سیاسی پناہ کے ناکام درخواست گزار پاکستانیوں کی جرمنی بدری
عاطف توقیر
6 دسمبر 2017
سیاسی پناہ کی درخواستیں مسترد ہو جانے کے بعد پاکستانی تارکین وطن کے ایک گروپ کو آج بدھ کے روز ایک پرواز کے ذریعے پاکستانی واپس بھیجے جانے کی توقع ہے۔
اشتہار
اگر یہ جلاوطنی عمل میں آتی ہے، تو یہ پہلا موقع ہو گا جب سیاسی پناہ کی درخواستیں مسترد ہو جانے کے بعد پاکستانی شہریوں کے ایک گروپ کو اس طرح جرمنی بدر کیا گیا۔
اس سے قبل افغان تارکین وطن کو گروپوں کی صورت میں جرمنی سے واپس افغانستان بھیجنے کا سلسلہ جاری ہے۔ اسی تناظر میں جرمنی کے مختلف شہروں میں مظاہرے بھی دیکھنے میں آتے رہے۔ جرمن حکومت افغانستان کے بعض حصوں کو ’محفوظ‘ قرار دے کر وطن واپس بھیجتی رہی ہے۔ تاہم ناقدین کا خیال ہے کہ افغانستان میں عسکریت پسندوں کی کارروائیاں جاری ہیں بلکہ ماضی کے مقابلے میں ان کی شدت میں کئی گنا اضافہ دیکھا گیا ہے اور ایسے میں سیاسی پناہ کے ناکام درخواست گزار افغان باشندوں کی واپسی ایک نادرست عمل ہے۔
یونان میں ایک پاکستانی مہاجر کی مشکلات
01:31
جرمن حکومت کا تاہم موقف یہ ہے کہ وہ فقط ایسے افغان باشندوں کو وطن بدر کر رہی ہے، جو جرمنی میں مجرمانہ سرگرمیوں میں ملوث پائے گئے ہیں اور جن سے عوام کی سلامتی کو خطرات لاحق ہیں۔
جرمن اخبار ڈیر اشپیگل کے مطابق پاکستانی وفاقی تفتیشی ادارے (ایف آئی اے) نے کہا ہے کہ انہیں فی الحال ایسی کسی پرواز کا علم نہیں ہے اور اس بابت انہیں پاکستانی شہریوں کی جرمنی بدری سے کچھ دیر قبل ہی بتایا جائے گا۔
فی احال یہ نہیں بتایا گیا ہے کہ کتنے پاکستانی شہریوں کو وطن واپس بھیجا جا رہا ہے۔ تاہم جرمن وزارت داخلہ کے مطابق سن 2016 کے مقابلے میں رواں برس جرمنی سے پاکستان بھیجے جانے والے تارکین وطن کی تعداد دوگنی رہی ہے۔ رواں برس قریب 149 پاکستانی شہریوں کو وطن واپس بھیجا گیا، جب کہ یہ تعداد گزشتہ برس 81 اور سن 2015 میں فقط 22 تھی۔
پاکستانی ہی سب سے پہلے ملک بدر کيوں؟
يورپی يونين اور ترکی کے مابين طے پانے والی ڈيل کے تحت اب تک 326 مہاجرين کو ملک بدر کيا جا چکا ہے، جن ميں 201 پاکستانی ہيں۔ يہ پناہ گزين بھاری رقوم خرچ کر کے يونان پہنچے ہيں اور ترکی ملک بدری کا خوف انہيں کھائے جا رہا ہے۔
تصویر: Jodi Hilton
ليسبوس پر ’غير قانونی‘ قيام
مقامی ميئر کے پريس آفيسر ماريو آندروئٹس کے مطابق مہاجرين نے وہاں جو کيمپ لگا رکھا ہے، وہ مکمل طور پر غير قانونی ہے۔ ان کے بقول وہ اس مسئلے کا پر امن انداز ميں حل نکالنے کی کوشش ميں ہيں تاہم اگر مہاجرين نے کيمپ نہيں چھوڑا تو پوليس کو طلب کيا جا سکتا ہے۔ يہ ليسبوس کے اس ايک کيمپ کی بات کر رہے ہيں، جہاں کئی پاکستانی موجود ہيں۔
تصویر: Jodi Hilton
سمندر سے بچائے جانے والے
مائيٹيلين کی بندرگاہ پر يونانی کوسٹ گارڈز کی جانب سے حراست ميں ليے جانے والے تارکين وطن کا ايک گروپ پوليس کی ايک بس پر انتظار کر رہا ہے۔ يہ تصوير رواں ہفتے اس وقت لی گئی تھی، جب يونان نے سياسی پناہ کے ليے غير مستحق سمجھے جانے والوں کی ترکی ملک بدری شروع کردی تھی۔
تصویر: Jodi Hilton
واپسی کا طويل سفر، مستقبل غير واضح
آٹھ اپريل کے روز 202 تارکين وطن کو ملک بدر کيا گيا۔ اس گروپ ميں ايک سو تيس پاکستانی شامل تھے۔ دوسرے نمبر پر افغان شہری تھے۔ اس کے علاوہ چند بنگلہ ديشی، کانگو کے کچھ شہری، چند ايک بھارتی اور سری لنکن تارکين وطن کو بھی ملک بدر کيا گيا۔
تصویر: Jodi Hilton
بھوک ہڑتال
ليسبوس پر قائم ايک حراستی مرکز موريا کے مہاجر کيمپ ميں پاکستانی تارکين وطن بھوک ہڑتال پر تھے۔ جنگی حالات سے فرار ہونے والا ايک نوجوان بلوچی لڑکا احتجاج کرتے ہوئے ایک کھمبے پر چڑھ گيا تھا اور دھمکی دينے لگا کہ وہ خود کو پھانسی دے دے گا۔ بعد ازاں اس کے ساتھيوں نے اسے سمجھایا اور وہ نیچے اتر آیا۔
تصویر: Jodi Hilton
ايک بے بس باپ
اڑتيس سالہ اعجاز اپنے اہل خانہ کے ليے ذريعہ معاش کا واحد ذريعہ ہیں۔ انہوں نے يورپ تک پہنچنے کے ليے اپنا مکان بيچ ڈالا تھا۔ وہ کہتے ہیں، ’’ميں بہت غريب آدمی ہوں۔‘‘ اپنے اہل خانہ کو غربت سے چھٹکارہ دلانے کا اعجاز کا خواب چکنا چور ہو کر رہ گيا ہے۔ اس کا کہنا ہے کہ اسے يورپ ميں مرنا قبول ہے ليکن ترکی جانا نہيں۔
تصویر: Jodi Hilton
خوف کی زندگی
ايک پاکستانی تارک وطن پوليس سے بھاگ کر ’نو بارڈر کچن کيمپ‘ کی طرف جا رہا ہے۔ مہاجرين کو کيمپوں کے آس پاس ہی رکھا جاتا ہے اور رات کے وقت پوليس انہيں بندرگاہ کے علاقے اور شہر کے مرکز ميں نہيں جانے ديتی۔
تصویر: Jodi Hilton
مفت کھانا
تارکين وطن کھانے کے ليے قطاروں ميں کھڑے ہيں۔ نو بارڈر کيمپ ميں يہ مہاجرين سب کچھ مل کر ہی کرتے ہيں۔ اس کيمپ ميں کوئی کسی کا سربراہ نہيں اور سب کو برابر سمجھا جاتا ہے اور فيصلے مشترکہ طور پر مشاورت کے بعد کيے جاتے ہيں۔
تصویر: Jodi Hilton
سرد راتيں
پاکستانی تارکين وطن کا ايک گروپ خود کو گرم رکھنے کے ليے آگ لگا کر ہاتھ تاپ رہا ہے۔ ان ميں سے کچھ کا کہنا ہے کہ ترکی ميں انہيں يرغمال بنا ليا گيا تھا اور تاوان کے بدلے چھوڑا گيا تھا۔ ان ميں ايک پاکستانی حسن بھی ہے، جس نے اپنے خلاف قتل کی متعدد کوششوں کے بعد ملک چھوڑا تھا۔ اس کا کہنا ہے کہ ترکی اس کے ليے محفوظ ملک نہيں۔
تصویر: Jodi Hilton
8 تصاویر1 | 8
اعداد و شمار کے مطابق جرمنی میں مجموعی طور پر 73 ہزار سے زائد ایسے تارکین وطن مقیم ہیں، جن کا آبائی ملک پاکستان ہے۔ ان میں سے آٹھ ہزار 796 کو ملک چھوڑنے کے احکامات جاری ہو چکے ہیں۔ جرمن حکام کے مطابق پاکستان سے تعلق رکھنے والے سیاسی پناہ کے درخواست گزاروں کی تعداد میں رواں برس نمایاں کمی دیکھی گئی ہے۔
جرمن حکام کے مطابق زیادہ تر پاکستانی معاشی وجوہات کی بنا پر اپنے ملک سے ترک وطن کرتے ہیں جب کہ ایسے افراد کی تعداد نہایت کم ہے، جن کی زندگیوں کو واقعی ان کے آبائی ملک میں خطرات لاحق ہیں۔
دوسری جانب جنوبی جرمن صوبے باویریا کی مہاجرین کی کونسل نے ان الزامات کو رد کیا ہے، جن میں کہا جا رہا تھا کہ وہ افغان باشندوں کی ملک بدری سے بچنے کے لیے ’غائب‘ ہو جانے کا مشورہ دے رہی ہے۔ واضح رہے کہ کہ یہ کونسل تارکین وطن کی ملک بدریوں کو رکوانے کے لیے ان کی مدد کرتی ہے اور بعض صورتوں میں ان ملک بدریوں کے خلاف احتجاجی مظاہرے منعقد کروانے میں بھی پیش پیش رہی ہے۔