سکھ قانون سازمسلم خواتین کے لیے برطانوی وزیراعظم پر برہم
5 ستمبر 2019
ایک سکھ قانون ساز نے برطانوی وزیراعظم بورس جانسن کی جانب سے مسلم خواتین کی بابت ’توہین آمیز اور نسل پرستانہ جملوں‘ پر شدید احتجاج کیا اور ان سے معافی مانگنے کو کہا۔
اشتہار
بدھ کو برطانوی پارلیمان میں بریگزٹ کے موضوع پر بحث کے موقع پر ایک سکھ قانون ساز نے وزیراعظم بورس جانسن کے گزشتہ برس مسلم خواتین سے متعلق بیانات کو 'توہین آمیز اور نسل پرستانہ‘ قرار دیتے ہوئے تنقید کی اور وزیراعظم سے کہا کہ وہ اپنے اس بیان پر معذرت کریں۔
بورس جانسن کی جانب سے برطانوی ایوانِ زیریں میں بطور وزیراعظم اپنے پہلے سوال و جواب کے سیشن میں شریک تھے۔ تن من جیت سنجھ دھیسی نے اس موقع پر قدامت پسند جماعت سے تعلق رکھنے والے بورس جانسن سے کہا کہ انہوں نے ایک اخباری کالم میں جس طرح مسلم خواتین کو مخاطب کیا وہ ناقابل قبول ہے۔ جانسن نے اپنے اس کالم میں برقعہ پہننے والی مسلم خواتین کو 'لیٹر بکس‘ اور 'بینک ڈکیتوں‘ سے تشبیہ دی تھی۔
تن من جیت سنگھ دھیسی نے کہا، ''ہم میں سے وہ تمام لوگ اس انداز کے جملے اپنے بچپن سے سن رہے ہیں۔ کبھی ہمیں تولیہ بند سر کہا جاتا ہے، کبھی طالبان اور کبھی بونگو بونگو ملک سے آنے والے، ہم اس درد کو مکمل طور پر محسوس کر سکتے ہیں، جو مسلم خواتین کو بینک ڈکیت اور لیٹر بکس کہنے پر انہیں محسوس ہوا ہو گا۔‘‘
لیبر پارٹی سے تعلق رکھنے والے رہنما سنگھ مخصوص سکھ دستار پہننے والے برطانوی ایوانِ زیریں کے پہلے قانون ساز ہیں۔ وہ سن 2017ء میں منتخب ہو کر ایوانِ زیریں کا حصہ بنے۔
انہوں نے اپنے بیان میں کہا، ''اس لیے تفتیش کو چھپانے اور شرم کے پیچھے چھپنے کی بجائے، وزیراعظم آخر کب اپنے ان توہین آمیز اور نسل پرستانہ جملوں پر معذرت کریں گے؟‘‘
برقعہ اور نقاب کن یورپی اور مسلم ممالک میں ممنوع ہے؟
ہالینڈ میں یکم اگست سے چہرے کے مکمل نقاب پر پابندی پر عملدرآمد شروع ہو گیا ہے۔ کچھ دیگر یورپی ممالک پہلے ہی اسی طرح کے اقدامات اٹھا چکے ہیں۔ کیا آپ جانتے ہیں کہ کچھ مسلم ممالک نے بھی برقع پر پابندی عائد کر رکھی ہے۔
تصویر: Reuters/A. Kelly
چودہ برسوں کی طویل بحث
چودہ برسوں کی طویل بحث کے بعد آخر کار یکم اگست سن دو ہزار انیس سے ہالینڈ میں خواتین کے برقعے یا چہرے کے مکمل نقاب پر پابندی کے متنازعہ قانون پر عملدرآمد شروع ہو گیا۔ گزشتہ جون میں ڈچ قانون سازوں نے اس قانون کی منظوری دی تھی۔
تصویر: Getty Images/AFP/J. Lampen
فرانس، نقاب پر پابندی لگانے والا پہلا ملک
فرانس وہ پہلا یورپی ملک ہے جس نے عوامی مقامات پر خواتین کے برقعہ پہننے اور نقاب کرنے پر پابندی عائد کی تھی۔ پیرس حکومت نے یہ بین اپریل سن 2011 سے لگا رکھا ہے۔ اس پابندی سے پردہ کرنے والی قریب دو ہزار مسلم خواتین متاثر ہوئی تھیں۔
تصویر: dapd
بیلجیم میں بھی پردہ ممنوع
فرانس کے نقاب اور برقعے کی ممانعت کے صرف تین ماہ بعد جولائی سن 2011 میں بیلجیم نے بھی پردے کے ذریعے چہرہ چھپانے پر پابندی لگا دی۔ بیلجیم کے قانون میں چہرہ چھپانے والی خواتین کو نقد جرمانے سمیت سات دن تک قید کی سزا دی جا سکتی ہے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/B. Roessler
آسٹریا میں نقاب پر پابندی کے قانون کی منظوری
خواتین کے نقاب پر پابندی کا قانون آسٹریا میں سن 2017 اکتوبر میں منظور کیا گیا۔ اس قانون کی رُو سے عوامی مقامات میں چہرے کو واضح طور پر نظر آنا چاہیے۔
تصویر: picture-alliance/AP Photo
پردے پر پابندی بلغاریہ میں بھی لیکن استثنا کے ساتھ
ہالینڈ کی طرح بلغاریہ نے بھی چہرہ چھپانے پر پابندی سن 2016 میں عائد کی تھی۔ خلاف ورزی کرنے والی خاتون کو ساڑھے سات سو یورو تک کا جرمانہ بھرنا پڑ سکتا ہے۔ تاہم عبادت گاہوں، کھیل کے مقامات اور دفاتر میں اس پابندی سے استثنا حاصل ہے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/S. Sabawoon
ڈنمارک بھی
ڈنمارک میں چہرہ چھپانے اور برقعے پر پابندی یکم اگست سن 2018 سے نافذالعمل ہوئی۔ گزشتہ برس مئی میں ڈینش پارلیمان نے اس قانون کو اکثریت سے منظور کیا تھا۔ اس قانونی مسودے کی منظوری کے بعد ڈینش حکومت کی طرف سے کہا گیا تھا کہ اس پابندی کا ہدف کوئی مذہب نہیں ہے۔
تصویر: Grips Theater/David Balzer
شمالی افریقی ملک مراکش میں پابندی
مراکش نے2017 میں برقع یا چہرے کو مکمل طور پر ڈھانپنے والے ملبوسات کی پروڈکشن پر پابندی عائد کی تھی۔ اس مسلم اکثریتی ملک میں بھی اس پابندی کی وجہ سکیورٹی تحفظات بتائے گئے تھے۔ تب حکومت کا کہنا تھا کہ ڈاکو اپنی مجرمانہ کارروائیوں کے لیے پردے کو ہتھیار کے طور پر استعمال کرتے ہیں۔ مقامی میڈیا نے رپورٹ کیا تھا کہ اس لباس پر بھی پابندی عائد کر دی گئی تھی لیکن حکومت کی طرف سے اس کی تصدیق نہیں کی گئی تھی۔
تصویر: picture alliance/blickwinkel/W. G. Allgoewer
چاڈ میں برقع پر پابندی
افریقی ملک چاڈ میں جون سن دو ہزار پندرہ میں ہوئے دوہرے خود کش حملوں کے بعد مکمل چہرے کے پردے پر پابندی عائد کر دی گئی تھی۔ تب حکومت نے کہا تھا کہ شدت پسند تنظیم بوکو حرام کے جنگجوؤں نے ان حملوں کو کامیاب بنانے کے لیے پردے کو بہانہ بنایا تھا۔ اس ملک کی پچاس فیصد سے زائد آبادی مسلمان ہے۔
تصویر: AFP/Getty Images
تیونس میں سکیورٹی تحفظات
تیونس میں جون سن دو ہزار انیس میں ہوئے دہشت گردانہ حملوں کے بعد ملکی صدر نے چہرے کو مکمل طور پر ڈھاانپنے پر پابندی عائد کر دی تھی۔ اس مسلم ملک میں اس پابندی کی وجہ سکیورٹی تحفظات بنے تھے۔
تصویر: Taieb Kadri
تاجکستان، کچھ چھپانے کی ضرورت نہیں
وسطی ایشیائی ملک تاجکستان میں ستمبر سن دو ہزار سترہ میں پہلے سے موجود ایک قانون میں ترمیم کے ذریعے مقامی ملبوسات کو فروغ دینے پر زور دیا گیا تھا۔ اس مسلم اکثریتی ملک میں اس قانون کے تحت چہرے کا مکمل پردہ یا برقع ممنوع قرار دے دیا گیا تھا۔ تاہم اس قانون کی خلاف ورزی پر کوئی سزا یا جرمانہ نہیں رکھا گیا تھا۔
تصویر: picture-alliance/dpa/TASS/M. Kalandarov
10 تصاویر1 | 10
انہوں نے مزید کہا کہ وہ وزیراعظم سے پوچھتے ہیں کہ وہ اپنی جماعت میں بڑھتے اسلاموفوبیا کے رجحان کی تفتیش کا حکم کب جاری کریں گے، جب کہ خود انہوں نے قومی ٹی وی چینل پر اس کا وعدہ کیا تھا۔
سنگھ کے ان جملوں میں ایوانِ زیریں میں قانون سازوں نے تالیاں بجا کر ان کے ان جملوں کا خیرمقدم کیا۔
اس کے جواب میں بورس جانسن نے کہا کہ ان کا اخباری کالم برطانیہ میں 'لبرل نکتہ ہائے نظر کا مضبوط دفاع‘ تھا اور یہ افراد کا ذاتی حق ہے کہ وہ برطانیہ میں اپنے لیے جو لباس مناسب سمجھیں پہنیں۔ انہوں نے کہا کہ ان کی کابینہ برطانوی تاریخ کی سب سے متنوع کابینہ ہے، جس میں ہر پس منظر کے افراد شامل کیے گئے ہیں۔ تاہم انہوں نے لیبر پارٹی پر جوابی حملہ کرتے ہوئے کہا کہ لیبر پارٹی کو اپنے اندر 'سامیت دشمنی کے وائرس‘ پر معذرت کرنا چاہیے جو اس جماعت میں ہر سطح پر سرایت کر چکا ہے۔
اپنے اس جواب میں انہوں نے سنگھ کے اس مطالبے پر بات نہیں کی، جس میں کہا گیا تھا کہ وزیراعظم بورس جانسن قدامت پسند جماعت میں اسلاموفوبیا سے متعلق تفتیش کب شروع کرنے والے ہیں؟