سیاحتی ویزے پر یورپ آ کر پناہ کی درخواست دیں تو کیا ہوتا ہے؟
26 ستمبر 2020
یورپی یونین کے ڈبلن ضوابط یہ طے کرتے ہیں کہ کس پناہ گزین کی درخواست پر کارروائی کہاں کی جا سکتی ہے۔ لیکن کیا ان قوانین میں سیاحتی ویزوں پر یورپ آنے والوں کے بارے میں بھی معاملات واضح طور پر طے شدہ ہیں؟
اشتہار
پناہ کے یورپی قوانین یعنی ڈبلن ضوابط کے تحت کوئی بھی شخص یورپی یونین کے اسی رکن ملک میں اپنی سیاسی پناہ کی درخواست جمع کرا سکتا ہے، جس کی قومی حدود میں وہ سب سے پہلے داخل ہوا ہو۔ ان ضوابط کے تحت کئی یورپی ممالک پناہ گزینوں کو واپس دوسرے یورپی ممالک میں بھی بھیج دیتے ہیں۔
اکوما کے ساتھ بھی ایسا ہی ہوا۔ کیمرون سے تعلق رکھنے والے اس پناہ گزین نے انفومائگرینٹس کو بتایا کہ وہ سیاحتی ویزے پر اٹلی آیا۔ وہ بیلجیم میں پناہ کی درخواست دینا چاہتا تھا۔ لیکن اسے ویزا دلوانے والے ایجنٹ نے اسے ڈبلن ضوابط کے بارے میں نہیں بتایا تھا۔
اٹلی سے وہ بیلجیم کے ہوائی اڈے پر پہنچا اور وہاں پناہ کی درخواست جمع کرانے کی کوشش کی۔ ڈبلن ضوابط کے تحت حکام نے اسے واپس اٹلی بھجوا دیا۔
سیاحتی ویزے پر یورپ آ کر پناہ کی درخواست دی جا سکتی ہے؟
شینگن زون کے سیاحتی یا مختصر مدت کے کسی دوسرے ویزے پر یورپ آ کر پناہ کی درخواست دی جا سکتی ہے تاہم اس کے باوجود ڈبلن ضوابط کا اطلاق ہوتا ہے۔ اکوما کے معاملے میں بھی ایسا ہی ہوا تھا۔
مغربی بلقان، جارجیا یا وینزویلا جیسے ممالک کے شہری ویزے کے بغیر یورپ آ سکتے ہیں۔ ان پر بھی ڈبلن ضوابط کا اطلاق ہوتا ہے۔
ہوائی یا زمینی راستے کے ذریعے آپ یورپی یونین کے جس رکن ملک کے ذریعے یونین کی حدود میں داخل ہوئے ہوں، پناہ کی درخواست بھی وہیں جمع کرائی جا سکتی ہے۔
وزٹ ویزا کی میعاد ختم ہونے کے بعد قیام
ویزا کی میعاد ختم ہونے کے بعد بھی اگر کوئی غیر ملکی غیر قانونی طور پر یورپ میں مقیم رہے، تو اس کی معلومات ویزا انفارمیشن سسٹم میں ریکارڈ کر لی جاتی ہے۔
ایسی صورت میں اگر کوئی بعد میں واپس چلا جائے اور کسی وقت دوبارہ ویزا حاصل کرنے کی کوشش کرے، تو اسے ویزا جاری نہیں کیا جاتا۔
ویزا کی مدت ختم ہونے کے بعد بھی یورپ میں سیاسی پناہ کے حصول کے لیے درخواست جمع کرائی جا سکتی ہے۔ لیکن عام طور ایسے درخواست گزاروں کو پناہ دیے جانے کے امکانات بہت کم رہ جاتے ہیں۔
جعلی ویزے یا جعلی دستاویزات کے ساتھ سفر
اقوام متحدہ کے منشیات اور جرائم سے متعلق ادارے کے مطابق انسانوں کے اسمگلر عام طور پر لوگوں کو جعلی سفری دستاویزات کے ذریعے دیگر ممالک بھیجتے ہیں۔
جعلی سفری دستاویزات پر سفر کر کے یورپ آنے والے افراد بھی ہوائی اڈے پر پہنچ کر پناہ کی درخواستیں دے سکتے ہیں۔ قوانین کے مطابق یورپی ممالک پناہ کی درخواستیں وصول کرنے اور ان کا جائزہ لے کر فیصلہ کرنے کے پابند ہیں۔ اس لیے کہ کسی بھی پناہ گزین کو ایسے ملک واپس نہیں بھیجا جا سکتا، جہاں اس کی زندگی کو خطرہ لاحق ہو۔
تاہم جعلی ویزے یا سفری دستاویزات پر سفر کرنا جرم ہے اور اس جرم میں آپ کو حراست میں بھی لیا جا سکتا ہے۔ علاوہ ازیں جعل سازی کے باعث پناہ ملنے کے امکانات بھی معدوم ہو جاتے ہیں۔
ماریون میک گریگر (ش ح / م م)
کس ملک کے کتنے شہری بیرون ملک آباد ہیں؟
اقوام متحدہ کے مطابق سن 2020 تک اپنے وطن سے مہاجرت اختیار کرنے والے انسانوں کی تعداد 272 ملین ہو چکی ہے۔ اس پکچر گیلری میں دیکھیے سب سے زیادہ مہاجرت کس ملک کے شہریوں نے اختیار کی۔
تصویر: AFP
1۔ بھارت
اقوام متحدہ کے اعداد و شمار کے مطابق رواں برس کے آغاز تک قریب ایک کروڑ اسی لاکھ (18 ملین) بھارتی شہری اپنے ملک کی بجائے بیرون ملک مقیم تھے۔ زیادہ تر بھارتی تارکین وطن امریکا، کینیڈا، برطانیہ اور خلیجی ممالک میں ہیں۔ سن 2000 میں بیرون ملک مقیم بھارتی شہریوں کی تعداد آٹھ ملین تھی اور وہ عالمی سطح پر اس حوالے سے تیسرے نمبر پر تھا۔
تصویر: picture-alliance/AP Photo/K. Jebreili
2۔ میکسیکو
جنوبی امریکی ملک میکسیکو، قریب ایک کروڑ بیس لاکھ (12 ملین) بیرون ملک مقیم شہریوں کے ساتھ مہاجرت کی عالمی درجہ بندی میں دوسرے نمبر پر ہے۔ بیرون ملک مقیم میکسیکو کے شہریوں کی 90 فیصد تعداد امریکا میں مقیم ہے۔ سن 1990 میں 4.4 ملین اور سن 2000 میں 12.4 ملین میکسیکن باشندے بیرون ملک مقیم تھے۔
تصویر: Getty Images/AFP/E. Jaramillo Castro
3۔ چین
چینی شہریوں میں بھی ترک وطن کے رجحان میں اضافہ ہوا ہے اور دسمبر 2019 تک ایک کروڑ دس لاکھ (11 ملین) سے زائد بیرون ملک مقیم شہریوں کے ساتھ مہاجرت کی عالمی درجہ بندی میں چین تیسرے نمبر پر ہے۔ چینی تارکین وطن کی بڑی تعداد امریکا، کینیڈا، جاپان اور آسٹریلیا میں آباد ہے۔ سن 1990 میں بیرون ملک مقیم چینی شہریوں کی تعداد 44 لاکھ تھی۔
تصویر: Getty Images/AFP/F. J. Brown
4۔ روس
چوتھے نمبر پر روس ہے جس کے ایک کروڑ (10.5 ملین) سے زائد شہری بھی اپنے وطن کی بجائے دوسرے ممالک میں آباد ہیں۔ روسی تارکین وطن جرمنی، امریکا اور یورپی ممالک کے علاوہ سابق سوویت ریاستوں میں مقیم ہیں۔ اقوام متحدہ کے اعداد و شمار کے مطابق سن 2000 میں روس اس فہرست میں پہلے نمبر پر تھا اور اس وقت اس کے قریب گیارہ ملین شہری بیرون ملک مقیم تھے۔
تصویر: Zentrum Gleiche Kinder
5۔ شام
خانہ جنگی کے شکار ملک شام کے 80 لاکھ شہری دوسرے ممالک میں رہنے پر مجبور ہیں۔ شام سن 1990 میں اس عالمی درجہ بندی میں 26 ویں نمبر پر تھا تاہم سن 2011 میں شامی خانہ جنگی کے آغاز کے بعد لاکھوں شہری ہجرت پر مجبور ہوئے۔ شامی مہاجرین کی اکثریت ترکی، اردن اور لبنان جیسے پڑوسی ملکوں میں ہے تاہم جرمنی سمیت کئی دیگر یورپی ممالک میں بھی شامی شہریوں کی بڑی تعداد موجود ہے۔
تصویر: picture-alliance/AP Photo/L. Pitarakis
6۔ بنگلہ دیش
جنوبی ایشیائی ملک بنگلہ دیش اقوام متحدہ کی تیار کردہ اس فہرست میں چھٹے نمبر پر ہے۔ تازہ اعداد و شمار کے مطابق قریب 80 لاکھ بنگالی شہری دوسرے ممالک میں مقیم ہیں۔ بنگالی شہری بھارت اور پاکستان میں بھی موجود ہیں لیکن امریکا، برطانیہ اور خلیجی ممالک کا رخ کرنے والے بنگلہ دیشی شہریوں کی تعداد بھی بڑھی ہے۔
تصویر: dapd
7۔ پاکستان
70 لاکھ سے زائد بیرون ملک مقیم شہریوں کے ساتھ پاکستان اس فہرست میں ساتویں نمبر پر ہے۔ زیادہ تر پاکستانی خلیجی ممالک، برطانیہ اور امریکا میں موجود ہیں۔ سن 1990 میں 34 لاکھ جب کہ سن 2005 کے اختتام تک 39 لاکھ پاکستانی شہری بیرون ملک آباد تھے۔ تاہم سن 2007 کے بعد سے پاکستانی شہریوں میں دوسرے ممالک کا رخ کرنے کے رجحان میں نمایاں اضافہ ہوا۔
تصویر: Iftikhar Ali
8۔ یوکرائن
سوویت یونین کے خاتمے کے بعد نوے کی دہائی میں یوکرائن اس عالمی درجہ بندی میں پانچویں نمبر پر تھا۔ بعد ازاں یوکرائنی باشندوں کی مہاجرت کے رجحان میں بتدریج کمی ہو رہی تھی۔ تاہم روس اور یوکرائن کے مابین حالیہ کشیدگی کے بعد اس رجحان میں ایک مرتبہ پھر اضافہ ہوا ہے۔ اس برس کے آغاز تک چھ ملین یوکرائنی شہری بیرون ملک آباد تھے۔
تصویر: Picture alliance/dpa/Matytsin Valeriy
9۔ فلپائن
57 لاکھ سے زائد بیرون ملک مقیم شہریوں کے ساتھ فلپائن اس درجہ بندی میں نویں نمبر پر ہے۔ سن 2000 میں اپنے وطن سے باہر آباد فلپائنی شہریوں کی تعداد 30 لاکھ تھی۔ گزشتہ 17 برسوں کے دوران زیادہ تر فلپائنی باشندوں نے امریکا کا رخ کیا۔
تصویر: picture-alliance/dpa/ F. R. Malasig
10۔ افغانستان
افغانستان 50 لاکھ بیرون ملک مقیم شہریوں کے ساتھ اس عالمی درجہ بندی میں دسویں نمبر پر ہے۔ سن 1990 میں افغانستان اس فہرست میں ساتویں نمبر پر تھا اور اس کے 6.7 ملین شہری پاکستان، ایران اور دیگر ممالک میں مقیم تھے۔ تاہم سن 1995 تک 22 لاکھ سے زائد افغان شہری وطن واپس لوٹ گئے تھے۔