سیاست عوامیت پسند، کھانے ’شاہ پسند‘: اب رقم واپس لی جائے گی
3 جولائی 2018
یورپی پارلیمان میں دائیں بازو کی عوامیت پسند سیاسی جماعتوں کے حزب کے ارکان نے عوامی ٹیکسوں کی رقوم سے انتہائی ’پرتعیش کھانے‘ کھائے۔ انہوں نے کرسمس کے ایک ایک تحفے پر سو سو یورو اور ڈنر پر چار سو یورو فی کس تک خرچ کیے۔
تصویر: Imago
اشتہار
یورپی پارلیمان میں مختلف ممالک کی انتہائی دائیں بازو کی عوامیت پسند سیاسی جماعتوں کے ’یورپ آف نیشنز اینڈ فریڈم‘ (ای این ایف) نامی دھڑے کے ارکان نے عوام کے ادا کردہ ٹیکسوں کی رقوم سے اپنے لیے انتہائی ’پرتعیش ضیافتوں‘ کا اہتمام کیا تھا۔ ای این ایف کے زیادہ تر ارکان کا تعلق فرانسیسی سیاسی جماعت نیشنل فرنٹ سے ہے تاہم اس دھڑے میں جرمنی، اٹلی، ہالینڈ اور برطانیہ سمیت یورپی یونین کے کئی دیگر رکن ممالک کی پاپولسٹ سیاسی پارٹیوں کے ارکان بھی شامل ہیں۔
یورپی پارلیمان کے اسپیکر انتونیو تیجانی نے ای این ایف سے تعلق رکھنے والے 35 ارکان پارلیمان کو حکم دیا ہے کہ وہ ضوابط کے خلاف ایسے پرتعیش کھانوں اور قیمتی تحائف پر خرچ کی گئی رقوم میں سے نصف ملین یورو سے زائد کی رقوم واپس کریں۔
یورپی پارلیمان میں اخراجات کے آڈٹ کے دوران یہ بات سامنے آئی تھی کہ ای این ایف کے 35 ارکان نے سن 2016 کے دوران قوانین کی خلاف ورزی کرتے ہوئے چار لاکھ 78 ہزار یورو اضافی خرچہ کیا تھا۔
تب کرسمس کے موقع پر ان عوامیت پسندوں نے پیرس کے ایک ریستوران میں ایک سو چالیس افراد کے لیے ڈنر کا اہتمام کیا تھا، جس پر ساڑھے 13 ہزار یورو خرچ کیے گئے تھے۔ اسی طرح کرسمس کے لیے ایک سو دس تحائف خریدے گئے اور فی تحفہ ایک سو یورو خرچ کیے گئے۔ علاوہ ازیں انہی رقوم سے شیمپین کی 230 بوتلیں بھی خریدی گئی تھیں۔
اس کے علاوہ فرانس کی نیشنل فرنٹ کی رہنما مارین لے پین اور موجودہ اطالوی وزیر داخلہ ماتیو سالوینی نے پیرس کے ایک ریستوران میں جو کھانا کھایا، اس کا فی کس بل بھی 401 یورو بنا تھا۔
یورپی پارلیمان میں دائیں بازو کی عوامیت پسند جماعتوں کے اس پارلیمانی دھڑے کو رواں برس کے بجٹ سے سوا تین ملین یورو دیے جانا ہیں۔ تاہم یورپی پارلیمان کی انتظامیہ نے اس دھڑے سے اس کے ذمے واجب الادا رقوم کی وصولی کو یقینی بنانے کے لیے اب تک اس کے بجٹ سے قریب چھ لاکھ یورو کی ادائیگی روک رکھی ہے۔
مارین لے پین کی جماعت نیشنل فرنٹ کے ارکان کو سن 2017 میں بھی ایک علیحدہ آڈٹ کا سامنا کرنا پڑا تھا۔ تب بھی ان منتخب ارکان پر الزام تھا کہ انہوں نے پارلیمانی وسائل اور بجٹ کا ناجائز استعمال کیا تھا۔
ش ح/ م م (اے ایف پی، ڈی پی اے، ای پی ڈی)
عوامیت پسند یورپی رہنما کیا روس کے ساتھ ہیں؟
سن 2014 میں یوکرائنی بحران کے باعث یورپی یونین امریکا کی طرف راغب ہوئی اور روس پر پابندیاں عائد کر دی گئیں۔ یوں کئی اہم یورپی رہنما ماسکو حکومت سے دور ہو گئے تاہم عوامیت پسند یورپی سیاست دان روس کی طرف مائل ہوتے نظر آئے۔
تصویر: DW/S. Elkin
سٹراخا روس پر عائد پابندیاں ختم کرنے کے حامی
آسٹریا کے نائب چانسلر ہائنز کرسٹیان سٹراخا کئی مرتبہ یورپی یونین پر زور دے چکے ہیں کہ روس پر عائد پابندیاں ختم کی جائیں۔ عوامیت پسند پارٹی FPÖ کے رہنما سٹراخا مشرقی یورپ میں نیٹو کے آپریشنز میں وسعت کے بھی خلاف ہیں۔ 2005ء میں انہوں نے یہاں تک کہہ دیا کہ’ حالیہ عشروں میں روس نے جارحیت نہیں دکھائی‘۔ ممکنہ روسی عسکری کارروائی کے پیش نظر نیٹو نے روس کے ساتھ متصل یورپی سرحدوں پر اپنی موجودگی بڑھائی ہے۔
تصویر: Reuters/H. Bader
’روس اور سفید فام دنیا‘، ژاں ماری لے پین
فرانس کے انتہائی دائیں بازو کے سیاسدتان ژاں ماری لے پین کو 2015ء میں اس وقت شدید تنقید کا سامنا کرنا پڑا، جب انہوں نے کہا کہ فرانس کو روس کے ساتھ مل کر ’سفید فام دنیا‘ کو بچانا چاہیے۔ قبل ازیں انہوں نے یہ دعویٰ بھی کیا تھا کہ نازی جرمن دور کے گیس چیمبرز ’تاریخ کی ایک تفصیل‘ ہیں۔ ان اور ایسے ہی دیگر بیانات کی وجہ سے ان کی بیٹی مارین لے پین نے انہیں اپنی سیاسی پارٹی نیشنل فرنٹ سے بے دخل کر دیا تھا۔
تصویر: Reuters/G. Fuentes
’روس کے اثر میں نہیں‘، مارین لے پین کا اصرار
فرانسیسی قوم پرست سیاسی جماعت نیشنل فرنٹ کی رہنما مارین لے پین کے مطابق یورپی یونین کی طرف سے روس پر عائد کردہ پابندیاں ’بالکل بیوقوفانہ‘ ہیں۔ ان کا دعویٰ ہے کہ ’کریمیا ہمیشہ سے ہی روس کا حصہ تھا‘۔ نیشنل فرنٹ اعتراف کرتی ہے کہ اس نے روسی بینکوں سے قرضے لیے تاہم لے پین کے بقول روس کا ان پر یا ان کی پارٹی پر اثرورسوخ نہیں ہے۔ سن 2017ء میں انہوں نے کریملن میں روسی صدر پوٹن سے ملاقات بھی کی تھی۔
تصویر: Getty Images/AFP/M. Klimentyev
متبادل برائے جرمنی کے روس کے ساتھ مبینہ تعلقات
مہاجرت مخالف جرمن سیاسی پارٹی اے ایف ڈی روسی پس منظر کے حامل ووٹرز میں قدرے مقبول ہے۔ اس پارٹی کی سابق رہنما فراؤکے پیٹری نے سن 2017ء میں روسی صدر کی سیاسی پارٹی کے قانون سازوں سے ماسکو میں ملاقات کی تھی۔ اے ایف ڈی روس پرعائد پابندیوں کو ’مضحکہ خیز‘ قرار دیتی ہے۔ تاہم اس پارٹی کے رہنما ایلیس وائیڈل اور الیگزینڈر گاؤلینڈ کے بقول اے ایف ڈی پوٹن یا ان کی ’مطلق العنان حکومت‘ کی حمایت نہیں کرتی۔
تصویر: picture-alliance/dpa/U. Deck
وکٹور اوربان کے پوٹن کے ساتھ ’خصوصی تعلقات‘
ہنگری کے وزیر اعظم وکٹور اوربان کئی مرتبہ بوڈا پیسٹ میں روسی صدر پوٹن کی میزبانی کر چکے ہیں۔ دونوں رہنما اپنے طرز حکمرانی کے طریقہ کار میں کئی مماثلتیں رکھتے ہیں۔ اوربان کا کہنا کہ ہے یورپی سیاستدان خود کو اچھا دکھانے کی کی خاطر پوٹن کو ’برا‘ ثابت کرتے ہیں۔ تاہم سیرگئی اسکریپل پر کیمیائی حملے کے بعد روسی اور یورپی سفارتی بحران کے نتیجے میں ہنگری نے روسی سفارتکاروں کو بیدخل کرنے کا فیصلہ کیا تھا۔
تصویر: Reuters/Laszlo Balogh
گیئرت ولڈرز کا دورہ روس اور تنقید
اسلام مخالف ڈچ سیاست دان گیئرت ولڈرز نے سن 2014ء میں پرواز MH-17 کے مار گرائے جانے پر روس کو کڑی تنقید کا نشانہ بنایا اور 2018ء میں ماسکو پر پابندیاں عائد کرنے کی حمایت کی۔ تاہم روس کے ایک حالیہ دورے کے بعد ان کے موقف میں واضح تبدیلی دیکھی جا رہی ہے۔ انہوں نے اب کہا ہے کہ وہ نیٹو اور امریکا کے حامی ہیں لیکن مہاجرت کے بحران اور مسلم انتہا پسندی کے خلاف روس ایک اہم حلیف ثابت ہو سکتا ہے۔
تصویر: picture-alliance/AP Photo/P. Dejong
اٹلی کے نئے نائب وزیراعظم ماتیو سالوینی
اٹلی میں حال ہی میں قائم ہونے والی حکومت میں عوامیت پسند سیاسی جماعت ’لیگ‘ اور فائیو اسٹار موومنٹ شامل ہیں۔ دونوں سیاسی پارٹیاں روس پر پابندیوں کے خلاف ہیں۔ ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ مشرقی یورپ میں نیٹو کو ’جارحانہ‘ اقدامات نہیں کرنا چاہییں۔ لیگ کے اعلیٰ رہنما ماتیو سالوینی ملک کے نئے نائب وزیر اعظم اور وزیر داخلہ بنے ہیں۔ انہوں نے واضح کیا ہے کہ وہ ’امن کے لیے کام کرنا چاہتے ہیں، جنگ کے لیے نہیں‘۔