سیاسی پناہ حاصل کرنے کا یونانی نظام ظالمانہ ہے، آکسفیم
3 جولائی 2020بین الاقوامی غیر حکومتی تنظیم آکسفیم نے اپنے ایک بیان میں یونان میں نافذ کردہ سیاسی پناہ حاصل کرنے کے نئے قوانین کی شدید مذمت کرتے ہوئے کہا ہے کہ یہ یورپ کے انسان دوست مزاج پر کھلا حملہ ہے۔ بیان کے مطابق ان قوانین سے پناہ کے متلاشی افراد کو استحصال اور جبر کا سامنا کرنا پڑے گا اور یہ انسانی ہمدردی کے منافی ضوابط ہیں۔
آکسفیم نے مزید وضاحت کرتے ہوئے بیان کیا کہ نئے یونانی قوانین حقیقت میں سیاسی پناہ کے متلاشی افراد کو صاف اور واضح انداز میں ڈی پورٹ کرنے کے مساوی ہیں اور ان کا پریشان حال انسانوں کی سلامتی اور تحفظ سے بظاہر کوئی تعلق دکھائی نہیں دیتا۔
آکسفیم نے یہ بیان گرین کونسل برائے ریفیوجی کے تعاون سے جاری کیا ہے۔ اس مشترکہ بیان میں واضح کیا گیا کہ یونانی سیاسی پناہ کا نظام لوگوں کے بنیادی حقوق کا انکاری ہے اور طریقہٴ کار بھی صاف و شفاف نہیں ہے۔ نئے قوانین کا نفاذ رواں برس یکم جنوری سے ہو چکا ہے۔
یونان کے قدامت پسند وزیر اعظم کیریاکوس مِٹسوٹاکیس نے تقریباً ایک سال قبل حکومت سنبھالتے ہوئے اس عزم کا اظہار کیا تھا کہ ملک میں موجود مہاجرین کی تعداد کو کم کرنے کے ساتھ ساتھ نئے آنے والے مہاجرین کی آمد کو بھی کنٹرول کیا جائے گا۔ یہ ایک حقیقت ہے کہ یورپ پہنچنے کی خواہش رکھنے والے مہاجرین کے لیے ان کی ممکنہ منزل کا دروازہ یونان پہنچنا ہوتا ہے۔ اس یورپی ملک میں جنگ زدہ ملکوں افغانستان اور شام کے ہزاروں تارکین وطن پہنچے ہوئے ہیں۔
آکسفیم اور گرین کونسل برائے ریفیوجی کا کہنا ہے کہ یکم جنوری سن 2020 سے نافذ شدہ قوانین میں دو ماہ قبل مزید ترامیم کی گئی تھیں۔ ان غیر حکومتی اداروں کا کہنا ہے کہ کورونا وائرس کی وبا نے مہاجر کیمپوں میں رہنے والے تارکین وطن کی زندگیوں کو مشکل سے مشکل تر اور ان کے حالات کو شدید پیچیدگیوں سے بھر دیا ہے۔ یونانی کیمپوں میں مہاجرین مخدوش حالات میں زندگی گزار رہے ہیں اور ان کیمپوں میں کووڈ انیس کی وبا پھوٹنے کا خطرہ کئی گنا بڑھ چکا ہے۔ یہ بھی واضح کیا گیا کہ وبا پھوٹنے کی صورت میں کئی مہاجرین کی جانیں ضائع ہو سکتی ہیں۔
آکسفیم اور گرین کونسل برائے ریفیوجی نے اپنے بیان میں کہا کہ یونانی قوانین کو یورپی یونین کی دیگر ریاستیں بھی استعمال کرنے کی کوشش کریں گی۔ بیان کے مطابق یونانی قوانین کا مقصد حقیقت میں مہاجرین کے ڈی پورٹ کرنے کے عمل کو تیز تر کرنا اور ان ترامیم کے ذریعے یونانی حکام کو آسانی سے سیاسی پناہ کی درخواستوں کو مسترد کر سکتے ہیں۔ انہی ضوابط کی متعارف کرانے کے بعد بارڈر سکیورٹی کے محکمے میں سینکڑوں پولیس اہکاروں کو بھرتی کرتے ہوئے ترک سرحد پر خاردار باڑ لگانے کا سلسلہ بھی شروع کر دیا گیا ہے۔
آکسفیم سے وابستہ ایولین فان روئم بیرگ کا کہنا ہے کہ ایسا دکھائی دیتا ہے کہ جلد ہی یورپی یونین بھی یونانی قوانین کو اپنا سکتی ہے کیونکہ یونین بھی سیاسی پناہ کے ضابطوں میں ترامیم کرنے والی ہے۔ روئم بیرگ کا یہ بھی کہنا ہے کہ یونان میں مہاجرین کے کیمپس اصل میں 'انتظامی حراستی مراکز‘ کا روپ دھار چکے ہیں۔
ع ح، ع ا (ڈی پی اے، اے ایف پی)