جنگی جرائم کی سابق پراسیکیوٹر کارلا ڈیل پونٹی نے شام سے متعلق اقوام متحدہ کے انکوائری کمیشن سے مستعفی ہونے کا اعلان کرتے ہوئے کہا ہے کہ سلامتی کونسل کے رکن ممالک شام میں اںصاف ہی نہیں چاہتے ہیں۔
اشتہار
خبر رساں ادارے ایسوسی ایٹڈ پریس نے سات اگست بروز پیر کو جاری کردہ اپنی ایک رپورٹ میں بتایا ہے کہ شام میں انکوائری کی خاطر بنائے گئے اقوام متحدہ کے آزاد کمیشن سے وابستہ سوئس ماہر قانون کارلا ڈیل پونٹی نے استعفیٰ دے دیا ہے۔ اقوام متحدہ کے جنگی جرائم کے دو سابق ٹریبونلز کی چیف پراسیکیوٹر ڈیل پونٹی نے بتایا ہے کہ سکیورٹی کونسل شامی خانہ جنگی میں ملوث افراد کا احتساب کرنے کی خاطر کوئی کام نہیں کر رہا، اس لیے وہ مزید اس کا حصہ نہیں رہ سکتیں۔
سوئس میگزین بلک میں اتوار چھ اگست کو شائع ہونے والے ایک انٹرویو میں ڈیل پونٹی نے اس کمیشن کی کارکردگی پر تاسف کا اظہار کرتے ہوئے شامی بحران کے تمام فریقین یعنی صدر بشار الاسد کی حکومت، شامی اپوزیشن اور بین الاقوامی کمیونٹی کو شدید تنقید کا نشانہ بنایا۔
انہوں نے کہا کہ ’سبھی برے ہیں‘۔ ڈیل پونٹی نے اعتراف کیا، ’’ہمیں ہرگز کوئی بھی کامیابی نہیں ملی ہے۔‘‘ انہوں نے مزید کہا کہ گزشتہ پانچ برسوں سے اقوام متحدہ کا یہ کمیشن کوئی ٹھوس کام نہیں کر سکا ہے۔
حلب ’کہ شہر تھا عالم میں روزگار‘
01:01
سوئٹزرلینڈ کی سابق اٹارنی جنرل ڈیل پونٹی روانڈا اور سابق یوگو سلاویہ کے لیے بنائے گئے بین الاقوامی جنگی ٹریبونلز کی چیف پراسیکیوٹر تھیں۔
انہوں نے سلامتی کونسل سے بارہا مطالبہ کیا تھا کہ شامی خانہ جنگی کے دوران جنگی جرائم میں ملوث افراد کو انصاف کے کٹہرے میں لانے کی خاطر ویسا ہی ایک بین الاقوامی ٹریبیونل بنایا جائے۔
تاہم اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل میں ان کا یہ مطالبہ منظور نہیں ہو سکا۔
اس صورتحال پر تبصرہ کرتے ہوئے ڈیل پونٹی نے کہا، ’’میں یہ عہدہ چھوڑ رہی ہوں۔
سکیورٹی کونسل کی رکن ریاستیں انصاف چاہتی ہی نہیں ہیں۔‘‘ انہوں نے مزید کہا کہ وہ ایسے کسی کمیشن کا حصہ نہیں رہ سکتیں، جو کوئی کام نہ کرتا ہو۔ بلک میں شائع کردہ ان کے بیان کے مطابق، ’’شام ایک ایسا ملک بن چکا ہے، جس کا کوئی مستقبل نہیں ہے‘‘۔
کارلا ڈیل پونٹی کے بقول، ’’میرا یقین کیجیے، میں نے جو خوفناک جرائم شام میں دیکھے ہیں، وہ میں نے نہ تو روانڈا میں دیکھے اور نہ ہی سابق یوگوسلاویہ میں۔ میرا خیال تھا کہ عالمی برادری نے روانڈا سے سبق سیکھا۔ لیکن نہیں۔ اس نے کچھ نہیں سیکھا۔‘‘ دوسری طرف کمیشن نے کہا کہ وہ ڈیل پونٹی کے سبکدوش ہونے کے ارادوں سے پہلے سے باخبر تھا لیکن شام میں قیام امن کی کوششوں کا سلسلہ جاری رہنا چاہیے۔
ادھر شامی باغیوں کے اہم اتحادی ملک سعودی عرب نے کہا ہے کہ مستقبل کے شام میں صدر بشار الاسد کا کوئی کردار نہیں ہونا چاہیے۔ سعودی وزیر خارجہ عادل الجبیر کے بقول البتہ ریاض حکومت اس شورش زدہ ملک میں قیام امن کی عالمی کوششوں کی حمایت کرتی ہے۔
الجبیر نے ایسی میڈیا رپورٹوں کو مسترد کر دیا کہ سعودی حکومت شام میں اقتدار کی منتقلی کے پہلے مرحلے میں صدر اسد کو اقتدار میں رکھنے کی حامی ہے۔ الجبیر کے مطابق شام میں امن کی کوششوں کی خاطر ریاض حکومت کا موقف واضح ہے۔
شام میں انسانی بحران کی تکلیف دہ صورتحال
فائربندی سے بھوک کے شکار پریشان حال شامیوں کو عارضی طور پر فائدہ ضرور ہو گا کیونکہ شام کے محصور علاقوں میں پھنسے انسانوں کی صورتحال المیے کی سی ہے۔
تصویر: Reuters/B. Khabieh
حلب کے بچے
شام میں حلب بین الاقوامی خبروں کا مرکز بنا ہوا ہے۔ اب وہاں انخلاء کا عمل جاری ہے۔ یہ تباہ حال شہر جنگ کی ہولناکیوں کی علامت ہے۔ شہر کے مشرقی حصے میں نہ تو پانی ہے، نہ اشیائے خورد نوش اور نہ ادویات۔ عوام کی ایک بڑی تعداد کو سر پر چھت بھی میسر نہیں ہے۔ اس صورتحال میں اس شہر کے ایک لاکھ بچوں کو در در کی ٹھوکریں کھانا پڑ رہی ہیں۔
تصویر: Reuters/A. Ismail
چھ لاکھ انسان گھیرے میں
یہ تصویر مضایا کی ہے۔ اسی طرح کے اٹھارہ دیگر شہر بھی بیرونی دنیا سے کٹ چکے ہیں۔ اقوام متحدہ کے مطابق محصور علاقوں میں چھ لاکھ افراد آباد ہیں، جو تنازعے کے فریقین کی وجہ سے اپنے اپنے علاقوں میں پھنس کر رہ گئے ہیں۔ ان میں سے زیادہ تر علاقے اسد حکومت کے زیر قبضہ ہیں۔ دمشق حکومت کی اجازت کے بغیر ان علاقوں میں امددی اشیاء تک نہیں پہنچائی جا سکتیں اور اسد حکام سے اجازت لینا جوئے شیر لانے کے مترادف ہے۔
تصویر: Reuters/O. Sanadiki
مزاحمت کی علامت
داریا ان اوّلین شہروں میں شامل ہے، جہاں سے 2011ء میں اسد حکومت کے خلاف مزاحمت کا آغاز ہوا تھا۔ دمشق حکومت نے سالوں تک اس شہر کو گھیرے میں لیے رکھا، جس کی وجہ سے داریا کے باسی بھوک و افلاس کا شکار ہو گئے۔ صورتحال سے تنگ آ کر اگست میں باغیوں نے ہتھیار ڈال دیے، جو ان کی ایک بڑی شکست تھی۔
تصویر: picture-alliance/ZUMA Press
ہسپتالوں میں ہنگامی حالت
شام کے زیادہ تر ہسپتالوں میں مریضوں کا علاج ممکن نہیں رہا۔ ڈاکٹرز وِد آؤٹ بارڈرز نامی تنظیم کے مطابق، ’’مرہم پٹی کا سامان تو ایک طرف ہسپتالوں میں ادویات تک موجود نہیں ہیں۔ چھوٹے چھوٹے آپریشن تک کرنا ممکن نہیں رہا۔‘‘
تصویر: Getty Images/AFP/O. H. Kadour
کوئی جگہ محفوظ نہیں
گزشتہ پانچ مہینوں کے دوران حلب کے محصور مشرقی حصے کے آٹھوں ہسپتالوں کو یا تو نقصان پہنچا ہے یا پھر وہ تباہ ہو چکے ہیں۔ مقامی افراد کے مطابق ابھی بھی کچھ ایسے ڈاکٹرز ہیں، جو اپنی جان جوکھوں میں ڈال کر مریضوں کا علاج کر رہے ہیں۔ ایک ڈاکٹر کے بقول، ’’خود کو کہیں بھی محفوظ محسوس نہیں کیا جا سکتا‘‘۔
تصویر: picture-alliance/AA/E. Leys
منقسم شہر
حلب حکومتی دستوں اور باغیوں کے مابین تقسیم ہے۔ باغیوں کے زیر قبضہ مشرقی حصے میں حالات انتہائی خراب ہیں۔ اسد حکومت اور روس کی جانب سے روزانہ ہی اس حصے میں بمباری کی جاتی ہے اور روزانہ ہی کئی عمارتیں اور گھر کھنڈر میں تبدیل ہو جاتے ہیں۔ گزشتہ ہفتے کے دوران حلب میں سینکٹروں عام شہری ہلاک ہوئے۔
تصویر: Getty Images/AFP/A. Alhalbi
ہر شے کی قلت
حلب میں صرف باغیوں کے زیر اثر علاقوں میں ہی بنیادی اشیاء کی قلت نہیں ہے بلکہ حکومتی فورسز کے قبضے میں جو علاقے ہیں، وہاں کے باسی بھی ان سہولیات سے محروم ہیں۔
تصویر: Reuters/A. Ismail
ویرانی کیوں ہے؟
فضائی حملوں کے ڈر سے حلب کے شہری گھر سے باہر نکلنے کی ہمت کم ہی کرتے ہیں۔ کہتے ہیں کہ اس شہر میں عام زندگی گزارنا اب ممکن نہیں رہا۔
تصویر: Reuters/A. Ismail
ایک بڑی سی جیل
شام میں تازہ فائر بندی سے عام شہریوں کی زندگی میں تھوڑی سی آسانی ضرور پیدا ہوئی ہے۔ تاہم کسی کو یہ علم نہیں کے حالات کب تبدیل ہو جائیں۔ مقامی افراد کا خیال ہے کہ وہ ’’ایک بڑی سی جیل میں زندگی گزار رہے ہیں‘‘۔