پچھلے کالم میں ہم سیف الملوک سے لاپتہ ہونے والی پریوں کی تلاش میں نکلے ہوئے تھے۔ آخری تجزیے میں پتہ یہ چلا کہ ماحولیاتی بد اخلاقیوں سے تنگ آکر نانگا پربت سے کوچ کرکے وہ شمال کی طرف نکل گئی تھیں۔
اشتہار
اب مہذب انسان پورے غل غپاڑے کے ساتھ شمال پہنچ رہا ہے تو پریوں نے پھر سے پر تولنا شروع کردیے ہیں۔ اگلے ٹھکانے کے لیے وہ سوچ رہی ہیں کہ جگہ جیسی بھی ہو مگر انسان نامی حیوان سے دور بہت دور ہو۔
جس دن یہ کالم شائع ہوا اتفاق سے اسی دن سوئنگ کے سلطان وسیم اکرم کی ویڈیو آگئی۔ عنوان تھا کہ وسیم اکرم نے کراچی والوں سے معافی مانگ لی ہے۔
تجسس کے مارے خبر کھولی تو وسیم اکرم طنزیہ لہجے کے ساتھ دریائے نیلم کے کنارے کھڑے نظر آئے۔ کیمرے کی آنکھ اُنہوں نے دور کچرے کے ایک ڈھیر پر جمائی ہوئی تھی۔ کہہ رہے تھے، 'کچھ دن پہلے ساحل سمندر سے کراچی والوں کو مخاطب کرکے میں نے کہا تھا کہ یار تم لوگ گند بہت پھیلاتے ہو۔ نیلم پہنچ کر پتہ چلا کہ کراچی والے اس معاملے میں یگانہ و یکتا نہیں، کشمیری بھی تول میں پورے نکلے ہیں‘۔
کشمیری قوم حالانکہ پڑھائی اور صفائی میں بری نہیں ہے، مگر لگتا ہے نیکوکاروں کی صحبت انہیں مارگئی ہے۔ اسی لیے شاید ایک ستم ظریف نے تبصرہ کیا کہ یہ ایل او سی کے پار والے کشمیریوں کا بھی یہی حال ہے یا یہ ذوق ہمارے والے کشمیریوں نے ہی پایا ہے۔
اس سے مجھے امارات میں ایک بنگالی سے ہونے والا مکالمہ یاد آگیا۔ عجمان کے ایک مارٹ پر پاکستان کی ایک جعلی سی کریم کا اشتہار دیکھا تو 'حریان دریان‘ رہ گیا۔ مارٹ کے بنگالی منیجر سے میں نے کہا کہ یہی کچھ بیچنا تھا تو پاکستان سے علیحدہ ہونے کی کیا ضرورت تھی؟ تُرنت بولا، ''بیس پچیس سال گزارے ہیں آپ کے ساتھ۔ عادتیں اتنی جلدی کہاں بدلتی ہیں۔‘‘
وسیم اکرم کے طعنوں کوسنوں سے اگر کشمیریوں کی دل آزاری ہوئی ہو تو وہ بجاطور پر وسیم اکرم سے معافی کا مطالبہ کرسکتے ہیں۔ مگر ایسا تب ہی ممکن ہے جب خدا کا کوئی نیک بندہ وسیم اکرم کو جھیل سیف الملوک لے کر جائے گا، یا پھر انہیں کالام کے بازار سے گزار کر پائین کے جنگلوں میں لے کر جائے گا۔
یونہی ایک کے بعد ایک مقام سے وہ گزرتے گئے تو وسیم اکرم کے پاس مانگنے کو صرف معافیاں ہی رہ جائیں گی۔ پورے پاکستان سے معافیاں مانگ لیں گے، بیچارہ شمال رہ جائے گا۔ یہ اعزاز حاصل کرنے کے لیے شمال کو کوئلے کے پانی سے منہ ہاتھ دھونے پڑیں گے۔
کاغان اور ناران: یہ وادیاں یہ پربتوں کی شہزادیاں
کورونا وائرس کی عالمی وبا کے باعث دنیا بھر میں جہاں باقی تمام کاروبار متاثر ہوئے وہیں پاکستانی سیاحت کو بھی بری طرح نقصان پہنچا ہے۔ اس پکچر گیلری میں سیر کیجیے، پاکستان کے دو مشہور سیاحتی مقامات ناران اور کاغان کی۔
تصویر: DW/ I. Jabeen
دھرم سرجھیل اور اس کا دلفریب قدرتی حسن
پاکستان کے زیر انتظام جموں کشمیر اور گلگت بلتستان کی سرحدوں کے سنگم پر واقع دھرم سرجھیل تقریباﹰ ساڑے تیرہ ہزار فٹ کی بلندی پر واقع ہے۔ یہ گلیشیئرز کے پانیوں سے بنی ہوئی جھیل ہے اور اپنی خوبصورتی کے باعث سیاحوں میں بہت مقبول ہے۔ یہاں سیدگئی جھیل، آنسو جھیل، جھیل سیف الملوک، کنڈول جھیل، پائے جھیل، سری جھیل، دریائے پنجکورہ اور کئی دیگر مقامات ایسے ہیں، جن کا حسن دیکھنے والے کو سحر میں لے لیتا ہے۔
تصویر: DW/ I. Jabeen
صوبہ خیبر پختونخوا کا قدرتی حسن اور تاریخی ورثہ
خیبر پختونخوا میں ہزارہا سال پرانی تہذیبی باقیات اور آثار قدیمہ کی کوئی کمی نہیں۔ قدرت نے پاکستان کے اس حصے کو بہت سی وادیوں اور پہاڑوں سے بھی نوازا ہے۔ ناران سے دھرم سر جھیل جانے کا یہ راستہ سیاحوں کے لیے گہری دلچسپی کا باعث اس لیے بھی ہے کہ عموماﹰ وہ دیگر جھیلوں کی طرف جاتے یا آتے ہوئے یہاں کچھ دیر کے لیے ٹھہر جاتے ہیں۔ اکثر سیاح یہاں تصاویر اور ویڈیوز بناتے یا پھر پکنک مناتے بھی نظر آتے ہیں۔
تصویر: DW/ I. Jabeen
کورونا کے باعث ملکی اور غیر ملکی سیاحوں کی آمد بہت کم
اس بار کورونا وائرس کی عالمی وبا کی وجہ سے جولائی کے وسط تک غیر ملکی سیاحوں کی بکنگ نہ ہونے کے برابر رہی اور مقامی سیاح بھی بہت ہی کم تعداد میں ان وادیوں کا رخ کر رہے ہیں۔ لیکن جو سیاح اب ان وادیوں کا رخ کر رہے ہیں، ان کی بڑی خوشی سے خاطر مدارت کی جاتی ہے کیونکہ ان خوبصورت وادیوں میں لوگوں کو زیادہ تر آمدنی انہی سیاحوں کی وجہ سے ہوتی ہے۔
تصویر: DW/ I. Jabeen
لولو سر جھیل تقریباﹰ گیارہ ہزار دو سو فٹ کی انچائی پر واقع
لولو سر جھیل وادی کاغان کی سب سے بڑی جھیل ہے جس کی لمبائی تقریباﹰ تین کلومیٹر ہے اور یہ تقریبا گیارہ ہزار دو سو فٹ کی بلندی پر واقع ہے۔ اس جھیل کا شمار دریائے کنہار کے ہیڈ واٹرز میں ہوتا ہے اور یہ وادی ناران سے دو سو ستاسی کلو میٹر کے فاصلے پر واقع ہے۔ ناران کے زیادہ تر مکین پشتو، اردو اور ہندکو زبانیں بولتے ہیں۔ گھنے جنگلات اور سرسبز چراگاہوں سے بھرا ہوا یہ علاقہ انتہائی خوبصورت ہے۔
تصویر: DW/ I. Jabeen
کاغان کے قلب میں دریائے کنہار
وادی کاغان کو اس کا نام کاغان نامی قصبے کی وجہ سے دیا گیا۔ بابو سر ٹاپ کے قریب سے شروع ہوتا ہوا دریائے کنہار پوری وادی کاغان کو سیراب کرتا ہوا مظفر آباد کے قریب دریائے جہلم میں مل جاتا ہے۔ اس کی لمبائی ایک سو چھیاسٹھ کلو میٹر ہے۔ دلنشیں پہاڑوں سے گزرتا ہوا یہ دریا اپنے انتہائی ٹھنڈے اور صاف پانی کی وجہ سے مشہور ہے اور اس کے ساتھ ساتھ حسین جنگلات اور پہاڑ انتہائی دلکش منظر پیش کرتے ہیں۔
تصویر: DW/ I. Jabeen
دلفریب پیالہ جھیل کا چمکتا ہو سبز رنگ کا پانی
منفرد ساخت والی پیالہ جھیل وادی ناران سے چالیس کلو میٹر دور ایک پہاڑ پر واقع ہے۔ اس کا چمکتا ہو سبز رنگ کا پانی سیاحوں کا دل اپنی جانب کھینچتا ہے۔ یہ جھیل اپنی خوبصورتی کے اعتبار سے بہت منفرد ہے۔ ناران اور کاغان کی وادیوں کو ان کے حسین نظاروں، جھیلوں، چشموں، آبشاروں اور گلیشیئرز کے باعث سیاحتی حوالے سے بہت پسند کیا جاتا ہے۔
تصویر: DW/ I. Jabeen
کیوائی، پارس، شینو، جرید اور مہانڈی کے خوبصورت قصبات
ناران کاغان کے علاقے میں سترہ ہزار فٹ سے زیادہ بلندی والی کئی چوٹیاں واقع ہیں۔ ان حسین وادیوں کے راستے میں کیوائی، پارس، شینو، جرید اور مہانڈی جیسے بہت سے خوبصورت قصبات آتے ہیں، جن کا حسن دیکھنے والے کو حیرت میں ڈال دیتا ہے۔ لیکن یہ بھی سچ ہے کہ آج بھی اس خطے میں کئی انتہائی خوبصورت سیاحتی مقامات ایسے ہیں، جنہیں بین الاقوامی معیار کے مطابق ترقی نہیں دی جا سکی۔
تصویر: DW/ I. Jabeen
کورونا وائرس کے باعث سیاح ان وادیوں میں نہ ہونے کے برابر
آج کل ان وادیوں میں سیاحوں کی تعداد نہ ہونے کے برابر ہے۔ اسی لیے وہاں رونقیں اور چہل پہل بھی کم ہی دکھائی دیتی ہے۔ جل کھنڈ میں دریائے کنہار کے قریب واقع یہ ریسٹورنٹ بالکل سنسان تھا۔ ریسٹورنٹ کے مالک کے مطابق اس سیزن میں یہاں تل دھرنے کو جگہ نہیں ہوتی تھی لیکن اب تو سیاحوں نے پہلے سے کرائی گئی بکنگز بھی منسوخ کر دی ہیں اور اس وبا نے تو ملکی سیاحت تو دہشت گردی سے بھی زیادہ نقصان پہنچایا ہے۔
تصویر: DW/ I. Jabeen
عدم توجہ کا نتیجہ سہولیات کا فقدان
پاکستان کے پاس قدرتی حسن کا اتنا بڑا خزانہ ہے کہ سیاحت کو جدید خطوط پر ترقی دے کر ملک کے لیے بے تحاشا زر مبادلہ کمایا جا سکتا ہے۔ لیکن مجموعی طور پر سیاحتی شعبہ ملکی معیشت میں اپنی وہ ممکنہ لیکن بہت اہم جگہ نہیں بنا سکا، جس کا وہ اہل ہے۔ ایک طرف سیاحتی شعبے کے سرکاری اداروں کی غفلت ہے تو دوسری طرف سیاحوں کے لیے آمد و رفت کی جدید، تیز اور محفوظ سہولیات کی دستیابی بھی یقینی نہیں بنائی جا سکی۔
تصویر: DW/ I. Jabeen
بیسل نامی گاؤں میں دودھی پتسر اور دیگر مشہور ٹریلز
ایک دریا کے کنارے واقع بیسل نامی چھوٹا سا گاؤں وہ جگہ ہے، جہاں سے دودھی پتسر اور دیگر مشہور ٹریلز کا آغاز ہوتا ہے۔ پاکستان اور دنیا بھر سے سیاح ان ٹریلز پر چلنے کے لیے ہر سال بیسل کا رخ کرتے ہیں۔ اس گاؤں کو ہونے والی آمدنی میں سیاحوں کی آمد و رفت کلیدی کردار ادا کرتی ہے۔ وادی ناران سے شمال کی جانب سفر کرتے ہوئے آخری پولیس چیک پوسٹ بھی بیسل ہی میں واقع ہے۔
تصویر: DW/ I. Jabeen
عوامی اور نجی شعبوں میں اشتراک عمل کی ضرورت
پاکستانی پہاڑ سر کرنے والے آنے والے کوہ پیماؤں اور سیاحت کے لیے اس ملک کا رخ کرنے والے غیر ملکیوں میں سے زیادہ تر کا تعلق اٹلی، اسپین، پولینڈ، جرمنی، جاپان اور جنوبی کوریا سے ہوتا ہے۔ ماہرین اقتصادیات کے مطابق سیاحتی شعبے کے لیے بہتر مالیاتی نتائج کی خاطر عوامی اور نجی شعبوں کے مابین مشترکہ سرمایہ کاری اور اشتراک عمل بنیادی اہمیت کے حامل ہیں۔
تصویر: DW/ I. Jabeen
11 تصاویر1 | 11
بنجر زمینوں میں نصیحتیں کاشت کرنے سے پہلے وسیم اکرم کو یہ بات دھیان میں رکھنا چاہیے کہ ان سے پہلے بھی کئی خوش فہم اس دشت سے ہو گزرے ہیں۔ یہاں مارٹن کوبلر نامی ایک جرمن سفیر بھی آئے تھے جو رکھ رکھاؤ سے حضرتِ خضر لگتے تھے۔ وہ آئے تو سفارت کاری کے لیے تھے مگر غریب نے ساری مدت ہمیں یہ ایک بات سمجھاتے ہوئے گزاردی کہ میاں زندگی سے پیار ہے تو اپنے لچھن بدلو۔ پانی ضائع مت کرو، ماحول کا خیال رکھو، جنگلی حیات کا دھیان رکھو اور گندگی پھیلانے سے گریز کرو۔
اس سے پہلے کہ گھریلو تشدد کو اپنی ثقافت قرار دینے والے ماحولیاتی آلودگی کے دفاع میں کھڑے ہوتے، مارٹن اپنے ملک چلے گئے۔ وہ گئے تو پیچھے سے جی جلانے کو برطانوی ہائی کمشنر کرسچن ٹرنر آگئے۔ مارگلہ کی پہاڑیوں میں گھومتے ہیں اور گند بلا کی تصویریں لگا کر دل آزاری کرتے ہیں۔ ایک دن تو وہ حد سے گزرگئے۔
وزیر اعظم ہاوس کے عقب کی ایک تصویر لے کر پورے زمانے کو دکھا دی۔ اس تصویر میں کوڑا کرکٹ کا ایک ڈھیر لگا ہوا ہے اور جنگلی سُوروں کی بھاری کابینہ پیٹ پوجا کر رہی ہے۔ ایک دن ایک اور تصویر لگا کر کہنے لگے صفائی نصف ایمان ہے۔ شکر بھیجنا چاہیے کہ ٹو نائنٹی فائیو سی کی رسی میں جکڑ کے کسی نے یہ نہیں پوچھ لیا کہ 'مسیحی تم کون ہوتے ہو ہمیں اسلام کا درس دینے والے؟‘ صفائی نصف ایمان ہے تو یہ عالم ہے۔ سوچو اگر صفائی پورا ایمان ہوتی تب کیا نظارے ہوتے۔
گفتگو کی یہ اِننگز وسیم اکرم کے اوور کی وجہ سے لمبی ہوگئی، ورنہ میں مختصر الفاظ میں یہ سوال کرنا چاہتا تھا کہ گندگی کے یہ سارے ڈھیر تو چلیں کسی طور صاف ہوجائیں گے، مگر دل دماغ میں رکھا ہوا گند کیسے صاف ہوپائے گا؟
ہم صبح شام اول آخر درود شریف کے ساتھ مشرقی تہذیب کی تسبیح پڑھنے والے لوگ ہیں۔ ہم چوبیس گھنٹے چوکنا رہتے ہیں کہ 'یہود ونصار‘ ہماری ثقافت کو تباہ وبرباد نہ کردے۔ تاثر یہ دیتے ہیں کہ لے دے کے ہمارے پاس ایک ثقافت ہی ہے، یہ نہ رہی تو ہم دونوں جہانوں میں رسوا ہوجائیں گے۔ مگر شمال پہنچتے ہی سب سے پہلے ہم یہ بات بھول جاتے ہیں کہ ثقافت بھی کوئی چیز ہوتی ہے اور احترام کا بھی کوئی تقاضا ہوتا ہے۔
دیر اور چترال پاکستان کے خوبصورت اضلاع
پاکستان کے صوبے خیبر پختونخوا کے اضلاع دیر اور چترال دلکش قدرتی مناظر کے حامل ہیں۔ یہ علاقے بین الاقوامی سیاحوں کے لیے بھی کشش کا باعث ہیں تاہم اس کے لیے حکومتی سرپرستی کی ضرورت ہے۔
تصویر: DW/M. Shah
دیر کے لوگ محنتی اور جفاکش
دیر کے لوگ محنتی اور جفاکش ہیں۔ یہاں کے مقامی افراد پہاڑوں میں چھوٹے چھوٹے کھیتوں میں کاشت کاری کرتے ہیں۔ یہ دلکش مناظر دیر بالاکے علاقے واڑی کے ہیں۔ لواری ٹاپ سے دیر کے خوبصورت مناظر کی ایک جھلک اس تصویر میں دیکھی جاسکتی ہے۔ سڑک کی تعمیر پر کام جاری ہے جس کی وجہ سے کافی زیادہ درختوں کی کٹائی بھی کی گئی ہے۔
تصویر: DW/M. Shah
لکڑی کا بنا پل
اگر چہ سڑک پر تعمیراتی کام ہو رہا ہے لیکن دیر کے علاقہ میں پہاڑ سے بہتے ہوئے پانی پر یہ لکڑی سے بنا پل سالوں پرانا ہے۔ اس پل کے مالک کو اس سے روزانہ دو سے تین ہزار روپے کی کمائی ہو جاتی ہے۔
تصویر: DW/M. Shah
سڑک کے تعمیر کے لیے کاٹے گئے درخت
سڑک کے تعمیر کے دوران ستائیس ہزار فٹ تک لگے درختوں کو کاٹا جاچکا ہے۔ ایک مقامی تاجر کے مطابق اس تصویر میں نظر آنے والی لکڑی ایک کروڑ سات لاکھ روپے مالیت کی ہے۔
تصویر: DW/M. Shah
لواری ٹنل
لواری ٹنل تقریباً آٹھ کلومیڑ لمبا ہے اور اس کی تعمیر پر 27 ارب روپے کی لاگت آئی ہے۔ یہ ٹنل ضلع دیر کو چترال سے ملاتا ہے۔ سی پیک کی وجہ سے اس ٹنل کی اہمیت زیادہ ہو گئی ہے۔ لواری ٹنل کی تعمیر سے مسافر اب تین سے چار گھنٹے کا سفر کم کرتے ہیں۔
تصویر: DW/M. Shah
وسطی ایشیا اور پاکستان کے مابین واحد زمینی راستہ
ٹنل سے ضلع چترال پہنچا جاتا ہے۔ چترال ہندوکش کے دامن میں واقع ہے۔ اس کا شمار پاکستان کے پسماندہ اضلاع میں ہوتا ہے۔ یہ وسطی ایشیاء کو پاکستان سے ملانے والا واحد زمینی علاقہ ہے۔
تصویر: DW/M. Shah
چترال میں جنگلات کی کٹائی
جنگلات کی کٹائی زوروں سے جاری ہیں۔ یہ لکڑیاں زیادہ تر آگ جلانے کے لیے استعمال ہوتی کی جاتی ہیں۔ چترال جو کہ خیبر پختونخوا کا سب سے بڑا ضلع ہے، وہاں ابھی تک گیس کی سہولت موجود نہیں۔
تصویر: DW/M. Shah
سیاحوں کے لیے جیپ اچھی سواری
وادی بمبوریت جانے کے لیے جیپ پر سواری کی جاتی ہے۔ میلے کے دوران جیپ کا روزانہ کرایہ دس ہزار روپے تک بڑھ جاتا ہے جو کہ عام دنوں میں ایک ہزار یا پندرہ سو روپے ہوتا ہے۔
تصویر: DW/M. Shah
کیلاشیوں کا قبرستان
کیلاش قبیلے کے لوگ اپنے مردوں کو دفناتے نہیں ہیں۔ وہ لاشوں کو تابوتوں میں رکھتے ہیں۔ لیکن اب چند سال سے ان لوگوں نے بھی مردوں کو دفنانا شروع کر دیا ہے۔ بعض بزرگ افراد نے اپنی اولاد کو وصیت کی ہے کہ ان کی وفات کے بعد انہیں دفنایا نہ جائے۔ اس قبرستان کو دیکھنے کے لیے دور دور سے لوگ آتے ہیں۔
تصویر: DW/M. Shah
چلم جوشٹ میلہ
کیلاش میں چلم جوشٹ میلے کے آخری روز قبیلے کے مرد اور خواتین ایک ساتھ رقص کرتے ہیں۔ موسیقی اور ناچنا ان کے مذہب کا حصہ ہے۔ کہا جاتا ہے کہ کیلاش قبیلے کے صرف سات ہزار افراد باقی رہ گئے ہیں۔ یہ کلچر، مقامی لوگ اور ان کی رسومات آہستہ آہستہ معدوم ہوتی جا رہی ہیں۔
تصویر: DW/M. Shah
9 تصاویر1 | 9
شمالیوں کا غیر امتیازی ماحول ہمیں اس خوش فہمی میں مبتلا کر دیتا ہے کہ ہم اعزازی شہرزادہ گلفام لگے ہوئے ہیں۔ جس خاتون کو ہم مسلسل نظریں گاڑ کے دیکھیں گے وہ دوپٹہ جھاڑ کے ہمارے ساتھ بادلوں کے سفر پر نکل جائے گی۔ اگر کوئی ہاتھ دے دے تو ہمیں گلے پڑجانا چاہیے اور دروازہ کھلا دیکھیں تو حواس باختہ بکری کی طرح گھس جانا چاہیے۔ اگر کوئی ثقافتی لباس پہن کر گزر رہا ہے تو اسے تماشا بنا دینا چاہیے۔ ناک میں دم کردینا چاہیے اور سیل فون نکال کر کھچا کھچ تصویریں کھینچ لینا چاہییں۔
کون ہے جو چترال گیا ہو اور کالاشیوں کے ہاں نہ گیا ہو۔ ان کی خواتین کو کسی کا سامنا کرنے میں کوئی دقت نہیں ہوتی تھی۔ ان کے مرد بے دھڑک کسی کو کسی بھی سوال کا جواب دے دیا کرتے تھے۔ آنے والے مہمان کو دیکھ کر مسکراتے تھے۔ شہروں کا احوال لیتے تھے اور اپنا احوال دیتے تھے۔ ان کے ثقافتی پہناووں سے متاثر ہوکر کوئی تصویر کھینچنا چاہتا تو یہ بخوشی کھنچوالیتے تھے۔
گُھل ملنے پر چائے کی دعوت دیتے تھے اور گھر لے جاکر خاطر تواضع کرتے تھے۔ مگر رفتہ رفتہ ان خواتین کو پتہ چلا کہ ان کے ساتھ تصویریں کھنچوانے والے یہ مہذب لوگ سوشل میڈیا پر ان کی تصویروں پر رسوائے زمانہ کیپشن لگاکر تماشے لگاتے ہیں۔ آوازیں دے دے کر لوگوں کو تماشے میں حصہ ڈالنے کی دعوت دیتے ہیں۔ یہ لوگ تو ہاتھ ملانے کا مطلب رسائی اور مسکراہٹ کا مطلب آمادگی سمجھتے ہیں۔ یہ لوگ تو خاطر داری تک کے مفہوم کو جنسی حوالوں سے دیکھتے ہیں۔ کیا یہ اس قابل ہیں کہ انہیں اپنے گھروں میں گھسنے بھی دیا جائے؟
بمبوریت کے راستے آج بھی کھلے ہیں، مگر کیلاشیوں کے چہروں پر سے خوش آمدیدی تاثرات ختم ہوچکے ہیں۔ اب وہاں دروازے بند ملتے ہیں۔ مہذب قوم کے شرفا گزرتے ہیں تو خواتین راستہ بدل لیتی ہیں۔ بہت دیر گپ شپ کرنے کے بعد بھی کوئی چائے کا دعوت نہیں دیتا۔ آپ ویسے ہی سیل فون استعمال کر رہے ہوں تو وہ منہ پھیر لیتے ہیں۔ انہیں لگتا ہے یہ بن پوچھے بہت ہوشیاری کے ساتھ ویڈیو یا تصویر بنا رہے ہوں گے۔ کالاشی اب جو کر رہے ہیں، یہ سب ان کی اپنی ثقافت کے خلاف ہے۔ وہ ایسا نہیں کرنا چاہتے، مگر دل پر پتھر رکھ کر انہیں ایسا کرنا پڑ رہا ہے۔
کچھ برس پہلے کالاشیوں نے اسلام آباد کے پنج ستارہ ہوٹل میں میڈیا سے گفتگو کی۔ التجائی لہجے میں پوری قوم سے انہوں نے کہا تھا کہ سیاحت آپ کا حق ہے، مگر بال بچوں سیمت آنکھوں میں گھسنا سراسر بدتمیزی ہے۔ آنے سے پہلے یہ بات ذہن میں رکھا کریں کہ ہمارے بھی کچھ اعتقادات اور رسم و روایات ہیں۔ تفریح کیا کریں مگر ہر چیز کو تماشا مت بنایا کریں۔ یہ التجا انہوں نے اُس قوم سے کی جس کا ماننا ہے کہ اگر عورتوں کو کسی دقت کا سامنا ہے تو وہ آرام سے گھر میں بیٹھ جائیں۔ باہر نکلنے سے پہلے یہ بات ذہن میں رکھا کریں کہ مرد 'روبوٹ‘ نہیں ہوتے۔
اب تو خیر سے رہی سہی کسر پوری کرنے کے لیے ہم نے شمالیوں کے پاس سعید انور صاحب کو سرکاری پروٹوکول میں بھیجنا شروع کر دیا ہے۔ جن سے ہمیں صفائی ستھرائی، شائستگی، ماحول دوستی، رواداری اور رکھ رکھاؤ سیکھنا چاہیے، انہیں ہم زندگی گزارنے کا بہتر طریقہ سمجھانے جا رہے ہیں۔ کالاشی ہم سے زندگی کی سہولتیں مانگ رہے ہیں، ہم پورے بندوبست کے ساتھ تبلیغی قافلے بھیج رہے ہیں۔
ثقافت کے باب میں ہماری ذہنی سطح کیا ہے، اسے سمجھنا ہو تو بمبوریت کے پہاڑوں پر چڑھ کر دائیں بائیں دیکھیں۔ پہاڑ کی ایک جانب افغانستان کا علاقہ نورستان ہے جہاں یہی کالاشی آباد ہیں تو دوسری جانب پاکستان کا علاقہ بمبوریت ہے جہاں ہمارے والے کالاشی آباد ہیں۔ نورستان والے کالاشی سو فیصد مسلمان ہوچکے ہیں مگر وہاں لباس اور زبان ابھی تک زندہ ہیں۔ ہماری طرف کوئی کالاشی مسلمان ہوجائے تو اپنا مذہب ترک کر دینا کافی نہیں ہوتا بلکہ خیالات کے ساتھ اسے لباس اور زبان بھی چھوڑنا ہوتی ہے۔ ہم کیا کر رہے ہیں؟ ہم سیاحت کو فروغ دے رہے ہیں۔
پاکستان کے حسین نظارے
پاکستان سمیت دنیا بھر میں آج یوم سیاحت منایا جا رہا ہے۔ جنوبی ایشیائی ملک پاکستان قدرتی حسن سے مالا مال ہے۔ اس پکچر گیلری میں ایک نظر پاکستان کے حسین مقامات پر۔
تصویر: Israr Syed
خوش گوار موسم اور فطری حسن
پاکستان کے شمالی علاقے فطری حسن کی وجہ سے سیاحوں کی توجہ کا مرکز ہیں۔ سطح سمندر سے کافی اونچائی کی وجہ سے ان علاقوں میں گرمیوں کے دوران موسم خوشگوار ہوتا ہے۔ جس کی وجہ سے ملک بھر سے لوگ ان علاقوں کا رخ کرتے ہیں۔
تصویر: Israr Syed
جھیل سیف الملوک اور پریوں کی داستانیں
وادی کاغان کے شمالی حصے میں واقع جھیل سیف الملوک کسی عجوبے سے کم نہیں۔ سردیوں میں اس جھیل کا پانی مکمل طور پر جم جاتا ہے۔ سطح سمندر سے تقریباﹰ 3240 میٹر کی بلندی پر واقع یہ جھیل پریوں کی داستانوں کی وجہ سے مشہور ہے۔
تصویر: DW/Danish Babar
بڈاگئی اتڑور پاس
یہ بڈاگئی اتڑور پاس ہے جو سطح سمندر سے 11500 فٹ کی بلندی پر واقع ہے۔ یہ پاس کالام اور کمراٹ ویلی کو آپس میں ملاتا ہے۔ اس کو بڈاگئی میڈوز بھی کہتے ہیں کیونکہ اس کے سرسبز وشاداب پہاڑ آپ کو قدرت کی موجودگی کا احساس دلاتے ہیں۔ سردیوں میں برف کی وجہ سے یہ پاس بند ہو جاتا ہے اور صرف جون سے ستمبر تک یہ قابل استعمال ہے۔
تصویر: Shahzeb Baig
مہوڈنڈ جھیل
مہوڈنڈ جھیل کالام سے 40 کلومیٹر کی مسافت پر واقع ایک خوبصورت قدرتی جھیل ہے۔ مہوڈنڈ جھیل تک کا سفر مکمل جیپ ٹریک ہے۔ اس جھیل کو ٹراؤٹ مچھلیوں کا گھر بھی کہا جاتا ہے۔
تصویر: Shahzeb Baig
خیبرپختونخوا کے لوگ
کہا جاتا ہے کہ خیبرپختونخوا کے لوگ بہت ملنسار اور مہمان نواز ہیں۔ یہ جہاں کہیں آپ کو راستے میں ملیں گے آپ کو کھانے اور چائے کی دعوت ضرور دیں گے۔ اگر آپ وہاں کی مقامی ثقافت کا خیال رکھیں گے تو یہ لوگ آپ کی حفاظت اپنی جان سے بڑھ کر کریں گے۔
تصویر: Shahzeb Baig
دیو مالائی حسن کی حامل وادئ ناران
پاکستان کے شمالی علاقے میں واقع ناران کی وادی دنیا بھر سے فطرت کے دلدادہ افراد کو اپنی جانب کھینچتی ہے۔ سیاح جب تیز و تند دریا اور آبشاروں سے گزرتے ہوئے ناران پہنچتے ہیں تو قدرتی مناظر کی خوبصورتی روح تک اتر جاتی ہے۔
تصویر: Israr Syed
بابو سر ٹاپ
درہ بابو سر یا بابو سر ٹاپ کاغان سے 150 کلومیٹر شمال میں ایک پہاڑی درہ ہے جو چیلاس کو شاہرہ قراقرم سے جوڑتا ہے۔ بابو سر ٹاپ تک خوبصورت آبشاریں، چشمے اور دریائے کنہار یہاں آنے والوں کے ساتھ ساتھ چلتے ہیں۔
تصویر: Israr Syed
مصر کیوں، موہنجو دڑو کیوں نہیں؟
جرمن ماہر آثار قدیمہ پروفیسر مائیکل یانزن چالیس سال سے زائد عرصے سے موہنجودڑو کے کھنڈرات پر تحقیق اور ان کے بچاﺅ میں لگے ہوئے ہیں۔ یانزن کا کہنا ہے کہ ساری دنیا مصر کے آثار قدیمہ کو تو جانتی ہے لیکن موہنجودڑو کو نہیں جانتی۔ اس صورتحال کو اب تبدیل ہونا چاہیے۔
تصویر: Getty Images/AFP/A. Hassan
چلم جوشٹ میلہ
کیلاش میں چلم جوشٹ میلے کے آخری روز قبیلے کے مرد اور خواتین ایک ساتھ رقص کرتے ہیں۔ موسیقی اور ناچنا ان کے مذہب کا حصہ ہے۔ کہا جاتا ہے کہ کیلاش قبیلے کے صرف سات ہزار افراد باقی رہ گئے ہیں۔ یہ کلچر، مقامی لوگ اور ان کی رسومات آہستہ آہستہ معدوم ہوتی جا رہی ہیں۔
تصویر: DW/M. Shah
روہتاس قلعہ، عالمی ثقافتی ورثے کی زبوں حالی
پاکستانی ضلع جہلم میں دینہ کے قریب تاریخی روہتاس قلعہ دہلی کے افغان حکمران شیر شاہ سوری نے سولہویں صدی میں تعمیر کرایا تھا۔ آج اس قلعے کی باقیات عالمی ثقافتی میراث کا حصہ ہیں۔
تصویر: DW/I. Jabeen
کھیوڑہ اور کوہستانِ نمک، ایک ارضیاتی عجوبہ
سالٹ رینج کا پہاڑی سلسلہ تحصیل پنڈ دادن خان کے شمال میں کھیوڑہ سے لے کر دریائے سندھ کے کنارے کالا باغ کے مقام تک پھیلا ہوا ہے۔ یہیں کھیوڑہ کے مقام پر خوردنی نمک کی وہ کان بھی ہے، جو دنیا کی دوسری سب سے بڑی کان ہے۔