1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

سہ فریقی مذاکرات: ایرانی اور افغانی صدور کی پاکستان کے صدر اور وزیر اعظم سے ملاقاتیں

16 فروری 2012

سہ فریقی سربراہی مذاکرات کے لیے اسلام آباد پہنچنے والے افغان صدر حامد کرزئی اور ایرانی صدر محمود احمدی نژاد نے پاکستانی صدر اور وزیراعظم سے الگ الگ ملاقاتیں کی ہیں۔

تصویر: dapd

پاکستانی دفتر خارجہ کے مطابق تینوں ممالک کے رہنما خطے میں امن و استحکام، دہشتگردی کے خلاف تعاون اور باہمی اقتصادی روابط کو بڑھانے کے لیے بات چیت کریں گے۔ اس کے علاوہ مذاکرات میں منشیات اور انسانی اسمگلنگ کی روک تھام کے لیے مشترکہ حکمت عملی اپنانے پر بھی غور کیا جائے گا۔

جمعرات کو اسلام آباد پہنچنے کے بعد افغان صدر حامد کرزئی نے پاکستانی وزیراعظم یوسف رضا گیلانی اور صدر آصف علی زرداری سے الگ الگ ملاقاتیں کیں۔ وفود کی سطح پر اور تنہائی میں ہونیوالی ان ملاقاتوں میں طالبان سےبات چیت سمیت دو طرفہ دلچسپی کے امور پر تبادلہ خیال کیا گیا۔

ان ملاقاتوں کے بعد جاری ہونے والے سرکاری بیان میں کہا گیا ہے کہ صدر اور وزیراعظم نے افغانستان میں قیام امن کے لیے پاکستان کے مکمل تعاون کا یقین دلایا ہے۔ پاکستانی وزیر اعظم نے سابق افغان صدر برہان الدین ربانی کے قتل کی تحقیقات کے لیے بھرپور تعاون جاری رکھنے کا بھی یقین دلایا۔

پاکستانی دفتر خارجہ کے مطابق تینوں ملکوں کے رہنما خطے میں امن و استحکام، دہشتگردی کے خلاف تعاون اور باہمی اقتصادی روابط کو بڑھانے کے لیے بھی بات چیت کریں گےتصویر: AP

سرکاری بیان کے مطابق افغان صدر حامد کرزئی کا کہنا تھا کہ پاکستان اور افغانستان جڑواں بھائیوں کی طرح ہیں اور افغانستان میں قیام امن کے لیے پاکستان کا تعاون ناگزیر ہے۔ ایوان صدر کے ترجمان فرحت اللہ بابر نے ذرائع ابلاغ کو بتایا کہ دونوں ممالک کے صدور نے ملاقات میں خطے اور بالخصوص افغانستان کی صورتحال، ترقیاتی منصوبوں، پاک افغان راہداری تجارت کے معاہدے اور منشیات کی سمگلنگ کی روک تھام کے لیے بات چیت کی۔

جمعرات ہی کی سہ پہر اسلام آباد پہنچنے کے بعد ایرانی صدر محمود احمدی نژاد نے صدر آصف علی زرداری سے ملاقات کی۔ اس ملاقات کے دوران پاک ایران گیس پائپ لائن سمیت دو طرفہ تجارت اور دیگر شعبوں میں تعلقات کو فروغ دینے پر بات کی گئی۔

پاکستان کے سابق سیکرٹری خارجہ شمشاد احمد خان کا کہنا ہے کہ موجودہ حالات میں تینوں ممالک کے سربراہان کی ملاقات انتہائی اہم ہے۔ انہوں نے کہا، ’’تینوں ممالک تاریخی اور جغرافیائی اعتبار سے جڑے ہوئے ہیں۔ بدقسمتی سے حالات نے ان کو الگ کر رکھا ہے اور اس کی وجہ افغانستان میں دو دہائیوں سے جاری بدامنی ہے اور افغانستان کے معاملے پر پاکستان اور ایران کے مفادات کا بھی ٹکراؤ رہا ہے۔ ایک ایسے وقت میں جب ہر طرف دباؤ ہے تو تینوں ممالک مشترکہ مفاد پر اکٹھے ہو جائیں تو بہت اچھی بات ہو گی۔‘‘

افغان صدر حامد کرزئی کا کہنا ہے کہ افغانستان میں قیام امن کے لیے پاکستان کی مدد ناگزیر ہےتصویر: AP

پاکستان، افغانستان اور ایران سہ فریقی سربراہی مذاکرات کا یہ تیسرا دور ہے۔ اس سے قبل ایران کے دارالحکومت تہران نے ان مذاکرات کی میزبانی کی تھی۔ پاک چائنا سینٹر کے سربراہ مشاہد حسین سید کا کہنا ہے کہ تینوں سربراہان کا اکٹھے ہونا اس بات کا بھی ثبوت ہے کہ خطے کے ممالک کی خارجہ پالیسی میں تبدیلی آ رہی ہے اور وہ ایک یکساں علاقائی سوچ اپنا رہے ہیں۔ انہوں نے کہا، ’’خطے کی تقدیر کے فیصلے اس خطے کے ممالک اور قیادت خود کرے گی۔ یہ اس بات کا عکاس ہے کہ خارجہ پالیسی ہم خود بنائیں گے۔ اپنے مفادات کے مطابق اور اس کی بنیاد یہ علاقہ ہوگا جس میں پاکستان چین، افغانستان، ایران شامل ہیں۔‘‘

دفتر خارجہ کے مطابق تینوں ممالک کے سربراہان کے درمیان جمعرات کی شب غیر رسمی مذاکرات ہوں گے جبکہ جمعے کو وزرائے خارجہ کی ملاقات کے بعد باقاعدہ سہ فریقی اجلاس منعقد ہوگا اور اس کے اختتام پر مشترکہ اعلامیہ جاری کیا جائے گا۔

رپورٹ: شکور رحیم، اسلام آباد

ادارت: حماد کیانی

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید

مزید آرٹیکل دیکھائیں
ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ سیکشن پر جائیں

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ

ڈی ڈبلیو کی مزید رپورٹیں سیکشن پر جائیں