1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں
سیاستعراق

سیاسی بحران، عراقی پارلیمان کا صدر کے انتخاب کے لیے اجلاس

12 اکتوبر 2022

عراق میں گزشتہ برس ہونے والے انتخابات کے بعد سے جاری سیاسی بحران کے خاتمے کی ایک امید پیدا ہو چلی ہے۔ صدر کے انتخاب کے لیے جمعرات کے روز عراقی پارلیمان کا اجلاس منعقد ہو رہا ہے۔

Irak | Jahrestag Oktoberrevolution | Demonstration in Bagdad
تصویر: Murtadha Al-Sudani/AA/picture alliance

عراق میں پچھلے ایک سال سے مسلسل سیاسی بحران جاری ہے جس کے اثرات وقفے وقفے سے ملکی سڑکوں پر ہونے والے احتجاج کی صورت میں بھی دکھائی دے رہے ہیں۔ تاہم عراقی پارلیمان کا اجلاس اب جمعرات کو طلب کیا گیا ہے، جس میں ملکی صدر کو منتخب کیا جائے گا۔ اس سے عراق میں گزشتہ بارہ ماہ سے جاری سیاسی بحران کے خاتمے کی ایک امید پیدا ہو گئی ہے۔

دجلہ کی پیاس، عراق کا یہ عظیم دریا کیوں مر رہا ہے؟

مظاہروں کے درمیان ایران کا عراقی کردستان پر حملہ، متعدد افراد ہلاک

پچھلے ایک سال سے جاری اس بحران کے چند اہم موڑ دیکھتے ہیں۔

دس اکتوبر سن  2021 کو عراق میں قبل از وقت عام انتخابات منعقد ہوئے، جس کا مقصد کرپشن اور عوامی بہبود کے شعبے میں مالی کٹوتیوں کے خلاف جاری عوامی مظاہروں کا انسداد تھا۔

شیعہ رہنما مقتدیٰ الصدر کی سیاسی تحریک جو پارلیمان میں سب سے بڑی سیاسی قوت تھی اور انتخابات میں قوم پسندی اور انسداد بدعنوانی کے نعرے کے ساتھ مہم چلاتی رہی تھی، اپنی نشستوں کی تعداد میں اضافے میں کامیاب رہی۔

ان کے مدمقابل ایران نواز اتحاد فتح، جسے حشد الشبی نامی تنظیم کی حمایت بھی حاصل تھی، پارلیمان قوت کھوتی دکھائی دی۔ تاہم اس اتحاد نے انتخابات کے نتائج ماننے سے انکار کر دیا۔

اس کے بعد حشد الشعبی کے حامیوں نے بغداد کے گرین زون جیسے انتہائی حساس علاقے میں جہاں اہم حکومتی دفاتر قائم ہیں، دھرنا دے دیا۔

پانچ نومبر 2021 کو سیکورٹی فورسز اور مظاہرین کے درمیان جھڑپوں م یں ایک شخص گولی لگنے سے ہلاک ہو گیا۔ چھ نومبر کو وزیراعظم مصطفیٰ الکاظمی قاتلانہ حملے میں بال بال بچے۔ اس حملے کی ذمہ داری تاہم کسی تنظیم نے قبول نہ کی۔

مظاہروں کے درمیان عراقی سیاسی جماعتوں نے حکومت کے قیام کی کوششیں جاری رکھیں۔ مرکزی شیعہ جماعتیں، جو روایتی طور پر اتحاد قائم کر کے حکومت تشکیل دیتی  تھیں چاہے پارلیمان میں ان کی نشستوں کی تعداد کچھ بھی ہو، تاہم اس بار مقتدیٰ الصدر نے ملک میں اکثریتی حکومت بنانے کے لیے سنی اور کرد اتحادیوں کو بھی ساتھ ملانا شروع کیا۔

تیس نومبر کو انتخابات کے حتمی نتائج میں الصدر کی فتح کا اعلان کیا گیا۔ اس جماعت نے پارلیمان کی تین سو انتیس میں سے 73 نشستوں پر کامیابی حاصل کی تھی، جب کہ فتح اتحاد کو 17 نشستیں ملیں۔ اس سے قبل فتح اتحاد کے پاس 48 پارلیمانی نشستیں تھیں۔

رواں برس نو جنوری کو نئی پارلیمان نے سنی مسلمان محمد الحلبسی کو اسپیکر منتخب کر لیا۔ تاہم اس پارلیمانی ووٹنگ کا ایران نواز اتحاد نے بائیکاٹ کیا۔

فروری کی سات اور مارچ کی تیس تاریخ کو پارلیمان نے دو مرتبہ ملکی صدر کے انتخاب کی کوشش کی، جو ناکام رہی۔ گو کہ عراق میں صدر کا عہدہ رسمی سا ہوتا ہے اور یہ روایتی طور پر عراقی کرد اقلیت کے کسی رکن کے حوالے کیا جاتا ہے، تاہم صدر کے انتخاب کے بعد ہی نئے وزیراعظم کے انتخاب کی راہ ہم وار ہوتی ہے۔

جون میں سیاسی بحران کے خاتمے اور نئی حکومت سازی میں تیزی کے لیے دباؤ بنانے کی غرض سے مقتدیٰ الصدر کی جماعت کے تمام 73 اراکین پارلیمان نے استعفیٰ دیے دیا، یوں اس جماعت کی تمام نشستیں دوسرے نمبر پر آنے والے امیدواروں کے پاس چلیں گئیں اور یوں پارلیمان میں ایران نواز اتحاد کو اکثریت حاصل ہو گئی۔

پچیس جولائی کو ایران نواز اتحاد نے سابق وزیر محمد شیعہ السوڈانی کو وزارت عظمیٰ کے امیداور کے طور پرنامزد کیا۔ اس کے جواب میں الصدر کے حامیوں نے برہمی میں بغداد کے گرین زون میں پارلیمان کی عمارت کے سامنے ستائیس جولائی کو مختصر دھرنا دیا۔

عراق کی باہمت خواتین پیٹرولیئم انجینئرز

02:26

This browser does not support the video element.

 لیکن تین دن بعد ہی یہ دھرنا 'اگلی ہدایات تک موخر‘ کر دیا گیا۔

اگست کی بارہ تاریخ کو ایرانی اتحاد کے حامیوں نے فوری حکومت سازی کے لیے بغداد کے گرین زون میں دھرنا دیا۔ جب کہ 29 اگست کو الصدر نے سیاست سے ریٹائرمنٹ کا اعلان کر دیا

اس کے ساتھ ہی ان کے ہزاروں حامیوں نےحکومتی عمارات پر دھاوابول دیا۔ اس کے نتیجے میں مخالفین سے  جھڑپوں میں الصدر کے کم ازکم 30 حامی مارے گئے۔ اس کے بعد الصدر کی جانب سے علاقہ چھوڑ دینے کے احکامات کے بعد ان کے حامی گھروں کو لوٹ گئے۔ اکتوبر کی گیارہ تاریخ کو اسپیکر الحلبسی کے دفتر نے صدر کے انتخاب کے لیے 13 اکتوبر کو پارلیمان کا اجلاس طلب کیا۔

ع ت، ش ر (اے ایف پی)

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ سیکشن پر جائیں

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ

ڈی ڈبلیو کی مزید رپورٹیں سیکشن پر جائیں