سکیورٹی فورسز نے تشدد کا نشانہ بنایا، روہنگیا مسلم خواتین
عاطف بلوچ، روئٹرز
16 جولائی 2017
روہنگیا مسلم خواتین نے بین الاقوامی میڈیا سے گفتگو میں اپنے اوپر ہونے والے مبینہ ظلم وستم کی داستانیں سنائی ہیں۔ راکھین صوبے میں شروع ہونے والے تشدد کے بعد پہلی مرتبہ غیر ملکی صحافیوں نے وہاں ان خواتین سے ملاقاتیں کیں۔
اشتہار
عالمی خبر رساں اداروں کے مطابق بین الاقوامی صحافیوں کی ایک ٹیم نے میانمار کے صوبے راکھین کا دورہ کیا، جہاں روہنگیا مسلمان کمیونٹی سے تعلق رکھنے والی مسلم خواتین نے اپنے اوپر بیتنے والی ظلم کی مبینہ کہانیاں سنائیں۔ بتایا گیا ہے کہ ان غیر ملکی صحافیوں کو سکیورٹی حصار میں متاثرہ علاقوں میں لے جایا گیا۔ مسلم روہنگیا خواتین نے ان صحافیوں کو بتایا کہ ان کے کئی رشتہ دار لاپتہ ہو چکے ہیں۔ اس کمیونٹی سے تعلق رکھنے والے افراد کا الزام ہے کہ میانمار کی سکیورٹی فورسز ان کی املاک کو تباہ کرنے، مردوں کو ہلاک کرنے اور خواتین کے ساتھ جنسی زیادتی کی مرتکب بھی ہوئی ہیں۔
ساربیدہ نامی ایک نوجوان ماں نے کہا، ’’میرا بیٹا دہشت گرد نہیں ہے، پھر بھی اسے گرفتار کر لیا گیا ہے۔‘‘ ایک شیرخوار کو اپنی گود میں لیے اس خاتون کا مزید کہنا تھا کہ جب اس کے چودہ سالہ بیٹے کو گرفتار کیا گیا تو وہ ایک فارم پر کام کر رہا تھا۔ دیگر کئی خواتین نے بھی کہا کہ ان کے شوہروں کو جھوٹے الزامات کے تحت حراست میں لیا جا چکا ہے۔ تاہم میانمار حکومت ان الزامات کو مسترد کرتی ہے۔
میانمار کی سکیورٹی فورسز نے گزشتہ برس نومبر میں راکھین کے علاقے ماؤنگ ڈو میں بھی مشتبہ شرپسند عناصر کے خلاف کارروائی شروع کی تھی۔ اسی علاقے میں روہنگیا کمیونٹی کی ایک بڑی تعداد آباد تھی۔ اقوام متحدہ کے مطابق تب سے اب تک کم ازکم 75 ہزار روہنگیا مسلمان اپنی سلامتی کو یقینی بنانے کی خاطر ہمسایہ ملک بنگلہ دیش فرار ہو چکے ہیں۔
اقوام متحدہ کے معائنہ کاروں نے بنگلہ دیش میں موجود ان روہنگیا مہاجرین سے انٹرویوز کے بعد کہا ہے کہ اس کمیونٹی کی خواتین کے ساتھ اجتماعی جنسی زیادتی، تشدد اور املاک کو نقصان پہنچانے کے الزامات مبینہ طور پر انسانیت کے خلاف جرائم کے زمرے میں آ سکتے ہیں۔ تاہم نوبل امن انعام یافتہ میانمار کی جمہوری رہنما آنگ سان سوچی زیادہ تر الزامات کو مسترد کرتی ہیں۔
روہنگیا مسلمان کون ہیں؟
میانمار (برما) کے مغربی صوبے راكھین میں روہنگیا مسلمانوں کی آبادی تقریباﹰ دس لاکھ ہے۔ لیکن ان کی زندگیاں تشدد، امتیازی سلوک، بے بسی اور مفلسی سے زیادہ کچھ نہیں ہیں۔ جانیے روہنگیا اقلیت کے بارے میں حقائق۔
تصویر: Reuters/M.P.Hossain
کوئی ملک نہیں
روہنگیا خواتین، بچوں اور مردوں کا کوئی ملک نہیں ہے یعنی ان کے پاس کسی بھی ملک کی شہریت نہیں۔ رہتے یہ ميانمار میں ہیں لیکن انہیں صرف غیر قانونی بنگلہ دیشی مہاجر مانا جاتا ہے۔
تصویر: DW/C. Kapoor
سب سے زیادہ نسلی تشدد کا سامنا
میانمار کے اکثریتی بدھ مت افراد اور اس ملک کی سکیورٹی فورسز پر روہنگیا مسلمانوں کو نسلی تشدد کا نشانہ بنانے کا الزام عائد کیا جاتا ہے۔ روہنگیا لوگوں کو کوئی بھی حقوق یا اختیار حاصل نہیں ہیں۔ اقوام متحدہ کے مطابق یہ دنیا کی وہ اقلیت ہے، جسے اس وقت سب سے زیادہ نسلی تشدد کا سامنا ہے۔
تصویر: Reuters/M.P.Hossain
سفری پابندیاں
یہ لوگ نہ تو اپنی مرضی سے ایک جگہ سے دوسری جگہ پر جا سکتے ہیں اور نہ ہی اپنی مرضی سے کام کر سکتے ہیں۔ جن گھروں اور جھونپڑیوں میں یہ رہتے ہیں، انہیں کبھی بھی اور کسی بھی وقت خالی کرنے کو کہہ دیا جاتا ہے۔ میانمار میں ان لوگوں کی کہیں بھی سُنوائی نہیں ہوتی۔
تصویر: Reuters/M.P.Hossain
کیا یہ بنگالی ہیں؟
یہ لوگ کئی دہائیوں سے راكھین صوبے میں رہ رہے ہیں لیکن وہاں کے بدھ مت لوگ انہیں "بنگالی" کہہ کر دھتكارتے ہیں۔ یہ لوگ جو بولی بولتے ہیں، ویسی بنگلہ دیش کے جنوبی علاقے چٹاگانگ میں بولی جاتی ہے۔ روہنگیا لوگ سنی مسلمان ہیں۔
تصویر: Getty Images/Afp/C. Archambault
پرخطر سفر
اقوام متحدہ کا کہنا ہے کہ 2012ء میں مذہبی تشدد کا سلسلہ شروع ہونے کے بعد سے تقریباﹰ ایک لاکھ بیس ہزار روہنگیا مسلمان راكھین چھوڑ چکے ہیں۔ ان میں سے بہت سے لوگ سمندر میں کشتیاں ڈوبنے سے ہلاک بھی ہوئے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/Y. Pruksarak
اجتماعی قبریں
ملائیشیا اور تھائی لینڈ کی سرحد کے قریب روہنگیا افرادکی متعدد اجتماعی قبریں ملی ہیں۔ 2015ء میں جب غیرقانونی تارکین کے خلاف کچھ سختی کی گئی تو کشتیوں پر سوار سینکڑوں روہنگیا کئی دنوں تک سمندر میں پھنسے رہے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/F. Ismail
انسانی اسمگلنگ
روہنگیا اقلیت کی مجبوری کا فائدہ انسانوں کی اسمگلنگ کرنے والے گروہ اٹھا رہے ہیں۔ یہ مجبور لوگ اپنی جمع پونجی انہیں سونپ کر کسی محفوظ مقام کے لیے اپنی زندگی خطرے میں ڈالنے پر مجبور ہوتے ہیں۔
تصویر: DW/C. Kapoor
بنگلہ دیش کی طرف نقل مکانی
میانمار سے ملحق بنگلہ دیش کے جنوبی حصے میں تقریباﹰ تین لاکھ روہنگیا باشندے رہتے ہیں۔ ان میں سے زیادہ تر ایسے ہیں، جو میانمار سے جان بچا کر وہاں پہنچے ہیں۔
تصویر: Reuters/M.P.Hossain
پناہ حاصل کرنا آسان نہیں
ایسے روہنگیا کم ہی ہیں، جنہیں بنگلہ دیشی حکومت مہاجرین کے طور پر تسلیم کرتی ہے۔ یہ کشتیوں کے ذریعے بنگلہ دیش میں داخل ہونے کی کوشش کرتے ہیں لیکن بنگلہ دیشی سکیورٹی فورسز انہیں زبردستی واپس میانمار کی طرف بھیج دیتی ہیں۔
تصویر: Reuters
جہاں بھی پناہ ملے
بنگلادیش کے علاوہ روہنگیا لوگ بھارت، تھائی لینڈ، ملائیشیا اور چین جیسے ممالک کا بھی رخ کر رہے ہیں۔ یہ سبھی ممالک میانمار سے قریب ہیں۔
تصویر: DW/C. Kapoor
’امن کے لیے خطرہ‘
میانمار کی سکیورٹی فورسز کے مطابق چیک پوسٹوں پر ہونے والے حالیہ چند حملوں میں روہنگیا نسل کے باغی ملوث تھے۔ اس کے جواب میں روہنگیا باشندوں کے کئی دیہات کو جلا دیا گیا تھا۔ سکیورٹی فورسز کے مطابق یہ ’امن کے لیے خطرہ‘ ہیں۔
تصویر: Reuters/Soe Zeya Tun
انسانی حقوق کی تنظیموں کی اپیل
انسانی حقوق کے متعدد گروپ میانمار حکومت سے اپیل کر چکے ہیں کہ روہنگیا کو بنیادی انسانی حقوق فراہم کرنے کے ساتھ ساتھ انہیں ملکی شہریت دی جائے۔
تصویر: picture-alliance/AP Photo/S. Yulinnas
قانونی رکاوٹ
میانمار میں روہنگیا افراد کو ایک نسلی گروپ کے طور پر تسلیم ہی نہیں کیا جاتا۔ اس کی ایک وجہ 1982ء کا وہ قانون بھی ہے، جس کے مطابق شہریت حاصل کرنے کے لیے کسی بھی نسلی گروپ کو یہ ثابت کرنا ہے کہ وہ 1823ء سے قبل بھی میانمار میں ہی تھا۔
تصویر: picture-alliance/dpa/N. Win
آنگ سان سوچی پر تنقید
نوبل امن انعام یافتہ اور حکمران پارٹی کی لیڈر آنگ سان سوچی نے روہنگیا مسلمانوں کی حالت زار پر تقریبا خاموشی اختیار کر رکھی ہے، جس پر انہیں تنقید کا نشانہ بھی بنایا جا رہا ہے۔ خیال کیا جاتا ہے کہ وہ اس معاملے پر ملک کی طاقتور فوج سے اختلاف کرنا نہیں چاہتی۔
تصویر: picture alliance/AP Photo/Aung Shine Oo
14 تصاویر1 | 14
اس تناظر میں سوچی اقوام متحدہ کے معائنہ کاروں کی میانمار کے متاثرہ علاقوں میں آمد کے بھی خلاف ہیں۔ میانمار کی حکومت نے گزشتہ نو ماہ تک آزاد مبصرین اور بین الاقوامی صحافیوں کو بھی متاثرہ علاقوں میں رپورٹنگ کی غرض سے جانے کی اجازت نہیں دی تھی۔
تاہم اسی ہفتے میانمار کی وزارت اطلاعات نے ایک درجن سے زائد غیر ملکی صحافیوں کو متاثرہ علاقوں کا دورہ کرنے کی اجازت دی۔ دو روزہ قیام کے دوران ان صحافیوں کو راکھین کے علاقے ماؤنگ ڈو لے جایا گیا، جہاں انہوں نے متاثرہ افراد سے گفتگو کی۔ روئٹرز نے بتایا ہے کہ جیسے ہی سکیورٹی فورسز سے الگ ہو کر روہنگیا کمیونٹی کے افراد سے بات چیت کی گئی تو انہوں نے فوری طور پر کہا کہ سکیورٹی فورسز انہیں تشدد کا نشانہ بنا رہی ہیں۔
میانمار سے روہنگیا مسلمانوں کی ہجرت کا سلسلہ بدستور جاری