سکیورٹی فورسز پر افغان طالبان کے حملے طاقت کا اظہار
عاطف توقیر
22 اکتوبر 2017
رواں ہفتے افغانستان میں سکیورٹی فورسز پر طالبان نے پے درپے حملے کیے۔ تجزیہ کاروں کے مطابق طالبان کی جانب سے یہ حملے ڈونلڈ ٹرمپ کی نئی حکمتِ عملی کا جواب طاقت سے دینے کا اشارہ کر رہے ہیں۔
اشتہار
خبر رساں ادارے اے ایف پی کے مطابق طالبان کی جانب سے شہروں پر حملوں کی بجائے سکیورٹی فورسز کے اڈوں پر حملے یہ اشارہ دے رہے ہیں کہ وہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی جانب سے افغانستان کے لیے نئی حکمتِ عملی کا جواب اس انداز سے دے کر وہ اپنی طاقت کا اظہار کر رہے ہیں۔
منگل سے اب تک کئے جانے والے چار حملوں میں سے تین ایسے ہیں، جس میں عسکریت پسندوں کی جانب سے دھماکا خیز مواد سے لدی فوجی گاڑیاں استعمال کی گئی ہیں۔ اے ایف پی کے مطابق ایک طرف تو اس کے ذریعے افغان سکیورٹی فورسز کے حوصلہ پست کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے اور دوسری جانب عسکری کارروائیوں کو تقویت دینے کے لیے سکیورٹی فورسز کے چوری شدہ ہتھیاروں اور گاڑیوں کا استعمال بھی کر سکتے ہیں۔
ان کارروائیوں سے طالبان کی لڑائی کی حکمت عملی میں ایک واضح تبدیلی بھی دکھائی دیتی ہے، یعنی اب وہ مختلف صوبائی دارالحکومتوں پر قبضے کی کوششوں کی بجائے براہ راست سکیورٹی تنصیبات پر حملے کر رہے ہیں۔ گزشتہ دو برسوں میں طالبان دو مرتبہ شمالی شہر قندوز پر قبضہ کر چکے ہیں اور ہر بار انہیں پسپا کرنے کے لیے بڑی عسکری کارروائی کی گئی، جس میں امریکی فوج سے بھی مدد لی گئی۔
پاک افغان سرحد پر باڑ کی تنصیب میں تیزی
02:29
افغان امور پر نگاہ رکھنے والے بروکنگز انسٹیٹیوشن سے تعلق رکھنے والے سینیئر فیلو وینڈا فیلباب براؤن کے مطابق، ’’طالبان چاہتے ہی کہ صدر ٹرمپ کی افغانستان میں زیادہ فوجی موجودگی کی پالیسی کے جواب میں اپنی عسکری قوت کا اظہار کریں۔‘‘
انہوں نے مزید کہا، ’’اب وہ صوبائی دارالحکومتوں پر قبضے کی کوشش نہیں کر رہے۔ وہ اپنے وسائل اس پر ضائع نہیں کرنا چاہیے۔‘‘
رواں برس طالبان کی جانب سے سکیورٹی فورسز پر شدید نوعیت کے حملے کیے گئے ہیں، جن میں مزار شریف میں ایک فوجی اڈے پر بڑا حملہ شامل ہے، جس میں کم از کم 144 افراد مارے گئے۔
حقانی نیٹ ورک کیا ہے؟
حقانی نیٹ ورک ایک افغان جنگجو گروہ ہے، جو افغانستان میں مقامی اور امریکی تحادی افواج کے خلاف حالت جنگ میں ہے۔ افغان حکام اور عالمی برادری اسے افغانستان میں فعال ایک انتہائی خطرناک عسکری گروہ قرار دیتے ہیں۔
تصویر: Getty Images/AFP/J. Tanveer
حقانی نیٹ ورک کب بنا؟
عشروں پہلے سوویت یونین کے دستوں کے خلاف لڑنے والے کمانڈر جلال الدین حقانی نے اس گروہ کی بنیاد رکھی تھی۔ افغان جنگ کے دوران اسّی کی دہائی میں اس گروہ کو امریکی حمایت بھی حاصل تھی۔ سن 1995 میں اس نیٹ ورک نے طالبان کے ساتھ اتحاد کر لیا تھا۔ 1996ء میں طالبان حقانی نیٹ ورک کی مدد سے ہی کابل پر قبضہ کرنے کے قابل ہوئے تھے۔ سن دو ہزار بارہ میں امریکا نے حقانی نیٹ ورک کو ایک دہشت گرد گروہ قرار دے دیا تھا۔
تصویر: AP
جلال الدین حقانی اور طالبان
طالبان کی حکومت میں جلال الدین حقانی کو قبائلی امور کا وزیر بنا دیا گیا تھا۔ امریکی اتحادی افواج کی کارروائی یعنی سن دو ہزار ایک تک وہ اسی منصب پر فائز رہے۔ امریکی اتحادی افواج نے سن دو ہزار ایک میں ہی طالبان کی خود ساختہ حکومت کا تختہ الٹ دیا تھا۔ ملا عمر کے بعد جلال الدین حقانی کو طالبان کا معتبر ترین رہنما تصور کیا جاتا ہے۔ حقانی کے اسامہ بن لادن سے بھی قریبی تعلقات تھے۔
تصویر: picture-alliance/dpa
جلال الدین حقانی کی نجی زندگی
سن 1939 میں افغان صوبے پکتیا میں پیدا ہونے والے جلال الدین حقانی نے پاکستان میں قائم دارالعلوم حقانیہ نامی مدرسے سے تعلیم حاصل کی۔ یہ وہی مدرسہ ہے، جس کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہاں افغان طالبان کے ساتھ ہمدردی کا عنصر نمایاں ہے۔ جلال الدین حقانی نے دو شادیاں کیں۔ ان کی ایک اہلیہ کا تعلق متحدہ عرب امارات سے بتایا جاتا ہے۔ حقانی کو سنی خلیجی ممالک میں کافی عزت کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے۔
تصویر: Getty Images/AFP/Str
یہ نیٹ ورک ہے کہاں؟
حقانی نیٹ ورک کا کمانڈ سینٹر مبینہ طور پر پاکستانی قبائلی علاقے شمالی وزیرستان کے صدر مقام میران شاہ میں قائم ہے۔ امریکی اور افغان حکام کا کہنا ہے کہ اس گروہ کو پاکستانی فوج کی حمایت بھی حاصل ہے اور یہ افغانستان میں سرحد پار کارروائیاں بھی کرتا رہتا ہے۔ تاہم پاکستان یہ الزامات رد کرتا ہے۔ یہ نیٹ ورک افغانستان میں امریکی اور ملکی حکومت کے مفادات کو نشانہ بناتا ہے۔
تصویر: Getty Images/AFP/J. Tanveer
سراج الدین حقانی بطور سربراہ
اپنی علالت کے باعث جلال الدین حقانی نے اپنے شدت پسند نیٹ ورک کی قیادت اپنے بیٹے سراج الدین حقانی کو سونپ دی تھی۔ سراج الدین افغان طالبان کا نائب کمانڈر بھی ہے۔ سن دو ہزار پندرہ میں ایسی اطلاعات موصول ہوئی تھیں کہ جلال الدین حقانی انتقال کر گئے تھے تاہم طالبان اور حقانی خاندان نے ان خبروں کی تردید کر دی تھی۔
تصویر: picture-alliance/dpa
سراج الدین حقانی کون ہے؟
حقانی نیٹ ورک کے موجودہ کمانڈر سراج الدین حقانی نے اپنا بچپن میران شاہ میں بسر کیا۔ کہا جاتا ہے کہ اس نے پشاور کے نواح میں واقع حقانیہ مدرسہ سے تعلیم حاصل کی ۔ یہ بھی کہا جاتا ہے کہ سراج الدین جنگی امور کا ماہر بھی ہے۔ یہ تاثر بھی عام ہے کہ سراج الدین اپنے والد جلال الدین کے مقابلے میں زیادہ انتہا پسندانہ نظریات کا مالک ہے۔
تصویر: picture-alliance/dpa
انس حقانی بطور قیدی
جلال الدین حقانی کے متعدد بیٹوں میں سے ایک کا نام انس حقانی ہے، جو ان کی متحدہ عرب امارات سے تعلق رکھنے والی بیوی سے پیدا ہوا تھا۔ انس حقانی اس وقت افغان حکومت کی قید میں ہے اور اسے ایک مقامی عدالت نے سزائے موت سنا رکھی ہے۔ حقانی نیٹ ورک نے خبردار کر رکھا ہے کہ اگر انس کو سنائی گئی سزا پر عمل درآمد کیا گیا، تو اس کے سنگین نتائج برآمد ہوں گے۔
تصویر: picture-alliance/AP Photo/National Directorate of Security
یہ گروہ ہے کتنا بڑا؟
مختلف اندازوں کے مطابق اس گروہ کے جنگجوؤں کی مجموعی تعداد تین تا دس ہزار بنتی ہے۔ یہ بھی کہا جاتا ہے کہ اس گروہ کی زیادہ فنڈنگ خلیجی ممالک کی طرف سے کی جاتی ہے۔ اس کے علاوہ یہ نیٹ ورک مختلف مجرمانہ کارروائیوں سے بھی اپنے لیے مالی وسائل جمع کرتا ہے، جن میں اغوا برائے تاوان اور لوٹ مار بھی شامل ہیں۔
تصویر: Getty Images/AFP/J. Tanveer
حقانی نیٹ ورک اور دیگر شدت پسند گروہ
حقانی نیٹ ورک کے افغان طالبان کے ساتھ روابط تو واضح ہیں لیکن یہ جنگجو گروہ مختلف دیگر دہشت گرد گروپوں سے بھی دوستانہ تعلقات رکھتا ہے۔ ان میں القاعدہ نیٹ ورک، تحریک طالبان پاکستان، ازبکستان کی اسلامی تحریک اور پاکستان میں قائم ممنوعہ لشکر طیبہ جیسی تنظیمیں بھی شامل ہیں۔ جلال الدین حقانی کے اسامہ بن لادن سے تعلقات تو تھے ہی لیکن وہ القاعدہ کے موجودہ سربراہ ایمن الظواہری سے بھی روابط رکھتے ہیں۔
تصویر: picture-alliance/dpa/Ausaf Newspaper
پاکستان سے راوبط
امریکی اور افغان حکومتوں کا دعویٰ ہے کہ حقانی نیٹ ورک کو پاکستانی فوج کی خفیہ ایجنسی آئی ایس آئی کی مدد حاصل ہے۔ تاہم پاکستانی حکومت اور فوج دونوں اس الزام کو مسترد کرتے ہیں۔ واشنگٹن حکومت کا اصرار ہے کہ پاکستانی حکومت کو ملکی قبائلی علاقے شمالی وزیرستان میں قائم اس دہشت گرد نیٹ ورک کے خلاف مؤثر کارروائی کرنا چاہیے۔
تصویر: picture alliance/Photoshot
10 تصاویر1 | 10
رواں ہفتے کیے جانے والے متعدد حملوں میں دو سو سے زائد افراد ہلاک ہوئے ہیں اور یہ حملے ٹھیک اس وقت کیے گئے ہیں، جب افغان اور امریکی فورسز نے اپنی کارروائیوں میں تیزی پیدا کی ہے۔
رواں برس اگست میں امریکی صدر ٹرمپ نے افغانستان کے لیے اپنی نئی حکمت عملی کا اعلان کیا تھا، جس کے تحت طالبان کے حملوں میں تیزی کو روکنے کے لیے مزید امریکی فوجی افغانستان میں تعینات کرنے کا فیصلہ کیا گیا تھا۔