سیاسی پناہ نہ ملی: افغان باشندوں کا ایک اور گروپ جرمنی بدر
12 مارچ 2020بتایا گیا ہے کہ ان تارکین وطن کو لیے ایک خصوصی طیارہ مقامی وقت کے مطابق 12 مارچ کو صبح سات بج کر پچیس منٹ پر کابل میں اترا۔ دسمبر 2016 کے بعد سے جرمنی سے افغانستان واپس بھیجا جانے والا یہ 33واں گروپ تھا۔ بتایا گیا ہے کہ اب تک مجموعی طور پر سیاسی پناہ کے 907 ناکام افغان درخواست گزاروں کو واپس افغانستان بھیجا جا چکا ہے۔
افغان تارکین وطن کی ملک بدری جرمنی میں ایک نہایت متنازعہ معاملہ ہے، جس پر ناقدین کا کہنا ہے کہ سیاسی پناہ کے درخواست گزاروں کو افغانستان واپس بھیجنا ان کی زندگیوں کو خطرے میں ڈالنے کے مترادف ہے۔ ناقدین کی رائے کے مطابق افغانستان میں سکیورٹی کی صورت حال بدستور دگرگوں ہے اور ایسے حالات میں افغان تارکین وطن کو جرمنی بدر نہیں کیا جانا چاہیے۔
افغانستان میں طالبان اور دیگر عسکری گروہوں کی جانب سے حملوں کے واقعات تو تواتر سے پیش آتے ہی رہتے ہیں، تاہم حالیہ صدارتی انتخابات کے نتائج پر اختلافات اور وہاں اشرف غنی اور عبداللہ عبداللہ کے درمیان عداوت ایک نئے سیاسی بحران میں تبدیل ہو چکی ہے۔ صدارتی انتخابات میں صدر اشرف غنی کو کامیاب قرار دیا گیا تھا، تاہم ان کے حریف اور افغانستان کے سابق چیف ایگزیکٹیو عبداللہ عبداللہ نے یہ نتائج تسلیم کرنے سے انکار کرتے ہوئے اپنی فتح کا اعلان کر دیا تھا اور انہوں نے ایک علیحدہ تقریب میں ملکی صدر کے عہدے کا حلف بھی اٹھا لیا تھا۔
پیر کے روز جب دو مختلف مقامات پر اشرف غنی اور عبداللہ عبداللہ صدارتی حلف اٹھا رہے تھے، کابل کے صدارتی محل کے قریب چار راکٹ بھی گرے تھے۔ اس حملے کی ذمہ داری شدت پسند تنظیم داعش یا 'اسلامک اسٹیٹ‘ نے قبول کر لی ہے۔
رواں ہفتے طالبان کی جانب سے بھی افغانستان کے مختلف مقامات پر حملے دیکھنے میں آئے۔ واضح رہے کہ امریکا اور طالبان کے درمیان طے پانے والے معاہدے کے بعد افغانستان سے امریکی فوج کا انخلا جاری ہے، تاہم افغانستان میں سیاسی بےیقینی نے ملک کے مختلف گروہوں کے درمیان کسی ممکنہ امن معاہدے سے متعلق کئی طرح کے سوالات کھڑے کر دیے ہیں۔
ع ت / م م (روئٹرز، ڈی پی اے)