سیاسی عدم استحکام کے خدشات کے پاکستانی معیشت پر منفی اثرات
6 جولائی 2017کراچی یونیورسٹی کے اپلائیڈ اکنامکس ریسرچ سینٹر کے تحقیقی ماہر مرزا فیضان احمد کے مطابق اس ہیجانی کیفیت کے سب سے بڑے اسباب ملک میں پائی جانے والی سیاسی بے یقینی کی سوچ اور عدم استحکام کا خوف ہیں۔ ڈوئچے ویلے سے بات چیت کرتے ہوئے مرزا فیضان احمد نے کہا، ’’معیشت کی بہتری کے لیے سیاسی عدم استحکام بہت ضروری ہے۔ پاناما کیس میں جے آئی ٹی کی وجہ سے ملک میں سیاسی عدم ستحکام کی افواہیں زورں پر ہیں۔ ایسی صورت میں سرمایہ کار پرخطر سرمایہ کاری نہیں کرنا چاہتے۔ اس کا مظاہرہ آپ اسٹاک ایکسچینج میں بھی دیکھ سکتے ہیں، جس کے انڈکس میں بیس ہزار پوائنٹس کی کمی ہوئی ہے۔ ٹوٹل مارکیٹ کیپیٹلائزیشن میں تین سو ارب روپے سے زیادہ کی کمی ہوئی ہے۔ میرے خیال میں یہ سب کچھ پاناما کیس اور سیاسی عدم استحکام کی خبروں کی وجہ سے ہوا ہے،‘‘
’’بیٹی کے نام پر باپ پر دباؤ ڈالا گیا‘‘
پائی پائی کا حساب دے دیا، نواز شریف
نواز شریف پندرہ جون کو جے آئی ٹی کے سامنے پیش ہوں گے
دوسری طرف معروف ماہر اقتصادیات ڈاکٹر اشفاق احمد کے خیال میں پاکستانی روپے کی قدر میں جو اچانک کمی آئی ہے، وہ مصنوعی تھی۔ اس بارے میں انہوں نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ’’اگر آپ ملکی وزیر خزانہ اسحاق ڈار اور اسٹیٹ بینک کے گورنر کی سوچ سے واقف ہیں، تو آپ کو علم ہو گا کہ اسحاق ڈار کرنسی کی قدر میں کمی کے سخت مخالف ہیں۔ ان کا بس چلے تو وہ ڈالر کے مقابلے میں روپے کی قیمت ستر روپے تک لے آئیں۔ میرے خیال میں یہ سب کچھ سپریم کورٹ اور جے آئی ٹی کو ڈرانے کے لیے کیا گیا ہے۔ پہلے مسلم لیگ نون کے نہال ہاشمی نے دھمکیاں دیں۔ پھر وزراء نے دباؤ ڈالنے کی کوشش کی اور اس کے بعد مریم نواز نے بھی تنبیہ کی۔ اس طرح کی حرکتیں کر کے یہ بتایا جا رہا ہے کہ اگر ہمارے خلاف کارروائی ہوئی، تو ملکی معیشت پر بہت منفی اثرات پڑیں گے۔‘‘
ایک سوال کے جواب میں ڈاکٹر اشفاق احمد نے کہا، ’’احسن اقبال نے بھی یہ بات کی ہے کہ پاناما انکوائری کی وجہ سے ملکی معیشت کو بارہ بلین ڈالر کانقصان ہوا ہے۔ اس طرح کے بیانات یہ ظاہر کرتے ہیں کہ حکمران یہ جتانا چاہتے ہیں کہ دیکھو، پاناما کیس کی وجہ سے ملکی معیشت کو کتنا نقصان ہو رہا ہے؟ لیکن میرے خیال میں جے آئی ٹی یا سپریم کورٹ اس طرح کے بیانات سے یا روپے کی قدر میں کمی کی وجہ سے دباؤ میں نہیں آئیں گے۔‘‘
کیا جے آئی ٹی متنازعہ بنتی جارہی ہے؟
پاکستان کے سیاسی درجہء حرارت میں مسلسل اضافہ
وزیراعظم نواز شریف کرپشن کیس، شفاف کردار ادا کریں گے، فوج
مالیاتی امور کے ایک اور ماہر ضیا عباس رضوی کے خیال میں روپے کی قدر گرنے کا پاناما کیس سے بھی تعلق ہے لیکن اس کے اقتصادی اسباب بھی ہیں۔ ڈی ڈبلیو سے گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے کہا، ’’پاکستان کی کرنسی خطے کے دوسرے ممالک کے مقابلے میں overvalued ہے اور آئی ایم ایف نے پچھلے برس پاکستان کو یہ مشورہ بھی دیا تھا کہ وہ روپے کی قدر میں کمی کرے۔ اب یہ جو اچانک کمی ہوئی ہے، اس سے درآمد کنندگان کو نقصان ہوا ہے۔ لیکن ہمیں یہ نہیں بھولنا چاہیے کہ روپے کی قدر میں جب بھی کمی ہوتی ہے، اس سے برآمد کنندگان کو فائدہ بھی ہوتا ہے۔ اس لیے اگر پاکستان کو اپنی برآمدات بہتر بنانی ہیں، تو اسے ملکی کرنسی کو ڈی ویلیو کرنا پڑے گا۔‘‘
ایک سوال کے جواب میں ضیا عباس رضوی نے کہا، ’’یہ تصور غلط ہے کہ قدر میں کمی سے صرف نقصان ہی ہوتا ہے۔ اگر آپ امپورٹ کرتے ہیں اور قرض لیتے ہیں تو آپ کو نقصان ہوتا ہے۔ لیکن اگر آپ کی معیشت کا انحصار برآمدات پر ہے، تو اس سے آپ کو فائدہ ہی ہوتا ہے۔ چین نے اپنی کرنسی ڈی ویلیو کر کے اپنی برآمدات کو بڑھایا ہے۔ ہم بھی ایسا ہی کر سکتے ہیں۔ میرے خیال میں حکومت کو مستقبل میں روپے کی قدر میں کمی کرنا ہی پڑے گی۔‘‘