‘سیاسی حل کے بغیر افغانستان سرد جنگ کی لپیٹ میں آ سکتا ہے‘
21 فروری 2021
ایسوسی ایٹڈ پریس کے مطابق کئی ارب ڈالر خرچ کرنے اور تقریباﹰبیس سال تک کی فوجی موجودگی کے باوجود امریکا اور نیٹو کے پاس آج بھی افغانستان کے ایک پائیدار اور پر امن مستقبل کے لیے کوئی حل نظر نہیں آتا۔
اشتہار
خبر رساں ادارے ایسوسی ایٹڈ پریس کی ایک رپورٹ کے مطابق دونوں طاقتیں یہ فیصلہ نہیں کر پارہیں کہ اس جنگ ذدہ ملک سے اپنے اپنے فوجیوں کو کیسے باہر نکالیں۔ امریکا کی سابقہ انتظامیہ کی جانب سے گزشتہ کچھ ماہ کے دوران تیزی سے امریکی فوجیوں کے انخلاء نے عیاں کر دیا ہے کہ افغانوں کی مشکلات حل ہونے والی نہیں۔
اے پی نے اپنی اس تحریر میں لکھا ہے کہ تشدد میں اضافہ ہو گیا ہے اور قصور وار سب ہی دکھائی دے رہے ہیں چاہے وہ طالبان ہوں، جنگی سردار، داعش یا بدعنوان سرکاری اہلکار۔ امریکا کے نو منتخب صدر جو بائیڈن ٹرمپ کی اس پالیسی پر نظر ثانی کر رہے ہیں جس کے تحت اس سال یکم مئی تک تمام امریکی فوجی افغانستان سے نکل جائیں گے۔ امریکا کے 2500 اور نیٹو کے دس ہزار فوجی اب بھی افغانستان میں تعینات ہیں۔ واشنگٹن میں وہ آوازیں زور پکڑ رہی ہیں جو افغانستان سے جلد انخلاء کے خلاف ہیں۔
افغانستان میں تمام اہم کھلاڑی جنگ کی تباہ کاریوں میں کسی نہ کسی طرح شامل ہیں۔
طالبان
طالبان ملک کے قریب نصف حصے کا کنٹرول سنبھالے ہوئے ہیں۔ امن مذاکرات کے باوجود افغان طالبان اور افغان فوجی جنگی کاروائیاں جاری رکھے ہوئے ہیں۔ طالبان کو حالیہ دنوں میں صحافیوں اور سول سوسائٹی کے رہنماؤں کے قتل کا ذمہ دار ٹھہرایا گیا ہے۔ وہ ان الزامات کو مسترد کرتے ہیں۔
اس بات کا بھی کوئی ثبوت نہیں ہے کہ وہ القاعدہ سے تعلقات ختم کر چکے ہیں جیسا کہ طالبان امریکا مذاکرات میں طے کیا گیا تھا۔ جنوری میں جاری ہونے والی ایک امریکی خفیہ رپورٹ کے مطابق طالبان اب بھی القاعدہ کی مدد کرتے ہیں اوریہ دہشت گرد تنظیم خطے میں مزید مضبوط ہو رہی ہے۔
اشتہار
افغان جنگی سردار
سماجی کارکنوں کو فکر ہے کہ بین الاقوامی فوجیوں کے انخلاء کے بعد اسلحے سے لیس افغان جنگی سردار ایک مرتبہ پھر لڑائی کا راستہ اپنا لے لیں گے۔ سن 1992-1996 کے عرصے کے دوران جنگی سرداروں نے ایک دوسرے کے خلاف لڑائی میں پچاس ہزار افراد کو ہلاک کر دیا تھا۔ ان رہنماؤں نے دارالحکومت کابل کو بھی بری طرح تباہ کر دیا تھا۔
افغان فوجی
افغان فورسز کو بھی کڑی تنقید کا سامنا ہے۔ اقوام متحدہ کی ایک رپورٹ کے مطابق افغان حراستی مراکز میں قریب ایک تہائی قیدیوں کو افغان فوجیوں کی جانب سے تشدد کا نشانہ بنایا گیا۔ افغان فورسز میں مالی بدعنوانیوں بھی عام ہیں اور کابل حکومت ان کے خلاف کوئی اقدامات نہیں کرتی ۔
داعش اور اس کے اتحادی
داعش کا علاقائی اتحادی گروہ خاص طور پر خطے میں شیعہ مسلمانوں کو نشانہ بناتا ہے۔ ان کے حملوں کی تعداد اور شدت میں اضافہ ہوا ہے۔ اس گروہ کی سرگرمیوں نے افغانستان میں سکیورٹی کے نظام پر سوالیہ نشان لگادہے ہیں۔ افغان فورسز اس گروہ کے خلاف لڑنے میں ناکام نظر آ رہی ہیں۔
تجزیہ کار اس بات پر متفق ہیں کہ افغان مسئلے کا بظاہر کوئی آسان حل نہیں ہے چاہے غیر ملکی فوج رہیں یا ملک سے نکل جائیں۔ افغان تجزیہ کار طارق فرحدی کے مطابق،''امریکا اور نیٹو پر یہ بات واضح ہونی چاہیے کہ انہیں مزید جنگ نہیں چاہیے انہیں افغانستان میں ایک پر امن سیاسی حل چاہیے اور وہ رہنما جو جنگ کا راستہ اپنانا چاہتے ہیں وہ بین الاقوامی برادری کے پارٹنر نہیں ہیں۔‘‘ فرحدی کا مزید کہنا ہے کہ ایک سیاسی حل کے بغیر افغانستان سرد جنگ کی لپیٹ میں آ سکتا ہے۔
ب ج، ع ا (اے پی )
افغانستان کے بڑے جنگی سردار
کئی سابق جنگی سردار اب ملکی سیاست میں بھی فعال ہیں یا ہو رہے ہیں۔ ایک نظر ڈالتے ہیں ایسے ہی کچھ اہم افغان جنگی سرداروں پر، جن میں سے چند اب اس دنیا میں نہیں رہے اور کچھ تاحال ملک میں اپنا اثر و رسوخ برقرار رکھے ہوئے ہیں۔
ملا داد اللہ
انیس سو اسی کی دہائی میں سوویت فورسز کے خلاف لڑائی میں ملا داد اللہ کی ایک ٹانگ ضائع ہو گئی تھی۔ مجاہدین کے اس کمانڈر کو طالبان کی حکومت میں وزیر تعمیرات مقرر کیا گیا تھا۔ خیال کیا جاتا ہے کہ وہ ملا محمد عمر کا قریبی ساتھی تھا۔ داد اللہ سن دو ہزار سات میں امریکی اور برطانوی فورسز کی ایک کارروائی میں مارا گیا تھا۔
تصویر: AP
عبدالرشید دوستم
افغانستان کے نائب صدر عبدالرشید دوستم افغان جنگ کے دوران ایک ازبک ملیشیا کے کمانڈر تھے، جنہوں نے اسی کی دہائی میں نہ صرف مجاہدین کے خلاف لڑائی میں حصہ لیا اور نوے کے عشرے میں طالبان کے خلاف لڑائی میں بھی بلکہ انہیں طالبان قیدیوں کے قتل عام کا ذمہ دار بھی قرار دیا جاتا ہے۔ سن دو ہزار تین میں انہوں نے خانہ جنگی کے دوران کی گئی اپنی کارروائیوں پر معافی بھی مانگ لی تھی۔
تصویر: picture-alliance/AA/M. Kaynak
محمد قسيم فہیم
مارشل فہیم کے نام سے مشہور اس جنگی سردار نے احمد شاہ مسعود کے نائب کے طور پر بھی خدمات سر انجام دیں۔ سن 2001 میں مسعود کی ہلاکت کے بعد انہوں نے شمالی اتحاد کی کمان سنبھال لی اور طالبان کے خلاف لڑائی جاری رکھی۔ وہ اپنے جنگجوؤں کی مدد سے کابل فتح کرنے میں کامیاب ہوئے اور بعد ازاں وزیر دفاع بھی بنائے گئے۔ وہ دو مرتبہ افغانستان کے نائب صدر بھی منتخب کیے گئے۔ ان کا انتقال سن دو ہزار چودہ میں ہوا۔
تصویر: picture-alliance/AP Photo
گلبدین حکمت یار
افغان جنگ کے دوران مجاہدین کے اس رہنما کو امریکا، سعودی عرب اور پاکستان کی طرف سے مالی معاونت فراہم کی گئی تھی۔ تاہم اپنے حریف گروپوں کے خلاف پرتشدد کارروائیوں کے باعث حکمت یار متنازعہ ہو گئے۔ تب انہوں نے اپنی پوزیشن مستحکم کرنے کی خاطر یہ کارروائیاں سر انجام دی تھیں۔ حزب اسلامی کے رہنما گلبدین حکمت یار کو امریکا نے دہشت گرد بھی قرار دیا تھا۔ اب وہ ایک مرتبہ پھر افغان سیاست میں قدم رکھ چکے ہیں۔
تصویر: picture-alliance/AP Photo/K. Jebreili
محمد اسماعیل خان
محمد اسماعیل خان اب افغان سیاست میں اہم مقام رکھتے ہیں۔ انہوں نے صوبے ہرات پر قبضے کی خاطر تیرہ برس تک جدوجہد کی۔ بعد ازاں وہ اس صوبے کے گورنر بھی بنے۔ تاہم سن 1995 میں جب ملا عمر نے ہرات پر حملہ کیا تو اسماعیل کو فرار ہونا پڑا۔ تب وہ شمالی اتحاد سے جا ملے۔ سیاسی پارٹی جماعت اسلامی کے اہم رکن اسماعیل خان موجودہ حکومت میں وزیر برائے پانی اور توانائی کے طور پر فرائض سر انجام دے رہے ہیں۔
تصویر: AP
محمد محقق
محمد محقق نے بھی اسّی کی دہائی میں مجاہدین کے ساتھ مل کر سوویت فورسز کے خلاف لڑائی میں حصہ لیا۔ سن 1989 میں افغانستان سے غیر ملکی فوجیوں کے انخلا کے بعد انہیں شمالی افغانستان میں حزب اسلامی وحدت پارٹی کا سربراہ مقرر کر دیا گیا۔ ہزارہ نسل سے تعلق رکھنے والے محقق اس وقت بھی ملکی پارلیمان کے رکن ہیں۔ وہ ماضی میں ملک کے نائب صدر بھی منتخب کیے گئے تھے۔
تصویر: DW
احمد شاہ مسعود
شیر پنجشیر کے نام سے مشہور احمد شاہ مسعود افغان جنگ میں انتہائی اہم رہنما تصور کیے جاتے تھے۔ انہوں نے طالبان کی پیشقدمی کو روکنے کی خاطر شمالی اتحاد نامی گروہ قائم کیا تھا۔ انہیں سن انیس سو بانوے میں افغانستان کا وزیر دفاع بنایا گیا تھا۔ انہیں نائن الیون کے حملوں سے دو دن قبل ہلاک کر دیا گیا تھا۔ تاجک نسل سے تعلق رکھنے والے مسعود کو ایک اہم افغان سیاسی رہنما سمجھا جاتا تھا۔
تصویر: AP
ملا محمد عمر
افغان جنگ میں مجاہدین کے شانہ بشانہ لڑنے والے ملا عمر طالبان کے روحانی رہنما تصور کیا جاتے تھے۔ وہ سن 1996تا 2001 افغانستان کے غیر اعلانیہ سربراہ مملکت رہے۔ تب انہوں کئی اہم افغان جنگی سرداروں کو شکست سے دوچار کرتے ہوئے ’اسلامی امارات افغانستان‘ کی بنیاد رکھی تھی۔ سن دو ہزار ایک میں امریکی اتحادی فورسز کے حملے کے بعد ملا عمر روپوش ہو گئے۔ 2015 میں عام کیا گیا کہ وہ 2013 میں ہی انتقال کر گئے تھے۔
تصویر: picture-alliance/dpa
گل آغا شیرزئی
مجاہدین سے تعلق رکھنے والے سابق جنگی سردار شیرزئی نے نجیب اللہ کی حکومت کا تختہ الٹنے میں اہم کردار ادا کیا تھا۔ وہ دو مرتبہ قندھار جبکہ ایک مرتبہ ننگرہار صوبے کے گورنر کے عہدے پر فائز رہے۔ طالبان نے جب سن انیس سو چورانوے میں قندھار پر قبضہ کیا تو وہ روپوش ہو گئے۔ سن دو ہزار ایک میں انہوں نے امریکی اتحادی فورسز کے تعاون سے اس صوبے پر دوبارہ قبضہ کر لیا۔
تصویر: picture-alliance/dpa
عبدالرب رسول سیاف
سیاف ایک مذہبی رہنما تھے، جنہوں نے افغان جنگ میں مجاہدین کا ساتھ دیا۔ اس لڑائی میں وہ اسامہ بن لادن کے قریبی ساتھیوں میں شامل ہو گئے تھے۔ کہا جاتا ہے کہ سیاف نے پہلی مرتبہ بن لادن کو افغانستان آنے کی دعوت دی تھی۔ افغان جنگ کے بعد بھی سیاف نے اپنے عسکری تربیتی کیمپ قائم رکھے۔ انہی کے نام سے فلپائن میں ’ابو سیاف‘ نامی گروہ فعال ہے۔ افغان صدر حامد کرزئی نے انہیں اپنی حکومت میں شامل کر لیا تھا۔