہے۔
ترجمان نے اس حوالے سے سوالات کا جواب دیتے ہوئے کہا کہ ''ہم کسی بھی نوعیت کی مخصوص معلومات کو دیکھنے کے لیے تیار ہیں، جو ہمیں فراہم کی گئی ہوں، لیکن ابھی تک ہمیں کینیڈا سے کوئی خاص معلومات نہیں ملی ہیں۔''
بھارت اور کینیڈا میں سفارتی کشیدگی
قابل ذکر بات یہ ہے کہ اس سفارتی کشیدگی کے دوران ہی کینیڈا میں بھارت کے ویزا پروسیسنگ سینٹر نے جمعرات کو اپنی خدمات فوری طور پر معطل کر دی تھیں اور کہا تھا کہ آئندہ نوٹس تک انتظار کریں۔
رواں ہفتے پیر کے روز کینیڈا نے پہلی بار بھارتی حکومت پر اس قتل میں ملوث ہونے کا الزام عائد کرتے ہوئے بھارت کے ایک اعلی سفارت کار کو ملک بدر کرنے کا حکم دیا تھا۔ جواباً بھارت نے بھی کینیڈا کے ایک سفارت کار کو بے دخل کر دیا تھا۔
پھر کینیڈا نے بھارت میں اپنے شہریوں کے لیے ایک ایڈوائزری جاری کی تھی، اس کے رد عمل میں بھارت نے بھی سفری ایڈوائزری جاری کی، جسے کینیڈا نے پوری طرح سے مسترد کر دیا تھا۔
دنیا کے کئی ممالک پہلے ہی اس قتل کے حوالے سے تشویش کا اظہار کر چکے ہیں، جبکہ بھارت اور کینیڈا کی جانب سے بیان بازی کا سلسلہ جاری ہے۔
ص ز/ ج ا (نیوز ایجنسیاں)
گولڈن ٹیمپل پر حملے کے تیس سال
سکھوں کے لیے ’خالصتان‘ کے نام سے ایک الگ وطن کے قیام کی تحریک کو ٹھیک تیس سال پہلے بھارتی فوج کے آپریشن بلیو سٹار کے ذریعے کچل دیا گیا تھا۔ چھ جون 1984ء کو ہونے والی اس کارروائی میں سینکڑوں ہلاکتیں ہوئی تھیں۔
تصویر: Getty Images
سکھوں کا مقدس ترین مقام
بھارتی شہر امرتسر میں سکھ مذہب کے پیروکاروں کا مقدس ترین مقام ’گولڈن ٹیمپل‘ واقع ہے۔ چھ جون کو اس عبادت گاہ پر حملے کے تیس برس مکمل ہو گئے۔ چھ جون 1984ء کو بھارتی فوج نے ’آپریشن بلیو سٹار‘ کے دوران اس عبادت گاہ میں گھس کر سینکڑوں افراد کو ہلاک کر دیا تھا۔ اس واقعے کی تیس ویں برسی کے موقع پر بھی گولڈن ٹیمپل میں ایک آزاد وطن کے حق میں نعرے لگائے گئے لیکن وقت کے ساتھ ساتھ یہ تحریک کمزور پڑ چکی ہے۔
تصویر: Narinder Nanu/AFP/Getty Images
تیس سالہ تقریب میں کرپانیں اور تلواریں
چھ جون 2014ء کو گولڈن ٹیمپل میں سکھوں کے دو گروپوں کے درمیان تصادم میں دونوں جانب سے تلواریں اور کرپانیں نکل آئیں اور کچھ لوگ زخمی ہو گئے۔ 1984ء کے فوجی آپریشن کے تیس برس مکمل ہونے پر یادگاری تقریب کے دوران سکھ مذہب کی ایک سیاسی جماعت شرومنی اکالی دل کے حامیوں نے معمولی اختلاف کے بعد آزاد ریاست کے حق میں نعرے لگانے شروع کر دیے، جنہیں بعد ازاں سکیورٹی گارڈز نے گوردوارے سے نکال دیا۔
تصویر: UNI
سکھ نوجوانوں کی بدلتی ترجیحات
گولڈن ٹیمپل پر حملے کی یاد میں تقریبات کا انعقاد ہر سال ہوتا ہے لیکن نوّے کی دہائی میں ’’خالصتان‘‘ کے لیے شروع ہونے والی تحریک اب ماند پڑتی جا رہی ہے۔ ایک آزاد سکھ ریاست کے مخالف سُکھدیو سندھو کہتے ہیں:’’اب پنجاب کے لوگ 1984ء کے حالات سے بہت آگے جا چکے ہیں۔ تب یہ تحریک اس وجہ سے کامیاب ہوئی تھی کہ نوجوان اس میں شامل تھے۔ ان نوجوانوں کی ترجحیات بدل چکی ہیں۔ وہ بندوقوں کی بجائے روزگار چاہتے ہیں۔‘‘
تصویر: N. Nanu/AFP/Getty Images
سنت جرنیل سنگھ بھنڈراں والے
80ء کے عشرے میں سکھ علیحدگی پسندوں کی قیادت سنت جرنیل سنگھ بھنڈراں والے نے کی، جو چھ جون 1984ء کو بھارتی فوج کے آپریشن کے دوران ہلاک ہو گئے تھے۔ اُس وقت اُن کی عمر صرف سینتیس سال تھی۔
تصویر: picture alliance/AP Images
جب فوجی بوٹوں سمیت اندر گھُس گئے
امرتسر میں چھ جون 1984ء کو کیے جانے والے فوجی آپریشن میں تقریباً 500 افراد مارے گئے تھے۔ یہ آپریشن وہاں موجود سکھ علیحدگی پسندوں کو گولڈن ٹیمپل سے نکالنے کے لیے کیا گیا تھا، جو سکھوں کے لیے ایک علیحدہ وطن خالصتان کا مطالبہ کر رہے تھے۔ اس وقت بھارتی فوجی سکھوں کے اس مقدس ترین مقام میں جوتوں سمیت داخل ہو گئے تھے۔ اس دوران ٹیمپل کی عمارت کو بھی نقصان پہنچا تھا۔
تصویر: picture-alliance/dpa
اندرا گاندھی اپنےسکھ محافظ کے انتقام کا نشانہ
گولڈن ٹیمپل میں فوجی آپریشن کے کچھ ہی عرصے بعد اُس وقت کی بھارتی وزیر اعظم اندرا گاندھی کو اُن کے اپنے ہی محافظوں ستونت سنگھ اور بے انت سنگھ نے گولی مار کر ہلاک کر دیا۔ اندرا گاندھی کے قتل کے بعد پھوٹنے والے فسادات میں سرکاری اعداد و شمار کے مطابق صرف نئی دہلی ہی میں 3000 سے زائد سکھوں کو قتل کر دیا گیا تھا۔ سکھ گروپوں کے مطابق یہ تعداد 4000 سے بھی زیادہ تھی۔ ہزاروں سکھ بے گھر بھی ہو گئے تھے۔
تصویر: picture-alliance/united archives
بھنڈراں والے کی یادیں اب بھی تازہ
یہ تصویر 2009ء کی ہے، جب گولڈن ٹیمپل پر حملے کو پچیس برس مکمل ہوئے تھے۔ سکھ علیحدگی پسند اب بھی ہر سال چھ جون کو گولڈن ٹیمپل پر جمع ہوتے ہیں اور خالصتان تحریک کی قیادت کرنے والے سنت جرنیل سنگھ بھنڈراں والے کو یاد کرتے ہیں۔
تصویر: Getty Images/AFP
سکھ مذہب کے بانی گورو نانک
امرتسر کے مرکزی سکھ میوزیم میں آویزاں اس پینٹنگ میں سکھ مذہب کے بانی گورو نانک تلونڈی (موجودہ پاکستان کے شہر ننکانہ صاحب) میں اپنے ساتھیوں کے ساتھ نظر آ رہے ہیں۔ گورو نانک کے ایک جانب اُن کے مسلمان ساتھی بھائی مردانہ اور دوسری جانب ہندو ساتھی بھائی بیلا کھڑے ہیں۔
امرتسر میں واقع گولڈن ٹیمپل دنیا بھر کے سکھوں کی مقدس ترین عبادت گاہ ہے، جہاں ہر وقت ایک میلہ سا لگا رہتا ہے۔ 2008ء کی اس تصویر میں پاکستان، بھارت اور دنیا بھر سے گئے ہوئے سکھ اپنے پہلے سکھ گورو گورو نانک دیو کی 539 ویں سالگرہ کی تقریبات میں شریک ہیں۔
تصویر: AP
بیرون ملک آباد سکھوں میں تحریک اب بھی زندہ
نیویارک میں سکھ علیحدگی پسندوں کے اجتماع کا ایک منظر۔ سکھوں کی آزادی کی تحریک اور اُن کے لیے ایک الگ وطن ’’خالصتان‘‘ کی حمایت کرنے والے اب بھی موجود ہیں۔ امریکا، کینیڈا، برطانیہ اور دیگر ملکوں میں مقیم تارکین وطن آج بھی خالصتان کے حق میں ہیں۔ نیوز ایجنسی اے ایف پی کے مطابق بیرون ملک مقیم سکھوں کی تعداد 18 سے 30 ملین کے قریب ہے اور آج بھی پنجاب کے ساتھ ان کے روابط قائم ہیں۔
تصویر: AP
سنگ بنیاد حضرت میاں میر نے رکھا
امرتسر کے گولڈن ٹیمپل کی بنیاد سکھ رہنما گورو ارجن صاحب کی خصوصی خواہش کے احترام میں لاہور سے خصوصی طور پر جانے والے ایک مسلمان صوفی بزرگ حضرت میاں میر نے سولہویں صدی میں رکھی تھی۔ یہ سنہری عبادت گاہ ایک خوبصورت تالاب میں تعمیر کی گئی ہے، جسے سیاحوں کی بھی ایک بڑی تعداد دیکھنے کے لیے جاتی ہے۔ سکھ اپنی اس عبادت گاہ کو مذہبی رواداری، محبت اور امن کی علامت گردانتے ہیں۔