1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

سیاسی جماعتیں بلدیاتی انتخابات کی مخالف کیوں؟

عبدالستار، اسلام آباد
11 نومبر 2021

سپریم کورٹ کے چیف جسٹس جسٹس گلزار احمد نے پنجاب حکومت کو بلدیاتی اداروں کی بحالی کے حوالے سے حکم عدولی پر خبردار کرتے ہوئے پنجاب حکومت کے اعلیٰ افسران سے ایک ہفتے میں جواب طلب کر لیا ہے۔

Wahlen in Pakistan 2013
تصویر: Reuters/Mian Khursheed

عدالت نے پچیس مارچ کو حکم دیا تھا کہ بلدیاتی اداروں کو فوری طور پر بحال کیا جائے اور پنجاب لوکل گورنمنٹ دو ہزار انیس کی شق تین، جس کے مطابق ان اداروں کو ختم کیا گیا تھا، کو غیر قانونی قرار دیا تھا۔ لیکن عدالت کے اس حکم پر عملدرآمد نہیں ہوا۔

 اس سماعت کے بعد ملک میں بلدیاتی اداروں کے اختیارات کے حوالے سے بحث چھڑ گئی ہے اور کئی حلقے یہ سوال کر رہے ہیں کہ آخر سیاسی جماعتیں کیوں بلدیاتی انتخابات نہیں کراتی اور اور اختیارات کو نچلی سطح تک منتقل کیوں نہیں کرتی؟

واضح رہے کہ عمران خان کی تحریک انصاف بلدیاتی انتخابات اور اختیارات کی نچلی سطح پر منتقلی کے حوالے سے بہت بلند و بانگ دعوے کرتی رہی ہے لیکن ناقدین کا خیال ہے کہ اس نے بھی پیپلز پارٹی اور نون لیگ کی طرح اختیارات کو نچلی سطح پر منتقل نہیں کیا اور نہ ہی گزشتہ تین برسوں میں بلدیاتی انتخابات کرائے۔

 پی ٹی آئی کے مخالفین کا کہنا ہے کہ انتخابات تو دور کی بات، جو ملک میں پہلے سے بلدیاتی حکومتیں چل رہی تھیں، پی ٹی آئی نے پنجاب میں ان کو بھی ختم کر دیا اور سپریم کورٹ کے حکم کے باوجود ان کو ابھی تک حقیقی معنوں میں بحال نہیں کیا گیا ہے۔

بدھ کے روز ہونے والی اس سماعت کا پس منظر یہ ہے کہ پنجاب کے مختلف اضلاع کے پندرہ چیئرمین اور ناظمین نے حکومت کے خلاف توہین عدالت کی درخواست دائر کی تھی۔

بلدیاتی انتخابات آمروں نے کرائے

بلدیاتی نظام کو جمہوریت کی نرسری قرار دیا جاتا ہے۔ ہمارے زیادہ تر حکمراں مغربی جمہوری ممالک میں تعلیم حاصل کرتے ہیں لیکن ناقدین کے مطابق پھر بھی وہ وہاں کی جمہوری اقدار کو ملک میں نہیں لاتے، جس کا ایک جز بلدیاتی نظام ہے۔

کراچی سے تعلق رکھنے والے تجزیہ نگار ڈاکٹر توصیف احمد خان کا کہنا ہے کہ یہ افسوسناک بات ہے کہ جمہوری حکومت کبھی بھی بلدیاتی الیکشن کرانے کی کوشش نہیں کرتی اور نہ اختیارات کو نچلی سطح پر منتقل کرتی ہے۔

تصویر: AFP/Getty Images/A. Majeed

 انہوں نے بلدیاتی انتخابات کا تاریخی پس منظر بیان کرتے ہوئے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ''پاکستان میں بلدیاتی انتخابات زیادہ تر آمروں کے دور میں ہوئے۔ پہلے انتخابات ایوب خان نے کرائے، جس میں بنیادی جمہوریتوں کا نام دیا گیا۔ اس کے بعد ذوالفقار علی بھٹو کی منتخب حکومت کے دوران انتخابات نہیں ہوئے اور جنرل ضیاء نے بلدیاتی انتخابات کرائے۔ جنرل مشرف کے دور میں بلدیاتی انتخابات ہوئے اور اس دور میں اختیارات کو نچلی سطح تک منتقل بھی کیا گیا۔ گو کہ اس میں بہت سارے نقائص تھے لیکن مجموعی طور پر بلدیاتی ادارے بظاہر خودمختار نظر آئے۔‘‘

ان کا مزید کہنا تھا کہ انیس سو اٹھاسی میں بے نظیر بھٹو نے کوئنٹی سسٹم لانے کا کہا تھا لیکن انہوں نے بھی اپنے دونوں ادوار میں مقامی حکومتوں کے انتخابات نہیں کرائے۔ اب پیپلز پارٹی نے بلدیاتی انتخابات کرائے لیکن اداروں کے پاس اختیارات بہت کم ہے اور اب پاکستان تحریک انصاف بھی بلدیاتی انتخابات سے کترا رہی ہے۔

طاقت سے چپکے رہنے کی روش

پاکستان میں کئی سیاسی خاندانوں کے پاس کئی دہائیوں سے سیاسی طاقت ہے اور کئی ناقدین کے خیال میں اس طاقت کو بلدیاتی انتخابات سے ضرب لگ سکتی ہے۔ یہ عناصر قومی دھارے کی جماعتوں میں بااثر ہیں، اسی لئے وہ مقامی حکومتیں بااختیار نہیں بننے دیتے۔

 پاکستان میں انتخابات اور بلدیاتی اداروں کے حوالے سے ریسرچ کرنے والے ادارے پلڈاٹ کے سربراہ احمد بلال محبوب کا کہنا ہے کہ سیاسی جماعتوں میں جو لوگ بیٹھے ہیں، وہ اپنی طاقت کو برقرار رکھنا چاہتے ہیں اس لیے وہ اختیارات کو نچلی سطح پر منتقل نہیں کرتے۔

 انہوں نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ''کیونکہ مقامی حکومتوں کا موضوع اب صوبائی حکومتوں کے ماتحت ہے۔ صوبائی حکومت اس طرح کے قوانین نہیں بناتی، جس کے تحت مالی یا انتظامی اختیارات مقامی سطح پر منتقل کرنے ہوں۔ وہ کمزور قوانین بناتے ہیں اور اس بات کا خیال رکھتے ہیں کہ بلدیاتی اداروں کو وسائل اور مالی اختیارات نہ ملیں تاکہ ممبر صوبائی اسمبلی اور وزراء کی طاقت کم نہ ہو سکے۔‘‘

جنرل مشرف کے دور کا بلدیاتی نظام

پاکستان میں جتنے بھی بلدیاتی نظام متعارف کرائے گئے، اس میں جنرل مشرف کے نظام نے مقامی بلدیاتی اداروں کو بہت زیادہ خود مختاری دی۔ اختیارات کی نچلی سطح تک منتقلی کے اس منصوبے کو اگست دو ہزار میں منظر عام پر لایا گیا، جس کے تحت مقامی حکومتوں کے لئے انتخابات غیر جماعتی بنیادوں پر ہونے تھے اور ضلعی ناظم ضلعی انتظامیہ کا مجموعی طور پر سربراہ اور ترقیاتی امور کا نگراں تھا۔

 اس منصوبے نے اس صدیوں پرانے نظام کو ختم کیا، جس کے تحت عوامی نمائندے افسر شاہی کے ماتحت ہوتے تھے۔ اس منصوبے کے تحت ایک سو ایک سے زائد ڈسٹرکٹ اور چار بڑے شہروں میں مقامی حکومتوں کا نظام قائم ہوا، جس کے تحت ہر شہر میں ایک ناظم اور ایک نائب ناظم ہوتا تھا۔

 گو کہ پاکستان پیپلز پارٹی، پاکستان مسلم لیگ نون اور دوسری بڑی سیاسی جماعتوں نے مشرف کے اس دور کے بلدیاتی نظام کی بھرپور مخالفت کی اور ناظمین کو مشرف کے دور میں ہونے والے صدارتی ریفرنڈم میں مشرف کا پولنگ ایجنٹ قرار دیا لیکن جنرل پرویز مشرف کے دور میں ناظمین منتخب ہونے والے آج بھی اس نظام کے معترف ہیں۔

کراچی کے علاقے لانڈھی ٹاؤن کے ناظم آصف حسنین نے اس دور کے اختیارات کے حوالے سے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ''جنرل مشرف کے بلدیاتی نظام میں نہ صرف کراچی کے ناظم اور نائب ناظمین کو اختیارات دیے گئے بلکہ ملک کے کئی بڑے شہروں میں اور تحصیلوں میں بھی اس طرح کے اختیارات تفویض کیے گئے۔ کراچی میں کراچی ڈویلپمنٹ اتھارٹی، کراچی بلڈنگ کنٹرول اتھارٹی سمیت کئی اہم اداروں کو ناظم کے ماتحت کیا گیا جبکہ سٹی ناظم ماسٹر پلان کا بھی سربراہ تھا۔ سٹی کونسل قانون سازی کے ذریعے مختلف ٹیکسز نافذ کر سکتی تھی جبکہ سٹی ناظم ایک سے سولہ گریڈ تک کے ملازمین کی تقرری بھی کر سکتا تھا۔ بالکل اسی طرح کراچی کے مختلف بڑے اداروں کے دفاتر کو ٹاؤن کی سطح پر کھولا گیا اور مقامی حکومت کے منتخب نمائندے اس کی نگرانی کرتے تھے۔‘‘

آصف حسنین کا کہنا تھا کہ بدقسمتی سے جب پیپلز پارٹی اقتدار میں آئی تو اس کے کچھ ہی عرصے میں ان تمام اختیارات کو ختم کر دیا گیا اور یہاں تک کہ اب کچرا اٹھانے کا ٹھیکہ بھی سندھ حکومت نے اپنے ذمے لے لیا ہے، ''اس کے علاوہ کراچی بلڈنگ کنٹرول اتھارٹی جو خالصتاً کراچی کے لیے تھی، اس کا نام تبدیل کر کے اس کو بھی اپنے قبضے میں لے لیا ہے۔ اسی طرح پنجاب میں شہباز شریف صاحب نے سارے اختیارات اپنے پاس رکھے اور نو کروڑ سے زائد آبادی کے صوبے کو ڈپٹی کمشنر اور کمشنرز کے ذریعے چلانے کی کوشش کی، جو انتہائی افسوس ناک ہے۔‘‘

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ سیکشن پر جائیں

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ

ڈی ڈبلیو کی مزید رپورٹیں سیکشن پر جائیں