پاکستان تحریک انصاف اور پاکستان مسلم لیگ (ن) کے اہم امیدوار کالعدم تنظیموں کے ساتھ انتخابی اتحاد بنا رہے ہیں۔ پیپلز پارٹی بھی ماضی میں سپاہ صحابہ اور اہل سنت والجماعت کے ساتھ انتخابی اتحاد بنا چکی ہے۔
اشتہار
پاکستان تحریک انصاف کے صف اول کے رہنما اسد عمر کی جانب سے کیا جانے والا یہ حالیہ اعلان پاکستان کے سیاسی حلقوں کو ورطہ حیرت میں ڈال گیا کہ انصار الامہ کے سربراہ مولانا فضل الرحمان خلیل نے تحریک انصاف کی حمایت کا اعلان کر دیا ہے۔ اسد عمر کے بیان کے مطابق، ’’مولانا نے پی ٹی آئی میں شمولیت کا اعلان کرتے ہوئے اس عزم کا اظہار کیا کہ پاکستان کو صحیح معنوں میں اسلامی جمہوری ریاست بنانے کے لیے اقدامات کو مزید فروغ دیا جائے گا۔‘‘
مولانا خلیل کو عالمی سطح پر حرکت المجاہدین (HUM) کے بانی رکن کے طور پر جانا جاتا ہے، جس کے مبینہ طور پر القاعدہ کے ساتھ تعلقات تھے۔ انہوں نے 1980 میں حرکت جہاد الاسلامی کی بنیاد رکھی تھی تاہم 2000ء میں اس کی صدارت سے الگ ہو گئے۔ پاکستانی حکام نے انہیں مئی 2004 میں گرفتار کیا تھا لیکن چھ ماہ بعد شواہد نہ ہونے کی وجہ سے رہا کر دیا۔ ان کی جماعت انصار الامہ پر بھی پابندی لگا دی گئی تھی لیکن اس کے ساتھ ساتھ یہ جماعت پاکستان دفاع کونسل کا حصہ بھی تھی۔ مولانا کو امریکی حکومت کی جانب سے 30 ستمبر 2014ء کو عالمی دہشت گردوں کی خصوصی فہرست (SDGT) میں شامل کیا گیا۔
پاکستانی سیاست: تاریخ کے آئینے میں
پاکستانی تاریخ میں کئی بحران سامنے آتے رہے۔ کبھی فوج براہ راست اقتدار میں رہی اور کبھی بلواسطہ۔ کئی منتخب حکومتیں اپنی مدت مکمل نہ کر پائیں۔ پاکستان کی پیچیدہ سیاسی تاریخ کے کچھ اہم واقعات دیکھیے اس پکچر گیلری میں
تصویر: Getty Images/Keystone/Hulton Archive
1947 – آزادی اور پہلا جمہوری دور
برطانیہ سے آزادی کے بعد ہندوستان کی تقسیم ہوئی اور مسلم اکثریتی علاقوں پر مبنی نیا ملک پاکستان معرض وجود میں آیا۔ پاکستان کے بانی محمد علی جناح ملک کے پہلے گورنر جنرل بنے اور لیاقت علی خان کو ملکی وزیر اعظم مقرر کیا گیا۔ ٹی بی کے مرض میں مبتلا محمد علی جناح قیام پاکستان کے ایک برس بعد ہی انتقال کر گئے۔
تصویر: AP
1951
وزیر اعظم لیاقت علی خان کو راولپنڈی میں قتل کر دیا گیا۔ وہ شہر کے کمپنی باغ میں منعقدہ ایک جلسے میں شریک تھے جہاں ان پر قاتلانہ حملہ ہوا اور انہیں دو گولیاں لگیں۔ پولیس نے حملہ آور کو موقع پر ہی ہلاک کر دیا۔ لیاقت علی خان کو فوری طور پر ہسپتال منتقل کیا گیا لیکن وہ جانبر نہ ہو سکے۔ اس بحرانی صورت حال میں خواجہ ناظم الدین کو وزیر اعظم بنا دیا گیا۔
تصویر: OFF/AFP/Getty Images
1958 – پہلا فوجی دور
پاکستان کا پہلا آئین سن 1956 میں متعارف کرایا گیا تاہم ملکی صدر اسکندر مرزا نے دو سال بعد 1958 میں آئین معطل کر کے مارشل لا لگا دیا۔ کچھ دنوں بعد ہی فوجی سربراہ جنرل ایوب خان نے اسکندر مرزا کو اقتدار سے برطرف کر دیا اور خود صدر بن گئے۔ یوں پہلی مرتبہ پاکستان میں اقتدار براہ راست فوج کے پاس چلا گیا۔
تصویر: imago stock&people
1965
ایوب خان نے پاکستان میں امریکا جیسا صدارتی نظام متعارف کرایا اور سن 1965 میں انتخابات کے انعقاد کا اعلان کیا۔ وہ پاکستان مسلم لیگ کی جانب سے صدارتی امیدوار بن گئے اور ان کا مقابلہ بانی پاکستان کی بہن فاطمہ جناح سے ہوا۔ فاطمہ جناح کو زیادہ ووٹ ملے لیکن ایوب خان ’الیکٹورل کالج‘ کے ذریعے ملکی صدر بن گئے۔
تصویر: imago stock&people
1969
انتخابات میں فاطمہ جناح کی متنازعہ شکست اور بھارت کے ساتھ 1965 کی جنگ کے بعد ایوب خان کی ساکھ کافی متاثر ہوئی اور ان کے خلاف احتجاجی تحریک شروع ہوئی۔ ایوب خان نے اقتدار جنرل یحیی خان کے حوالے کر دیا اور ملک میں ایک مرتبہ پھر مارشل لا نافذ کر دیا گیا۔
تصویر: imago/ZUMA/Keystone
1970
پاکستان میں عام انتخابات کا انعقاد ہوا۔ مشرقی پاکستان کے رہنما شیخ مجیب الرحمان کی عوامی جماعت نے قومی اسمبلی کی کل تین سو نشستوں میں سے 160 نشستیں حاصل کر لیں جب کہ ذوالفقار علی بھٹو کی جماعت 81 نشستوں کے ساتھ دوسرے نمبر پر رہی۔ تاہم عوامی لیگ کو اقتدار نہیں سونپا گیا۔
تصویر: Journey/M. Alam
1971
یہ تنازعہ شدت اختیار کر گیا اور پاکستانی فوج نے مشرقی پاکستان میں فوجی آپریشن شروع کر دیا۔ بھارت بھی اس تنازعے میں کود پڑا اور جنگ کے بعد پاکستان تقسیم ہو گیا۔ مشرقی پاکستان کی جگہ ایک نیا ملک بنگلہ دیش معرض وجود میں آیا۔
تصویر: Journey/R. Talukder
1972 – دوسرا جمہوری دور
مارشل لا ختم کر دیا گیا۔ ذوالفقار علی بھٹو ملکی صدر منتخب ہوئے۔ انہوں نے اسی برس ملکی جوہری پروگرام کا آغاز بھی کیا۔
تصویر: STF/AFP/GettyImages
1973
پاکستان میں نیا ملکی آئین تشکیل پایا جس کے مطابق ملک میں پارلیمانی جمہوریت متعارف کرائی گئی۔ ایوان زیریں اور ایوان بالا تشکیل دی گئی اور حکومت کی سربراہی وزیر اعظم کے عہدے کو دی گئی۔ بھٹو صدر کی بجائے وزیر اعظم بن گئے۔ سن 1976 میں بھٹو نے جنرل ضیا الحق کو ملکی فوج کا سربراہ مقرر کیا جو بعد میں ان کے لیے مصیبت بن گئے۔
تصویر: imago/ZUMA/Keystone
1977 – دوسرا فوجی دور
پاکستان میں عام انتخابات کا انعقاد ہوا جن میں بھٹو کی جماعت پاکستان پیپلز پارٹی نے قومی اسمبلی میں اکثریت حاصل کر لی۔ بھٹو کے خلا ف انتخابات میں دھاندلی کا الزام عائد کرتے ہوئے احتجاجی مظاہرے شروع ہو گئے۔ صورت حال کا فائدہ اٹھاتے جنرل ضیا الحق نے بھٹو کو اقتدار سے ہٹا کر ملکی آئین معطل کرتے ہوئے ملک میں مارشل لا لگا دیا۔
تصویر: Getty Images/Keystone/Hulton Archive
1978
جنرل ضیا الحق نے آرمی چیف کے عہدے کے ساتھ ملکی صدر کا عہدہ بھی سنبھال لیا۔ سن 1979 میں ذوالفقار علی بھٹو کو ’قتل کی سازش‘ کے ایک مقدمے میں قصور وار قرار دتیے ہوئے پھانسی کی سزا دے دی گئی۔ ضیا الحق نے اسی برس ملک میں حدود آرڈیننس جیسے متنازعہ قوانین متعارف کرائے اور ’اسلامائزیشن‘ کی پالیسی اختیار کی۔
تصویر: imago/ZUMA/Keystone
1985
ملک میں غیر جماعتی بنیادوں پر انتخابات کرائے گئے۔ مارشل لا ہٹا دیا گیا اور جنرل ضیا کو آٹھ سال کی مدت کے لیے صدر جب کہ محمد خان جونیجو کو وزیر اعظم بنا دیا گیا۔ اس سے ایک برس قبل جنرل ضیا نے اپنی ’اسلامائزیشن‘ پالیسی کے بارے میں ریفرنڈم کرایا تھا اور دعویٰ کیا گیا تھا کہ 95 فیصد عوام نے اس کی حمایت کی تھی۔
تصویر: Getty Images/Keystone/Hulton Archive
1988
بڑھتے ہوئے اختلافات کے باعث ضیا الحق نے آئینی شق اٹھاون دو بی کا استعمال کرتے ہوئے وزیر اعظم جونیجو کو برطرف اور اسمبلیاں تحلیل کر دیں۔ انہوں نے نوے دن کے اندر انتخابات کے انعقاد کا پھر سے وعدہ بھی کیا تاہم اسی برس سترہ اگست کے روز جہاز کے حادثے میں ضیا الحق اور دیگر اکتیس افراد ہلاک ہو گئے۔
تصویر: PHILIPPE BOUCHON/AFP/Getty Images
1990
پاکستانی صدر غلام اسحاق خان نے بدعنوانی اور نااہلی کے الزامات عائد کرتے ہوئے بینظیر بھٹو کی حکومت برطرف کر دی اور اسمبلیاں بھی تحلیل کر دیں۔ نئے انتخابات کا انعقاد کرایا گیا اور ضیا دور میں سیاست میں اترنے والے نواز شریف ملکی وزیر اعظم منتخب ہو گئے۔ اگلے برس اسمبلی نے ’شریعہ بل‘ منظور کیا اور اسلامی قوانین ملکی عدالتی نظام کا حصہ بنا دیے گئے۔
تصویر: imago/UPI Photo
1993
صدر غلام اسحاق خان نے نواز شریف حکومت کو بھی بدعنوان قرار دیتے ہوئے برطرف کر دیا۔ خود انہوں نے بھی بعد ازاں صدر کے عہدے سے استعفیٰ دے دیا۔ عام انتخابات کا انعقاد ہوا اور بینظیر بھٹو دوسری مرتبہ ملکی وزیر اعظم بنیں۔ پیپلز پارٹی ہی کے فاروق لغاری ملکی صدر کے عہدے پر فائز ہوئے۔
تصویر: Getty Images/AFP/L. Frazza
1996
صدر لغاری نے اسمبلیاں تحلیل کر دیں اور بینظیر حکومت کو برطرف کر دیا۔ ایک دہائی کے اندر پاکستان میں چوتھی مرتبہ عام انتخابات کا انعقاد کرایا گیا۔ نواز شریف کی قیادت میں پاکستان مسلم لیگ نے بھاری اکثریت سے کامیابی حاصل کی اور وہ دوسری مرتبہ ملکی وزارت عظمیٰ کے عہدے پر فائز ہوئے۔
تصویر: picture-alliance/dpa
1998
پاکستان نے صوبہ بلوچستان میں واقع چاغی کے پہاڑوں میں جوہری ہتھیاروں کا کامیاب تجربہ کیا۔ اس سے چند روز قبل بھارت نے بھی جوہری ہتھیاروں کا تجربہ کیا تھا۔ ایٹمی تجربوں کے بعد عالمی برادری نے پاکستان پر سخت اقتصادی پابندیاں عائد کر دیں۔
تصویر: picture alliance / dpa
1999 – فوجی اقتدار کا تیسرا دور
کارگل جنگ کے بعد وزیر اعظم نواز شریف نے اس وقت کے فوجی سربراہ جنرل پرویز مشرف کو ان کے عہدے سے برطرف کر کے جنرل ضیا الدین عباسی کو ملکی فوج کا سربراہ تعینات کر دیا۔ تاہم فوج نے فوری طور پر ردِ عمل ظاہر کرتے ہوئے نواز شریف کو گرفتار کر لیا۔ جنرل پرویز مشرف نے ملکی اقتدار سنبھال لیا۔
تصویر: SAEED KHAN/AFP/Getty Images
2000
پاکستان کی سپریم کورٹ نے مارشل لا کی توثیق کر دی۔ اسی برس شریف خاندان کو جلاوطن کر کے سعودی عرب بھیج دیا گیا۔ جنرل مشرف سن 2001 میں پاکستان کے صدر بن گئے۔ انہوں نے آرمی چیف کا عہدہ بھی اپنے پاس رکھا۔
تصویر: Getty Images/AFP/A. Qureshi
2002
جنرل پرویز مشرف ایک ریفرنڈم کے بعد مزید پانچ برس کے لیے ملکی صدر بن گئے۔ اسی برس عام انتخابات بھی ہوئے جن میں پاکستان مسلم لیگ ق نے کامیابی حاصل کی۔ یہ جماعت جنرل پرویز مشرف نے بنائی تھی۔ ظفراللہ خان جمالی کو وزیراعظم تعینات کیا گیا تاہم دو برس بعد ان کی جگہ شوکت عزیز کو وزیر اعظم بنا دیا گیا۔ جنرل مشرف نے ترامیم کے بعد سن 1973 کا ملکی آئین بحال کر دیا۔
تصویر: AP
2007
جنرل مشرف نے ملکی چیف جسٹس افتخار چوہدری کو ان کے عہدے سے ہٹا دیا جس کے بعد ملک گیر مظاہرے شروع ہو گئے۔ افتخار چوہدری کو ان کے عہدے پر بحال کر دیا گیا تاہم بعد ازاں جنرل مشرف نے ملک میں ایمرجنسی نافذ کر دی۔ دریں اثنا ملکی پارلیمان نے پہلی مرتبہ اپنی پانچ سالہ مدت بھی مکمل کی۔
تصویر: AP
2007
پاکستان پیپلز پارٹی کی رہنما بینظیر بھٹو ایک مفاہمت کے بعد انتخابات میں حصہ لینے کے لیے وطن واپس لوٹ آئیں۔ بعد ازاں نواز شریف کو بھی سعودی عرب سے وطن واپس آنے کی اجازت مل گئی۔ انتخابی مہم کے دوران راولپنڈی میں ایک جلسے کے بعد بینظیر بھٹو کو قتل کر دیا گیا۔
تصویر: Getty Images
2008– چوتھا جمہوری دور
بینظیر بھٹو کے قتل کے بعد منعقد ہونے والے عام انتخابات میں پاکستان پیپلز پارٹی اقتدار میں آئی۔ یوسف رضا گیلانی ملکی وزیر اعظم بنے جب کہ بنظیر بھٹو کے شوہر آصف علی زرداری نے ملکی صدر بننے کو ترجیح دی۔ الزامات اور تنازعات کے باوجود پیپلز پارٹی کی حکومت پانچ سالہ مدت مکمل کرنے میں کامیاب رہی۔
تصویر: Getty Images
2013
اس برس کے عام انتخابات میں مسلم لیگ نون نے کامیابی حاصل کی اور ملکی آئین میں ترامیم کے باعث نواز شریف تیسری مرتبہ ملکی وزارت عظمیٰ کے عہدے پر فائز ہوئے۔ عمران خان کی جماعت تحریک انصاف ملک کی تیسری بڑی سیاسی جماعت بن کر سامنے آئی۔ پیپلز پارٹی سندھ جب کہ پی ٹی آئی صوبہ خیبر پختونخوا میں حکومت بنانے میں کامیاب رہی۔
تصویر: AFP/Getty Images
2017
تین مرتبہ وزیر اعظم بننے والے نواز شریف کو کرپشن کے الزامات کے باعث کرسی سے محروم ہونا پڑا۔ سپریم کورٹ نے انہیں انتخابات میں حصہ لینے اور کسی بھی عوامی عہدے کے لیے نااہل قرار دے دیا۔ نواز شریف نے فوج پر الزامات عائد کرتے ہوئے اسٹیبلشمنٹ مخالف بیانیہ اختیار کیا۔
تصویر: Reuters/F. Mahmood
2018
پاکستان میں پھر انتخابات ہونے والے ہیں۔ نواز شریف کے بعد مسلم لیگ ن کی قیادت ان کے بھائی شہباز شریف کر رہے ہیں۔ نواز شریف، مریم نواز اور کیپٹن صفدر کو سزائیں ہو چکی ہیں۔ بظاہر مسلم لیگ نون اسٹیبلشمنٹ اور عدلیہ کی جانب سے دباؤ کا شکار ہے۔ عمران خان کو امید ہے کہ اس مرتبہ ان کی جماعت جیتنے میں کامیاب رہے گی۔ پیپلز پارٹی بلاول بھٹو کو عملی سیاست میں اتار چکی ہے۔ انتخابات کا انعقاد 25 جولائی کو ہو گا۔
تصویر: picture-alliance/empics/D. Farmer
26 تصاویر1 | 26
دوسری طرف اہل سنت والجماعت کے مولانا اورنگزیب فاروقی نے کراچی کے علاقے ملیر میں، جو روایتی طور پر پیپلز پارٹی کا گڑھ سمجھا جاتا ہے، ’عوامی خدمت پینل‘ کے نام سے ایک انتخابی اتحاد کا اعلان کیا ہے، جس میں پاکستان مسلم لیگ (ن)، پاکستان تحریک انصاف اور پیپلز پارٹی کا ایک باغی امیدوار شامل ہیں۔ مولانا فاروقی راہ حق پارٹی کی جانب سے قومی اسمبلی کے حلقہ این اے 238 سے الیکشن لڑ رہے ہیں۔ ان کے اعلان کردہ پینل میں مسلم لیگ (ن) سندھ کے رہنما جاوید ارسلا خان (حلقہ پی ایس 89 )، پاکستان تحریک انصاف کے اعجاز سواتی (حلقہ پی ایس 90 ) اور پیپلز پارٹی کراچی کے سابق صدر حاجی مظفر شجرا(حلقہ پی ایس 91 ) شامل ہیں۔ یہ تمام امیدوار مشترکہ انتخابی مہم چلائیں گے اور ایک دوسرے کی مدد کریں گے۔ مولانا فاروقی نے شجرا کے مقابلے میں اپنے کاغذات نامزدگی واپس لے لیے ہیں۔
گزشتہ انتخابات میں مولانا اورنگزیب فاروقی نے حلقہ پی ایس 128 سے الیکشن لڑا تھا اور صرف 202 ووٹوں سے ہار گئے تھے۔ موجودہ انتخابی اتحاد کے اعلان کے وقت پریس کانفرنس کرتے ہوئے مولانا کا کہنا تھا، ’’ہم نے باضابطہ انتخابی اتحاد کا فیصلہ کیا ہے تا کہ ملیر کے عوام کے مسائل حل کر سکیں، جنہیں انفراسٹرکچر، پینے کا صاف پانی اور دیگر بنیادی سہولیات میسر نہیں۔ ملیر کے رہائشیوں، بزرگوں اور مقامی تاجروں نے ہم سے پرزور مطالبہ کیا ہے کہ ہم یہ انتخابی اتحاد تشکیل دیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ اس علاقے کے لوگ ٹوٹی پھوٹی سڑکوں، گندگی اور بدبو سے بھری گلیوں اور پانی کی قلت سے تنگ آ چکے ہیں۔‘‘
دوسری جانب مولانا فضل الرحمان خلیل نے پی ٹی آئی میں شمولیت کی تردید کی لیکن اسد عمر کی بھرپور حمایت کرنے کا اعلان ضرور کیا۔ انہوں نے اسد عمر کے ساتھ اپنے ذاتی تعلقات کا حوالہ دیا۔ ان کے مطابق، ’’اسد عمر صاحب ایک ہہت اچھے اور صاف ستھرے لیڈر ہیں۔ ہم ان کی بہت عزت کرتے ہیں اوراسی وجہ سے ان کی مدد کریں گے۔‘‘
ڈی ڈبلیو سے خصوصی گفتگو کرتے ہوئے پاکستان تحریک انصاف کے ترجمان افتخار درانی نے کہا، ’’یہ مولانا خلیل اور اسد عمر کا باہمی تعلق اور ذاتی فیصلہ ہے۔ یہ پی ٹی آئی کی پالیسی نہیں۔ ویسے بھی سماجی ترقی کے عمل میں سب کو شامل کیا جاتا ہے اور کسی طبقے کو ترقی کے عمل سے محروم نہیں کیا جا سکتا۔‘‘ عمران خان کی جانب سے طالبان کی مسلسل حمایت سے متعلق ایک سوال کا جواب دیتے ہوئے انہوں نے کہا، ’’آج امریکا انہیں طالبان کے سماجی امتزاج کی بات کر رہا ہے۔ آج کہا جا رہا ہے کہ انتہاپسندوں بلکہ دہشت گردوں کو بھی مرکزی سیاسی دھارے میں شامل کیا جانا چاہیے۔ آج ساری دنیا یہ کہہ رہی ہے کہ طالبان سے مذاکرات ہی افغان مسئلے کا واحد حل ہے۔ لیکن عمران خان نے یہ بات 15 سال پہلے کی تھی۔ ان کا پرویز مشرف کے ساتھ بھی اصولی اختلاف یہی تھا کہ فاٹا میں فوج نہ بھیجی جائے۔ وقت نے عمران خان کے موقف کو درست ثابت کیا۔‘‘
افتخار درانی کے مطابق، ’’ہم پر مدرسہ حقانیہ کے حوالے سے بھی تنقید ہوتی ہے لیکن یہ سمجھنے کی کوشش نہیں کی جاتی کہ یہ ایک مدرسہ نہیں بلکہ مدرسوں کا ایک نیٹ ورک ہے۔ اور ان مدرسوں میں پڑھنے والے ہزاروں بچے بھی ہمارے ہی بچے ہیں۔‘‘ انہوں نے مغربی ملکوں اور ان کے اداروں کے جانب سے پھیلائے جانے والے اس تاثر کی نفی کی کہ پاکستان میں لبرل ازم اور رجعت پرستی کی کوئی جنگ چل رہی ہے، ’’ہم ہزاروں برسوں سے ایک دوسرے کے ساتھ رہ رہے ہیں۔‘‘
اس حوالے سے ڈی ڈبلیو سے بات کرتے ہوئے سکیورٹی امور کے ماہراور پاک انسٹی ٹیوٹ آف پیس اسٹڈیز کے ڈائریکٹر محمد عامر رانا کا کہنا تھا، ’’سیاسی جماعتوں کی اپنی انتخابی مجبوریاں ہوتی ہیں۔ سب سے پہلی ذمہ داری الیکشن کمشن اور وزارت داخلہ کی تھی کہ انہیں انتخابی عمل میں شامل ہونے سے روکا جاتا۔ اب جبکہ وہ اس عمل کا حصہ ہیں تو سیاسی جماعتوں پر الزام نہیں دھرا جا سکتا۔‘‘
ان کا کہنا تھا کہ اتنی بڑی تعداد میں انتہاپسند، رجعت پسند، فرقہ پرست اور دہشت گرد جماعتوں کی جانب سے انتخابی امیدواروں کا اعلان ایک بہت خوفناک رجحان ہے، ’’ہماری سکیورٹی اسٹیبلشمنٹ کو دیکھنا چاہیے کہ ایک طرف تو وہ دہشت گردوں کی کمر توڑنے کا دعوی کرتے ہیں اور دوسری طرف آپ ان کی خوشنودی حاصل کرنے کے جتن بھی کرتے ہیں۔‘‘
عامر رانا سمجھتے ہیں کہ دہشت گردوں کی کمر توڑنے کی پہلی شرط یہ ہے کہ معاشرے میں ان کی نظریاتی اثر پذیری کا خاتمہ کیا جائے۔ وہ کہتے ہیں کہ آئندہ سویلین حکومت کے لیے عالمی برادری کے سامنے اس پالیسی کا دفاع کرنا مشکل ہو جائے گا اور ممکن ہے کہ سول ملٹری تعلقات ایک مرتبہ پھر بحران کا شکار ہو جائیں۔
سینئر صحافی اور مذہبی انتہا پسندی کے سماجی و سیاسی رجحانات پر گہری نظر رکھنے والے ماہر عمرانیات ضیغم خان نے ڈی ڈبلیو سے بات کرتے ہوئے کہا، ’’پاکستان کی سیاسی جماعتوں نے ہمیشہ مذہبی اور انتہا پسند جماعتوں کے ساتھ انتخابی اتحاد کیے ہیں۔ پاکستان مسلم لیگ (ن) نے جھنگ میں اتحاد بنائے اور اسی طرح 1990 کی دہائی میں پیپلز پارٹی نے سپاہ صحابہ کے لیڈر کو رکن صوبائی اسمبلی بنایا تھا۔ اسی طرح 2015ء کے بلدیاتی انتخابات میں پیپلز پارٹی نے سندھ میں اہل سنت والجماعت کے ساتھ انتخابی اتحاد بنایا تھا۔‘‘
حالیہ صورت حال پر ضیغم خانب کہتے ہیں، ’’پی ٹی آئی کے لیے اس نوعیت کے اقدامات نقصان دہ ثابت ہو سکتے ہیں۔ عمران خان کو طالبان خان کا لقب دیا گیا کیونکہ وہ ڈرون حملوں کے خلاف دھرنے دیتے رہے ہیں، طالبان کا دفتر کھولنے کا مطالبہ کرتے رہے ہیں اور ان سے مذاکرات کرنے کی پرزور حمایت کرتے رہے ہیں۔ اب یہ تاثر پیدا ہو رہا ہے کہ عمران خان ایک طرف بریلوی درگاہوں پر سجدے کر رہے ہیں اور دوسری طرف دیوبندی تنظیموں کی جانب جھک رہے ہیں تاکہ توازن قائم رہے۔‘