سیاسی پناہ سے متعلق جرمن قوانین، ترامیم کی پارلیمانی منظوری
18 جنوری 2019
جرمنی سے سیاسی پناہ کے مسترد درخواست گزاروں کی ملک بدری تیز کرنے کے لیے ملکی پارلیمان کے ایوان زیریں نے ایک قانونی بل منظور کر لیا ہے۔ اس بل میں الجزائر، تیونس، مراکش اور جارجیا کو ’محفوظ‘ ممالک قرار دے دیا گیا ہے۔
اشتہار
سیاسی پناہ سے متعلق قوانین میں ترامیم کا یہ بل وفاقی جرمن پارلیمان کے ایوان زیریں بنڈس ٹاگ نے منظور کیا۔ اس بل کو کثیرالجماعتی وفاقی مخلوط حکومت میں شامل جماعتوں سی ڈی یو، سی ایس یو اور ایس پی ڈی کی حمایت حاصل تھی۔ تاہم عوامیت پسند سیاسی جماعت اے ایف ڈی اور ایف ڈی پی کے ارکان نے بھی اس بل کی حمایت میں ووٹ دیا۔ صرف بائیں بازو کی جماعت دی لنکے اور ماحول پسندوں کی گرین پارٹی نے اس قانونی بل کی مخالفت کی۔
نئے ضوابط کے تحت الجزائر، مراکش، تیونس اور جارجیا کو محفوظ ممالک قرار دے دیا گیا ہے۔ اس فیصلے کے بعد ان ممالک سے تعلق رکھنے والے پناہ کے متلاشی افراد کے لیے جرمنی میں سیاسی پناہ کا حصول مزید دشوار ہو جائے گا۔ علاوہ ازیں ان ممالک کے شہریوں کی جرمنی سے ملک بدری بھی آسان ہو جائے گی۔
رائے شماری سے قبل سیاسی پناہ کے ملکی قوانین میں ترامیم کا یہ بل پارلیمان میں متعارف کراتے ہوئے وفاقی وزیر داخلہ ہورسٹ زیہوفر کا کہنا تھا کہ یہ مجوزہ ترامیم ایک ایسی صورت حال کا اعتراف ہے، جو پہلے ہی سے ایک حقیقت ہے۔
ہورسٹ زیہوفر کے مطابق ان چاروں ممالک سے تعلق رکھنے والے پناہ گزینوں کی جرمنی میں سیاسی پناہ کی درخواستیں منظور کیے جانے کی شرح نہایت کم ہے۔ مثال کے طور پر مراکش سے تعلق رکھنے والے درخواست گزاروں کی صرف 2.3 فیصد جب کہ جارجیا سے تعلق رکھنے والے پناہ کے متلاشی افراد کی محض 0.3 فیصد درخواستیں منظور ہوئی تھیں۔
جرمنی: جرائم کے مرتکب زیادہ تارکین وطن کا تعلق کن ممالک سے؟
جرمنی میں جرائم سے متعلق تحقیقات کے وفاقی ادارے نے ملک میں جرائم کے مرتکب مہاجرین اور پناہ کے متلاشیوں کے بارے میں اعداد و شمار جاری کیے ہیں۔ اس گیلری میں دیکھیے ایسے مہاجرین کی اکثریت کا تعلق کن ممالک سے تھا۔
تصویر: Getty Images/AFP/A. Messinis
1۔ شامی مہاجرین
جرمنی میں مقیم مہاجرین کی اکثریت کا تعلق شام سے ہے جو کل تارکین وطن کا قریب پینتیس فیصد بنتے ہیں۔ تاہم کُل جرائم میں شامی مہاجرین کا حصہ بیس فیصد ہے۔ سن 2017 میں تینتیس ہزار سے زائد شامی مہاجرین مختلف جرائم کے مرتکب پائے گئے۔
تصویر: Getty Images/S. Gallup
2۔ افغان مہاجرین
گزشتہ برس اٹھارہ ہزار چھ سو سے زائد افغان مہاجرین جرمنی میں مختلف جرائم میں ملوث پائے گئے اور مہاجرین کے مجموعی جرائم ميں افغانوں کا حصہ گیارہ فیصد سے زائد رہا۔
تصویر: DW/R.Shirmohammadil
3۔ عراقی مہاجرین
عراق سے تعلق رکھنے والے مہاجرین جرمنی میں مہاجرین کی مجموعی تعداد کا 7.7 فیصد بنتے ہیں لیکن مہاجرین کے جرائم میں ان کا حصہ 11.8 فیصد رہا۔ گزشتہ برس تیرہ ہزار کے قریب عراقی مہاجرین جرمنی میں مختلف جرائم کے مرتکب پائے گئے۔
تصویر: Getty Images/AFP/A. Messinis
4۔ مراکشی تارکین وطن
مراکش سے تعلق رکھنے والے پناہ کے متلاشی افراد مجموعی تعداد کا صرف ایک فیصد بنتے ہیں لیکن جرائم میں ان کا حصہ چار فیصد کے لگ بھگ رہا۔ بی کے اے کے مطابق ایسے مراکشی پناہ گزینوں میں سے اکثر ایک سے زائد مرتبہ مختلف جرائم میں ملوث رہے۔
تصویر: Box Out
5۔ الجزائر سے تعلق رکھنے والے پناہ گزین
مراکش کے پڑوسی ملک الجزائر سے تعلق رکھنے والے پناہ گزینوں میں بھی جرائم کی شرح کافی نمایاں رہی۔ گزشتہ برس چھ ہزار سے زائد مراکشی مختلف نوعیت کے جرائم میں ملوث پائے گئے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/D. Bockwoldt
6۔ ایرانی تارکین وطن
جرمنی میں جرائم کا ارتکاب کرنے میں ایرانی تارکین وطن چھٹے نمبر پر رہے۔ گزشتہ برس قریب چھ ہزار ایرانیوں کو مختلف جرائم میں ملوث پایا گیا جو ایسے مجموعی جرائم کا ساڑھے تین فیصد بنتا ہے۔
تصویر: DW/S. Kljajic
7۔ البانیا کے پناہ گزین
مشرقی یورپ کے ملک البانیا سے تعلق رکھنے والے پناہ کے متلاشی افراد بھی جرمنی میں جرائم کے ارتکاب میں ساتویں نمبر پر رہے۔ گزشتہ برس البانیا کے ستاون سو باشندے جرمنی میں مختلف جرائم کے مرتکب پائے گئے جب کہ اس سے گزشتہ برس سن 2016 میں یہ تعداد دس ہزار کے قریب تھی۔
تصویر: Getty Images/T. Lohnes
8۔ سربین مہاجرین
آٹھویں نمبر پر بھی مشرقی یورپ ہی کے ملک سربیا سے تعلق رکھنے والے مہاجرین رہے۔ گزشتہ برس 5158 سربین شہری جرمنی میں مختلف نوعیت کے جرائم میں ملوث پائے گئے جب کہ اس سے گزشتہ برس ایسے سربین مہاجرین کی تعداد ساڑھے سات ہزار سے زیادہ تھی۔
تصویر: DW/S. Kljajic
9۔ اریٹرین مہاجرین
گزشتہ برس مہاجرین کی جانب سے کیے گئے کل جرائم میں سے تین فیصد حصہ اریٹریا سے تعلق رکھنے والے تارکین وطن کا تھا جن میں سے پانچ ہزار پناہ گزین گزشتہ برس مختلف جرائم میں ملوث پائے گئے۔
تصویر: Getty Images/AFP/C. Stache
10۔ صومالیہ کے تارکین وطن
اس ضمن میں دسویں نمبر پر صومالیہ سے تعلق رکھنے والے مہاجرین اور تارکین وطن رہے۔ گزشتہ برس 4844 صومالین باشندوں نے جرمنی میں جرائم کا ارتکاب کیا۔
تصویر: picture-alliance/dpa/D. Bockwoldt
11۔ نائجیرین تارکین وطن
گیارہویں نمبر پر بھی ایک اور افریقی ملک نائجیریا سے تعلق رکھنے والے تارکین وطن رہے۔ سن 2017 میں نائجیریا سے تعلق رکھنے والے 4755 پناہ گزین مختلف نوعیت کے جرائم کے مرتکب ہوئے۔
تصویر: picture-alliance/AP Photo/S. Diab
12۔ پاکستانی تارکین وطن
وفاقی ادارے کی اس رپورٹ کے مطابق گزشتہ برس اڑتیس سو پاکستانی شہری بھی جرمنی میں مختلف جرائم میں ملوث رہے جب کہ 2016ء میں تینتالیس سو سے زائد پاکستانیوں نے مختلف جرائم کا ارتکاب کیا تھا۔ مہاجرین کے جرائم کی مجموعی تعداد میں پاکستانی شہریوں کے کیے گئے جرائم کی شرح 2.3 فیصد رہی۔ جرمنی میں پاکستانی تارکین وطن بھی مجموعی تعداد کا 2.3 فیصد ہی بنتے ہیں۔
تصویر: Jodi Hilton
12 تصاویر1 | 12
’حکومت عوام کو دھوکا دے رہی ہے‘، گرین پارٹی
بائیں بازو کی جماعت دی لنکے اور جرمن ماحول پسندوں کی گرین پارٹی نے وزیر داخلہ ہورسٹ زیہوفر کے تجویز کردہ اس بل کی حمایت سے انکار کر دیا تھا۔ ان جماعتوں کے مطابق سیاسی پناہ کے قوانین میں کی جانے والی ان ترامیم کا مقصد پناہ کے نظام میں کوئی اصلاح کرنا تھا ہی نہیں۔
گرین پارٹی کی مہاجرت سے متعلق امور کی خاتون ترجمان لوئزے آرمٹسبرگ کا کہنا تھا، ’’میرے خیال میں اس ایوان میں بحث کے دوران سب سے بڑی خرابی یہ تھی کہ جرمن عوام کو یہ باور کرایا جا رہا تھا کہ ان چاروں ممالک کو محفوظ قرار دے دینے سے سیاسی پناہ کے ملکی قوانین میں موجود تمام خامیاں دور ہو جائیں گی۔‘‘
گرین پارٹی کی اس ترجمان کا یہ بھی کہنا تھا کہ ان ممالک سے تعلق رکھنے والے پناہ کے درخواست گزاروں کی تعداد نہ ہونے کے برابر ہے اور حالیہ برسوں کے دوران ترامیم سے قبل ہی ان ممالک کے شہریوں کی ملک بدری میں بھی اضافہ ہو چکا ہے۔
’بنڈس ٹاگ‘ جرمن پارلیمان کا ایوان زیریں ہے اور وہاں سے منظوری کے بعد اب اس بل کو ’بنڈس راٹ‘ یا وفاقی پارلیمان کے ایوان بالا میں پیش کیا جانا ہے۔ ایوان بالا میں جرمنی کی تمام سولہ وفاقی ریاستوں کے نمائندے موجود ہوتے ہیں۔ گرین پارٹی نو وفاقی صوبوں میں مخلوط حکومتوں کا حصہ ہے۔ اس لیے اس جماعت کی تائید کے بغیر ایوان بالا میں اس بل کی منظوری میں مشکلات پیش آ سکتی ہیں۔ سن 2017 میں بھی گرین پارٹی کی حمایت نہ ملنے کے سبب ایسا ہی ایک بل منظور نہیں ہو سکا تھا۔
ش ح/ م م (جیفرسن چیز، ڈی ڈبلیو)
پناہ کے مسترد درخواست گزاروں کی اپیلیں: فیصلے کن کے حق میں؟
رواں برس کی پہلی ششماہی کے دوران جرمن حکام نے پندرہ ہزار سے زائد تارکین وطن کی اپیلوں پر فیصلے سنائے۔ اس پکچر گیلری میں دیکھیے کس ملک کے کتنے پناہ گزینوں کی اپیلیں منظور کی گئیں۔
تصویر: picture-alliance/dpa/D. Karmann
1۔ افغان مہاجرین
رواں برس کے پہلے چھ ماہ کے دوران 1647 افغان مہاجرین کی اپیلیوں پر فیصلے کیے گئے۔ ان میں سے بطور مہاجر تسلیم، ثانوی تحفظ کی فراہمی یا ملک بدری پر پابندی کے درجوں میں فیصلے کرتے ہوئے مجموعی طور پر 440 افغان شہریوں کو جرمنی میں قیام کی اجازت دی گئی۔ یوں افغان تارکین وطن کی کامیاب اپیلوں کی شرح قریب ستائیس فیصد رہی۔
تصویر: DW/M. Hassani
2۔ عراقی مہاجرین
بی اے ایم ایف کی رپورٹ کے مطابق حکام نے گیارہ سو عراقی مہاجرین کی اپیلوں پر بھی فیصلے کیے اور ایک سو چودہ عراقیوں کو مختلف درجوں کے تحت جرمنی میں قیام کی اجازت ملی۔ یوں عراقی مہاجرین کی کامیاب اپیلوں کی شرح دس فیصد سے کچھ زیادہ رہی۔
تصویر: picture-alliance/dpa/K.Nietfeld
3۔ روسی تارکین وطن
روس سے تعلق رکھنے والے ایک ہزار سے زائد تارکین وطن کی اپیلیں بھی نمٹائی گئیں اور کامیاب اپیلوں کی شرح دس فیصد سے کچھ کم رہی۔ صرف تیس روسی شہریوں کو مہاجر تسلیم کیا گیا جب کہ مجموعی طور پر ایک سو چار روسی شہریوں کو جرمنی میں عارضی قیام کی اجازت ملی۔
تصویر: Getty Images/S. Gallup
4۔ شامی مہاجرین
جرمنی میں شامی مہاجرین کی اکثریت کو عموما ابتدائی فیصلوں ہی میں پناہ دے دی جاتی ہے۔ رواں برس کی پہلی ششماہی کے دوران بی اے ایم ایف کے حکام نے پناہ کے مسترد شامی درخواست گزاروں کی قریب ایک ہزار درخواستوں پر فیصلے کیے جن میں سے قریب پیتنالیس فیصد منظور کر لی گئیں۔
تصویر: picture alliance/AP Photo/P. Giannokouris
5۔ سربیا کے تارکین وطن
مشرقی یورپی ملک سربیا سے تعلق رکھنے والے 933 تارکین وطن کی اپیلیوں پر فیصلے کیے گئے جن میں سے صرف پانچ منظور کی گئیں۔ یوں کامیاب اپیلوں کی شرح 0.5 فیصد رہی۔
تصویر: picture-alliance/dpa/S. Willnow
6۔ پاکستانی تارکین وطن
اسی عرصے کے دوران جرمن حکام نے 721 پاکستانی تارکین وطن کی اپیلوں پر بھی فیصلے کیے۔ ان میں سے چودہ منظور کی گئیں اور اپیلوں کی کامیابی کی شرح قریب دو فیصد رہی۔ آٹھ پاکستانیوں کو بطور مہاجر تسلیم کرتے ہوئے پناہ دی گئی جب کہ تین کو ’ثانوی تحفظ‘ فراہم کرتے ہوئے جرمنی میں قیام کی اجازت ملی۔
تصویر: DW/I. Aftab
7۔ مقدونیہ کے تارکین وطن
مشرقی یورپ ہی کے ملک مقدونیہ سے تعلق رکھنے والے 665 تارکین وطن کی اپیلوں پر بھی فیصلے سنائے گئے جن میں سے صرف 9 منظور کی گئیں۔
تصویر: DW/E. Milosevska
8۔ نائجرین تارکین وطن
افریقی ملک نائجیریا سے تعلق رکھنے والے چھ سو تارکین وطن کی اپیلیں نمٹائی گئیں جن میں کامیاب درخواستوں کی شرح تیرہ فیصد رہی۔
تصویر: A.T. Schaefer
9۔ البانیا کے تارکین وطن
ایک اور یورپی ملک البانیا سے تعلق رکھنے والے 579 تارکین وطن کی ثانوی درخواستوں پر فیصلے کیے گئے جن میں سے صرف نو افراد کی درخواستیں منظور ہوئیں۔
تصویر: Getty Images/T. Lohnes
10۔ ایرانی تارکین وطن
جنوری سے جون کے اواخر تک 504 ایرانی شہریوں کی اپیلوں پر بھی فیصلے کیے گئے جن میں سے 52 کو بطور مہاجر تسلیم کیا گیا، چار ایرانی شہریوں کو ثانوی تحفظ دیا گیا جب کہ انیس کی ملک بدری پر پابندی عائد کرتے ہوئے جرمنی رہنے کی اجازت دی گئی۔ یوں ایرانی تارکین وطن کی کامیاب اپیلوں کی شرح پندرہ فیصد سے زائد رہی۔