1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

سیاسی جماعتوں کی دھندلاتی ہوئی جمہوریت اور پاکستانی خواتین

26 جولائی 2022

جمعیت علماء اسلام (ف) کے سربراہ مولانا فضل الرحمان جمہوریت کے علم بردار ہونے کا دعویٰ کرتے ہیں اور اس بات کی حمایت کرتے ہیں کہ پاکستانی سیاست میں جمہوریت ملک کی بقاء کے لیے ضروری ہے۔

تصویر: privat

لیکن کیا مولانا صاحب کی جماعت کا نظریہ جمہوریت سیاست کے ساتھ دوسرے معاملات زندگی اور پاکستان کے ہر فرد کے لیے یکساں ہے؟ بالکل بھی نہیں۔

حال ہی میں جے یو آئی (ف) کی مقامی قیادت نے باجوڑ کی تحصیل سالارزئی میں ایک جرگہ منعقد کیا اور خواتین کے سیاحتی مقامات پر جانے پر پابندی عائد کی۔ جرگے نے عید کے دوسرے دن منعقد ہونے والے میوزیکل شو کا حوالہ دیا، جس میں ایک پشتو اداکار اور خواجہ سرا نے رقص اور اداکاری کی تھی۔ قائدین کا موقف تھا کہ اس سے قبائلی علاقہ جات میں ''فحاشی اور عریانی‘‘ پھیل رہی ہے لہذا خواتین کے عوامی مقامات پر جانے پر پابندی عائد کی جائے۔ پارٹی کی مقامی قیادت کے سربراہ عبدالرشید نے یہ بھی دھمکی دی کہ اگر حکومت نے سترہ جولائی تک اس فیصلے کو نافذ نہیں کیا تو جرگے کے اراکین خود اسے مسلط کریں گے۔

تاحال اس جبری حکم کے اطلاق کی کوئی اطلاعات سامنے نہیں آئیں جبکہ جماعت کی اعلیٰ قیادت نے اس حوالے سے یا اس سے لاتعلقی کا کوئی بیان جاری نہیں کیا۔

اس سے قبل بھی قبائلی جرگوں نے خواتین کی سرگرمیوں سے متعلق بیشتر پابندیاں عائد کی ہیں۔ سن دو ہزار اکیس میں جرگے کے ایک فیصلے میں ایف ایم ریڈیوز پر خواتین کو گپ شپ کرنے کی ممانعت کی گئی تھی۔ ساتھ ہیں خواتین کی نشوونما کے مراکز اور نیوٹریشن سینٹرز میں جانے پر پابندی بھی عائد کی گئی تھی۔

کیریئر سے لے کر مختلف معاملات زندگی میں آراء تک اور لباس کے انتخاب سے زندگی کا ساتھی چننے تک عمومی طور پر پاکستانی خواتین کی زندگی کے اکثر و بیشتر فیصلے مرد حضرات کرتے ہیں۔ اگرچہ ملک میں جمہوریت کا نظام رائج ہے اور مذہبی جماعتیں، جو سیاست کا حصہ ہیں، وہ جمہوریت کی علم بردار ہیں لیکن ملک کو ترقی کی راہ پر گامزن کرنے کے لیے خواتین کے کردار کو نا صرف رد کیا جاتا ہے بلکہ زندگی کے دوسرے مرحلوں میں ان کی شمولیت پر بھی اعتراضات اٹھائے جاتے ہیں۔

جے یو آئی (ف) کی مقامی قیادت کا حکم یہ بات ثابت کرتا ہے کہ ملک کے قبائلی اضلاع میں آج بھی پدرسری عناصر سر گرم عمل ہیں، جو مذہب کی آڑ میں خواتین کے لیے تفریحی مواقع کے بھی مخالف ہیں۔

اس کے ساتھ ساتھ یہ جبری فیصلہ کئی سوالات کو بھی جنم دیتا ہے۔

ملک کی ایک بڑی مذہبی اور سیاسی جماعت، جو حکومت کا بھی حصہ ہے، پاکستان میں کون سی جمہوریت قائم کرنا چاہتی ہے، جس میں عوامی مقامات پر خواتین کا وجود بھی ناقابل برداشت ہے؟

کیا یہ جماعت پاکستان کے بانی اور ملک کی بنیادوں میں جمہوریت کی اینٹیں رکھنے والے قائد اعظم محمد علی جناح کی بہن محترمہ فاطمہ جناح کی ملکی سیاست میں شمولیت اور زندگی کے دوسرے شعبوں میں ان کے کردار کی حقیقت سے بے خبر ہے؟

کیا یہ جماعت اس بات سے بے خبر ہے کہ حال ہی میں ورلڈ اکنامک فورم نے صنفی مساوات کی ایک رپورٹ شائع کی ہے، جس میں خواتین کے لیے تعلیم، صحت، معاشی مواقع اور سیاسی اختیارات کی بنیادوں پر دنیا کے ممالک کی درجہ بندی کی گئی ہے؟ اس رپورٹ میں پاکستان کو دنیا کا دوسرا بدترین ملک قرار دیا گیا ہے۔

پاکستان ترقی کی راہ پر اسی وقت گامزن ہو سکتا ہے، جب جمہوریت کے سائے تلے خواتین کو آگے بڑھنے کے لیے وہ ساری سہولیات میسر آئیں، جو پاکستانی مردوں کے لیے موجود ہیں۔

لیکن جمعیت علماء اسلام (ف) کی مقامی قیادت کا فیصلہ یہ تاثر دیتا ہے کہ خواتین سے متعلق فیصلوں میں پاکستان کی سیاسی جماعتوں کی جمہوریت دھندلا رہی ہے۔

 

نوٹ: ڈی ڈبلیو اُردو  کے کسی بھی بلاگ، تبصرے یا کالم میں ظاہر کی گئی رائے مصنف یا مصنفہ کی ذاتی رائے ہوتی ہے، جس سے متفق ہونا ڈی ڈبلیو کے لیے قطعاﹰ ضروری نہیں ہے۔

فاطمہ شیخ کراچی میں مقیم ایک صحافی ہیں۔ زیادہ تر سماجی مسائل پر لکھتی ہیں۔
ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ سیکشن پر جائیں

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ

ڈی ڈبلیو کی مزید رپورٹیں سیکشن پر جائیں