’سیاسی اختلاف کی اجازت نہیں‘
18 مئی 2017![Pakistan PTI Raiwind Kundgebung Forderung Panama Papers Untersuchung](https://static.dw.com/image/35930701_800.webp)
پی ٹی آئی کی مرکزی کمیٹی کے رکن قاسم خان سوری کا الزام عائد کرتے ہوئے کہنا ہے کہ بلوچستان میں پی ٹی آئی کے سابق انفارمیشن سکریٹری سالار کاکڑ کو ایف آئی نے حراست میں لے لیا ہے۔ قاسم خان نے اپنے ٹوئٹر اکاؤنٹ پر ایف آئی اے کے دفتر میں سالار کاکڑ کے ساتھ اپنی تصویر شیئر کی۔ سالار کاکڑ نے بھی اپنے ٹوئٹر اکاؤنٹ پر لکھا کہ ایف آئی اے نے ان سے ان کا موبائل فون اور لیپ ٹاپ لے لیا ہے۔
سالار کاکڑ کی مبینہ گرفتاری پر پاکستان تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان نے ایک ٹوئٹ میں لکھا،’’ حکومت سائبر کرائم بل کو پی ٹی آئی کے سوشل میڈیا کارکنوں کے خلاف استعمال کر رہی ہے۔ ایک جمہوریت میں یہ ناقابل قبول ہے۔‘‘ ایف آئی اے کی جانب سے سالار کاکڑ کی حراست کے بعد پی ٹی آئی کے کئی رہنماؤں نے اس کی رہائی کا مطالبہ کیا اور الزام عائد کیا کہ حکومت سائبر کرائم بل کا غلط استعمال کر رہی ہے۔
اس کیس کے حوالے سے ڈیجیٹل حقوق پر کام کرنے والی تنظیم ’بولو بھی‘ کے ڈائریکٹر اسامہ خلجی نے ڈی ڈبلیوسے سے گفتگو کرتے ہوئے کہا،’’سالار کاکڑ کا کیس سائبر کرائم بل کے تحت چل رہا ہے۔ جب اس قانون کی کئی شقوں کے خلاف بولو بھی اور دیگر تنظیمیں آواز اٹھا رہی تھیں تب ہم نے یہی کہا تھا کہ یہ قانون سیاسی مخالفین اور اختلاف رائے رکھنے والوں کے خلاف استعمال ہو گا۔‘‘ اسامہ کہتے ہیں کہ کچھ ایسی اطلاعات ہیں کہ سالار کاکڑ مبینہ طور پر سوشل میڈیا پر خواتین کے ساتھ نازیبا الفاظ استعمال کرتا تھا اور خواتین کی جانب سے ایف آئی اے کو شکایات بھی لگائیں گئیں لیکن ہراساں کرنے پر اس کے خلاف کوئی ایکشن نہیں لیا گیا بلکہ اس کو سیاسی وجوہات کی بناء پر حراست میں لیا گیا ہے۔ اسامہ کہتے ہیں کہ پاکستان مسلم لیگ نون کہتی تھی کہ اس بل کے ذریعے خواتین کو تحفظ فراہم کیا جائے گا لیکن جب خواتین شکایات لگاتی ہیں تو کچھ نہیں کیا جاتا۔
سوشل میڈیا صارف رابعہ محمود نے اپنے ٹوئٹر اکاؤنٹ پر لکھا،'' سالار کاکٹر کی آن لائن ہسٹری بتاتی ہے کہ اس کے خیالات روش خیال افراد سے نہیں ملتے لیکن اس کو پھر بھی رہا کیاجانا چاہیے، اسے بولنے کی اجازت دینی چاہیے۔‘‘
حسن زیدی نے ٹوئٹر پر لکھا،'' اگر سالار کاکڑ کو حکومت سے اختلاف رائے رکھنے پر گرفتار کیا گیا ہے تو اسے فوری رہا کیا جانا چاہیے۔‘‘
اسامہ نے ڈی ڈبلیو کو بتایا،’’پاکستان کا آئین ہمیں اظہار رائے کا حق دیتا ہے، اس بناء پر کسی کو حراست میں نہیں لینا چاہیے۔‘‘ اسامہ کہتے ہیں کہ پاکستان میں حزب اختلاف کو اس قانون کے خلاف زیادہ آواز اٹھانی چاہیے تھی۔ آج پاکستان میں اسٹوڈنٹ یونینز پر پابندی ہے ایسے میں اب پولیٹیکل ایکٹیوِزم سوشل میڈیا پر ہو رہی ہے اور یہ بل سیاسی جماعتوں کو بہت زیادہ نقصان پہنچائے گا ۔
واضح رہے کہ کچھ ماہ قبل پاکستان میں سائبر کرائم بل منظور کر لیا گیا تھا۔ اس بل کی کئی شقوں کے خلاف ڈیجیٹل حقوق پر کام کرنے والی تنظیموں نے آواز اٹھائی تھی۔ ان تنظیموں اور سیاسی قائدین کے درمیان اس پر مذاکرات کا سلسلہ بھی جاری رہا تھا تاہم کچھ تحفظات کے باوجود اس بل کو منظور کر لیا گیا تھا۔