1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

سیاسی پناہ کے متلاشی افراد آسٹریلیا کے ’یرغمالی‘

کشور مصطفیٰ18 جنوری 2015

پاپوا نیو گنی کے جزیرے مانوس کے ایک پناہ گزین کیمپ میں مقیم سیاسی پناہ کے متلاشی افراد نے کئی روز سے احتجاجی بھوک ہڑتال جاری رکھنے کے بعد آج اتوار کو بیان دیتے ہوئے کہا کہ آسٹریلوی حکام نے انہیں یرغمال بنا رکھا ہے۔

تصویر: picture-alliance/AA/Recep Sakar

پاپوا نیو گنی میں ایک حراستی مرکز میں سیاسی پناہ کے متلاشیوں نے کہا ہے کہ کینبرا حکومت نے انہیں یرغمال بنا رکھا ہے، جس کا مقصد ایسے افراد کی حوصلہ شکنی کرنا ہے جو انسانوں کی اسمگلنگ کرنے والوں کو پیسے دے کر آسٹریلیا آنے کی کوشش کرتے ہیں۔

پاپوا نیو گنی کے جزیرے مانوس کے ایک پناہ گزین کیمپ میں مقیم سیاسی پناہ کے متلاشی افراد نے کئی روز سے احتجاجی بھوک ہڑتال جاری رکھنے کے بعد آج اتوار کو بیان دیتے ہوئے کہا کہ آسٹریلوی حکام نے انہیں یرغمال بنا رکھا ہے۔ دریں اثناء پناہ گزینوں کے وکلاء نے اعلان کیا ہے کہ پناہ کی تلاش میں آسٹریلوی جزیرے تک پہنچنے والے ان افراد کو حکومت نے گزشتہ 18 ماہ سے قید کر رکھا ہے اور اس کے خلاف احتجاجی مظاہروں کا سلسلہ جاری رہے گا۔

پناہ گزینوں کے لیے کام کرنے والے ایک اتحاد ’ رفیوجی ایکشن کوئیلیشن‘ نے سیاسی پناہ کے متلاشی افراد کی طرف سے تحریر کردہ ایک خط تقسیم کیا ہے، جس میں درج ہے، ’’آسٹریلیا کی حکومت ہمیں ہماری خواہش کے خلاف اور زبردستی پاپوا نیو گنی میں آباد کرنے کی منصوبہ بندی کر رہی ہے۔ ہم اس جگہ دوبارہ سے سکونت اختیار نہیں کرنا چاہتے کیونکہ یہاں ہمیں اور ہمارے اہل خانہ کو نہ تو تحفظ حاصل ہے اور نہ ہی یہاں ہمارا کوئی مستقبل ہے۔‘‘

مانوس جزیرے میں قائم حراستی مرکزتصویر: picture-alliance/dpa

سیاسی پناہ کے متلاشی افراد کی اس تحریر میں مزید لکھا ہے، ’’آج ہم خود کو کینبرا حکومت کی طرف سے بنائے گئے یرغمال تصور کر رہے ہیں۔ یہ آسٹریلیا کی حکومت کی طرف سے ایک کوشش ہے، پناہ گزینوں کو ان کے ملک آنے سے باز رکھنے کی۔‘‘

سیاسی پناہ کے متلاشی افراد جو غیر قانونی کشتیوں میں سوار ہو کر آسٹریلیا کے پانیوں میں داخل ہونے کی کوشش کرتے ہیں، چاہے وہ حقیقی معنوں میں پناہ گزین کیوں نہ ہوں، انہیں آسٹریلیا پہنچنے پر ساحل سے کچھ دور واقع پاپوا نیو گنی اور بحرالکاہل کے ناؤرو جزیرے کے حراستی کیمپوں میں رکھا جاتا ہے۔ ان دونوں کیمپوں میں رہنے والوں کو اپنا مستقبل تاریک نظر آتا ہے کیونکہ باہر کی دنیا سے ان کا کوئی رابطہ نہیں ہوتا، نہ ہی وہ اپنے اور اپنی فیملی کے مستقبل کے لیے کچھ کر پاتے ہیں۔ آسٹریلیا کی حکومت انہیں کسی صورت خشک علاقوں یا شہری آبادی کا حصہ نہیں بننے دینا چاہتی۔

آسٹریلیا میں 2013 ء میں جولائی کے مہینے میں پناہ کے متلاشی افراد سے متعلق سخت گیر پالیسی متعارف کرائی گئی تھی جس کے بعد کینبرا حکومت کو مختلف سمتوں سے کڑی تنقید کا سامنا بھی رہا۔ آسٹریلوی حکام کا کہنا ہے کہ اُس کا یہ اقدام غیر محفوظ کشتیوں میں، جان جوکھوں میں ڈال کر نقل مکانی کی کوشش کرنے والوں اور انسانی اسمگلنگ کرنے والوں کو پیسے دے کر آسٹریلیا پہنچنے والوں کی حوصلہ شکنی کرنے کے لیے ناگزیر ہے۔

انسانوں کی اسمگلنگ کرنے والے غیر قانونی کشتیوں میں پناہ کے متلاشی افراد کو آسٹریلیا کے پانیوں تک پہنچا دیتے ہیںتصویر: picture-alliance/dpa

آسٹریلیا کے نشریاتی ادارے نے آج اتوار کو اس بارے میں خبر نشر کی ہے کہ پناہ گزینوں کے گروپوں نے جزیرے مانوس میں قائم اپنے حراستی کیمپ کی ناکہ بندی کر رکھی ہے اور وہ حکومتی اہلکاروں کو قطعاً داخلے کی اجازت نہیں دے رہے ہیں۔ پناہ گزینوں کی طرف سے کیے جانے والے مظاہروں کی شدت و وسعت کے بارے میں سامنے آنے والی متنازعہ خبروں کے سامنے آنے کے بعد آج اتوار کو آسٹریلیا کے نائب وزیر اعظم وارن ٹروس نے کہا ہے، ’’اطلاعات کا بہاؤ ہمیشہ معتبر یا قابل بھروسہ نہیں ہوتا‘‘۔

نائب وزیر اعظم نے پناہ کے متلاشی افراد کو خبردار کرتے ہوئے کہا ہے، ’’غیر قانونی طور پر اسمگلرز کے سہارے آسٹریلیا پہنچنے کا خواب دیکھنے والوں کا یہ خواب کبھی پورا نہیں ہوگا، نہ ہی اس سلسلے میں اُن کی طرف سے یہ دلیل کام آئے گی کہ کیونکہ ان کے ساتھ کیمپوں میں بُرا سلوک ہو رہا ہے اس لیے انہیں پناہ دی جانا چاہیے۔‘‘

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں
ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ سیکشن پر جائیں

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ

ڈی ڈبلیو کی مزید رپورٹیں سیکشن پر جائیں