1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

سکیورٹی اداروں کی طرف سے دھمکیاں:عاصمہ جہانگیر کا ڈوئچے ویلے سے انٹرویو

5 جون 2012

پاکستان میں انسانی حقوق کے لیے کام کرنے والی سرگرم کارکن عاصمہ جہانگیر سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن کی سابق صدر اور ہیومن رائٹس کمیشن آف پاکستان کی سابق چیئر پرسن بھی ہیں۔

تصویر: Mukhtar Khan/AP/dapd

وہ مذہبی آزادی سے متعلق اقوام متحدہ کی خصوصی رابطہ کار کے فرائض بھی انجام دے چکی ہیں۔ عاصمہ جہانگیر نے ابھی حال ہی میں پاکستانی سکیورٹی ایجنسیوں کے خلاف بڑی سنجیدہ نوعیت کے الزامات بھی لگائے۔

عاصمہ جہانگیر نے جن پاکستانی سکیورٹی اداروں پر بہت سنجیدہ نوعیت کے الزامات عائد کیے، ان میں ملکی فوج کا خفیہ ادارہ آئی ایس آئی بھی شامل ہے۔ کیا ان الزامات کے سلسلے میں پاکستان کی اس بہت معروف خاتون ماہر قانون کے ذرائع قابل اعتماد ہیں؟ اس بارے میں انہوں نے ڈوئچے ویلے کو بتایا، 'میں ایک بہت ذمہ دار انسان ہوں۔ عام طور پر میں ایسے کوئی الزامات نہیں لگاتی۔ مجھے زندگی میں کئی بار دھمکیاں دی گئیں، لیکن میں نہ تو کبھی پولیس کے پاس گئی اور نہ ہی میں نے اس بارے میں کبھی کوئی شور مچایا۔ میرا خیال ہے کہ اب یہ میرا فرض ہے کہ میں وہ کہوں جو کہنا ضروری ہے۔ میرے ذرائع باوثوق ہیں۔‘

عاصمہ جہانگیر سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن کی سابق صدر ہیںتصویر: picture-alliance/dpa

عاصمہ جہانگیر کا دعویٰ ہے کہ پاکستانی فوج کے خفیہ ادارے آئی ایس آئی نے انہیں قتل کرانے کی منصوبہ بندی بھی کی۔ اس بارے میں اس سوال کے جواب میں کہ عاصمہ جہانگیر نے پاکستانی سیاست میں فوج کے کردار پر ہمیشہ تنقید کی ہے اور وہ مسلح افواج کے خفیہ اداروں کی طرف سے ملک میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کے خلاف بھی آواز اٹھاتی رہی ہیں، تو کیا یہی وجہ ہے کہ خفیہ ادارے انہیں مبینہ طور پر اپنے راستے سے ہٹانا چاہتے ہیں؟ عاصمہ جہانگیر نے ڈوئچے ویلے کو بتایا،

’یہ درست ہے کہ میں نے ہمیشہ ان پر تنقید کی ہے۔ لیکن میں نے کبھی بھی ان اداروں پر بلا وجہ تنقید نہیں کی۔ میں ان کی پالیسیوں پر تنقید کرتی ہوں، جن سے میں اتفاق نہیں کرتی۔ مثال کے طور پر میں نے اچانک لاپتہ ہو جانے والے شہریوں کے بارے میں مقدمات میں جو کچھ بھی عدالتوں میں کہا، وہ وہی ہے جو لوگ پہلے بھی عدالتوں میں کہہ چکے ہیں۔ مجھے امید تھی کہ شاید اسٹیبلشمنٹ کی ذہنیت بدل جائے، لیکن افسوس کہ بظاہر ایسا نہیں ہوا۔‘

وزیر اعظم گیلانی اورسابقہ آئی ایس آئی چیف احمد شجاع پاشا، فائل فوٹوتصویر: picture-alliance/dpa

اس سوال کے جواب میں کہ عاصمہ جہانگیر انسانی حقوق کی ایک سرگرم کارکن اور ایک مشہور وکیل ہیں، تو کیا آئی ایس آئی یا دیگر خفیہ ادارے ان جیسی بین لااقوامی سطح پر مشہور کسی بھی شخصیت کو با آسانی قتل کروا سکتے ہیں؟

عاصمہ جہانگیر نے کہا،’مجھے آپ کو پاکستان کی تاریخ یاد دلانا ہو گی۔ پاکستان میں بھی مشہور شخصیات اسی طرح قتل ہوئی ہیں جیسے کسی دوسرے ملک میں۔ پاکستان اور دیگر ملکوں میں فرق یہ ہے کہ پاکستان میں کوئی بھی کبھی بھی یہ نہیں جان سکا کہ قتل کے ایسے واقعات کا ذمہ دار کون ہے۔ بلوچ قوم پسند رہنما اکبر بگٹی بھی ایک سرکردہ شخصیت تھے۔ یہ تنبیہ بھی کی گئی تھی کہ وہ مارے جائیں گے۔ پھر جب وہ واقعی ہلاک کر دیے گئے تو کسی کو بھی ان کے قتل کا ذمہ دار نہیں ٹھہرایا گیا۔‘

پاکستان میں اس وقت ایک جمہوری طور پر منتخب حکومت اقتدار میں ہے۔ کیا یہ حکومت اس قابل نہیں کہ وہ عام شہریوں کی حفاظت کر سکے یا پھر فوجی خفیہ ادارے اتنے مضبوط ہیں کہ وہ کسی کو بھی جواب دیے بغیر کچھ بھی کر سکتے ہیں؟ اس بارے میں عاصمہ جہانگیر نے کہا کہ انہوں نے پاکستان پیپلز پارٹی کی حکومت کو یہ واضح پیغام دے دیا ہے کہ ان کی حفاظت حکومت کی ذمہ داری ہے۔ عاصمہ جہانگیر کے بقول اگر ان کی سلامتی کو یقینی بنانے کے لیے کافی اقدامات نہ کیے گئے تو تمام تر ذمہ داری حکومت پر عائد ہوں گی۔ ہیومن رائٹس کمیشن آف پاکستان کی اس سابق چیئر پرسن کے مطابق اب تک حکومت نے ان کی حفاظت کے لیے جو اقدامات کیے ہیں، وہ کافی نہیں ہیں۔

ss / ij /km

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ سیکشن پر جائیں

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ

ڈی ڈبلیو کی مزید رپورٹیں سیکشن پر جائیں