سیاسی تعاقب کے شکار ایرانی باشندے ترکی سے ملک بدر
7 دسمبر 2020ایران میں سیاسی تعاقب کے شکار بہت سے ایرانی باشندے فرار ہو کر ترکی پہنچتے ہیں تاہم اس ہمسائے ملک میں ان کی صورتحال مزید خراب ہو جاتی ہے کیونکہ ترکی میں سیاسی پناہ کے حقوق کو نظر انداز کیا جاتا ہے اور یہاں پہنچنے والے سیاسی پناہ کے متلاشی افراد کو یا تو ملک بدر کر دیا جاتا ہے یا پابند سلاسل۔
حامد گزشتہ چھ برسوں سے ترکی کی جیل میں مقید ہیں۔ 38 سالہ یہ صحافی تہران حکومت پر تنقید کرنے کے جرم کی سزا کاٹ رہے ہیں۔ ایک روز وہ گھر پر نہیں تھے، جب ان کے والد نے انہیں فون کر کے تنبیہ کی کہ وہ گھر واپس نہ آئے کیونکہ پولیس نے اُن کے گھر پر چھاپہ مارا ہے، توڑ پھوڑ کی ہے اور اُن کا کمپیوٹر ضبط کر لیا ہے۔
پہلے حامد ایران میں ہی تقریباٍ ایک ہفتہ روپوش رہا پھر اُس نے سوچا کہ اُسے ملک سے فرار ہو کر ترکی چلے جانا چاہیے۔ یہ اُس کے لیے واحد موقع تھا۔ ترکی کی وزارت داخلہ کے مطابق 2019 ء میں ترکی میں تقریبا ساڑھے تین ہزار ایرانی باشندوں نے بین الاقوامی تحفظ کے قانون کے تحت پناہ کی درخواست جمع کرائی۔
ایرانی باشندوں کی ترکی آنے کی متعدد وجوہات ہوتی ہیں تاہم زیادہ تر سیاسی وجوہات کی بنا پر ترکی آتے ہیں۔ حالیہ دنوں اور مہینوں میں ایران سے فرار ہو کر ترکی آنے والے باشندوں میں زیادہ تر بلاگرز، انسانی حقوق کے لیے سرگرم افراد، اپنا مذہب تبدیل کرنے والے باشندے اور ایسی خواتین جن کا حکومت کے ساتھ کوئی نا کوئی تنازعہ چل رہا ہے، شامل ہیں۔
محمت کاچان وکلاء کی تنظیم 'فان بار ایسو سی ایشن‘ سے منسلک ہیں۔ ان کا کہنا ہے، ''اپنے وطن سے فرار ہونے والے زیادہ تر افغان باشندے افغانستان کے ملٹری تنازعے کے سبب ترکی آتے ہیں جبکہ ایرانی باشندے خود اپنی حکومت سے فرار ہوکر پڑوسی ملک کا رُخ کرتے ہیں۔ ترکی کے مشرق بعید میں واقع ایک شہر یران میں سیاسی طور پر ستائے گئے اور تعاقب کے شکار باشندوں کے لیے پناہ کی راہداری کی شکل اختیار کر چُکا ہے۔
ترکی میں 'سیلف سنسر شپ‘
یورپ اور ایشیا کے سنگم پر واقع ملک ترکی میں' سیلف سنسرشپ‘ کی صورتحال اور بھی زیادہ خراب ہے۔ محمت کاچان کے بقول، ’’ بہت سے ایرانی باشندے ایک سرحد پار کرتے ہیں اور ترکی کی سرزمین میں داخل ہو جاتے ہیں لیکن کچھ تو انتہائی خطرناک رستے اختیار کرنے پر مجبور ہوتے ہیں۔‘‘
ایرانی شہری حامد ان لوگوں میں شامل ہیں، جنہوں نے پناہ گزینوں کے خفیہ راستوں کو ترجیح دی۔ انہوں نے اس پتھریلے رستے کا انتخاب اس لیے کیا کیونکہ انہیں امید تھی کہ ترکی میں پریس کی آزادی کی صورتحال ایران کے مقابلے میں بہت بہتر ہے۔
تاہم اب وہ کہتے ہیں، ''میں ایران میں اپوزیشن کے ساتھ سرگرم تھا اس لیے مجھے اپنا ملک چھوڑنا پڑا، تاہم المیہ یہ ہے کہ ترکی آکر مجھے اندازہ ہوا کہ یہاں خود ساختہ سنسر شپ کی صورتحال بدتر ہے۔‘‘
حامد کا کہنا ہے کہ ترکی کے حکام اس سلسلے میں تہران کے ساتھ تعاون کرتے ہیں اور ایک ہفتے کے اندر اندر ایران سے ترکی آنے والے سیاسی پناہ کے متلاشی افراد کو ملک بدر کر کے واپس ایران بھیجا جا سکتا ہے۔
حامد نے اپنے ایک دوست کے ایک خط کا حوالہ دیتے ہوئے بتایا کہ اُنہیں ترکی سے ملک بدری کے بعد ایران پہنچنے پر 20 سال قید کی سزا سنا دی گئی اور اب وہ تہران کے شمالی حصے میں قائم بدنام زمانہ ارون جیل کی سلاخوں کے پیچھے زندگی بسر کر رہیں ہیں۔ حامد کے دوست کا ماننا ہے کہ اُس کی ملک بدری کے پیچھے ایران اور ترکی کی خفیہ سروسز کے اشتراک عمل اور تعاون کا ہاتھ ہے۔
سیاسی پناہ کی درخواستوں کا التواء
ترکی میں سیاسی پناہ کی درخواستوں کا التواء زیادہ تر کیسز میں ملک بدری کا سبب بنتا ہے کیونکہ یہاں سیاسی پناہ کی درخواست پر کام بہت سست رفتاری سے ہوتا ہے اور یہ کیسز کئی برسوں تک طوالت کا شکار ہو جاتے ہیں۔
وکیل کاچان نے ڈوئچے ویلے کو بتایا کہ ایسے واقعات بھی رونما ہوئے ہیں، جن میں ترک حکام نے پناہ کے درخواست دہندگان سے کہا کہ وہ فی الحال چلے جائیں اور ایک دو سال بعد پھر آکر درخواست جمع کرائیں۔‘‘
کاچان کا کہنا ہے، ’’ ترکی میں سیاسی پناہ سے متعلق شفاف اور مستعد نظام کا فقدان پایا جاتا ہے جس کے سبب پناہ کے متلاشی افراد سے متعلق قوانین بہت کمزور ہیں۔ اس کے نتیجے میں پناہ کے متلاشی بہت سارے افراد غیر قانونی طور پر ترکی میں قیام کرنے پر مجبور ہیں۔‘‘ کاچان کے مطابق اس کے سبب سیاسی پناہ کے متلاشی افراد کے لیے ملک بدری کے امکانات بھی اس ملک میں بہت زیادہ ہوتے ہیں۔
وکیل کاچان کا کہنا ہے کہ ترکی سے ملک بدریوں کے پیچھے ایران اور ترکی دونوں کی خفیہ سروسز کے اہلکاروں کا اہم کردار ہوتا ہے۔ خاص طور سے ایسے ایرانی باشندے جو با اثرورسوخ ہوں یا ’ہائی پروفائل‘ کے حامل ہوں، کو ترکی سے ملک بدر کر کے ایران واپس بھیجنے کے زیادہ خطرات لاحق ہوتے ہیں۔
مہاجرین کا اسٹیٹس: اقوام متحدہ اور ترکی کا تضاد
بہت سے وکلاء کا ماننا ہے کہ ایرانی مہاجرین یا پناہ کے متلاشی افراد کے ساتھ ترکی میں ہونے والا سلوک اس لیے ممکن ہوا کیونکہ دو سال قبل مہاجرین کی رجسٹریشن کے لیے درخواست جمع کروانے والوں کے ساتھ معاملات نمٹانے کے اس طریقہ کار کی ذمہ داری اقوام متحدہ کے ہائی کمشنر برائے مہاجرین ’یو این ایچ سی آر‘ نے ترک اتھارٹی برائے ہجرت کی انتظامیہ کو منتقل کر دی تھی۔
وکیل کاچان کا خیال ہے کہ ان کا ایک موکل، جو کردستان ایران ڈیموکریٹک پارٹی PDK-I کا ممبر رہ چکا ہے، اسے اور اُس کے اہل خانہ کو اقوام متحدہ نے مہاجر کا اسٹیٹس دیا تھا تاہم اُسے ترکی کی پناہ گزینوں کی ایجنسی نے منسوخ کر دیا۔ اس کے بعد وہ غیر قانونی طریقے سے یونان منتقل ہونے پر مجبور ہوگیا۔
کاراکاس،برچو/ ک م/ ع ب