یورپی یونین رواں ہفتے کے دوران سیاسی پناہ کے قوانین میں ترامیم کا منصوبہ پیش کرنے والی ہے۔ مجوزہ قوانین مہاجرین کے بحران کے مسئلے پر پہلے سے منقسم یورپی ممالک کے مابین پائی جانے والی خلیج کو بڑھانے کا سبب بن سکتے ہیں۔
اشتہار
ترکی اور یورپی یونین کے مابین طے پانے والا معاہدہ نہ صرف انسانی حقوق کے لیے کام کرنے والے اداروں کی جانب سے تنقید کی زد میں ہے بلکہ یورپی یونین کے تمام ممالک بھی اس سے کچھ زیادہ خوش نہیں ہیں۔ تاہم اب یورپی یونین میں سیاسی پناہ حاصل کرنے کے قوانین میں تبدیلی کی جا رہی ہے۔
’ڈبلن قوانین‘ کے نام سے جانے جانے والے موجودہ یورپی قوانین کے مطابق تارکین وطن صرف اسی ملک میں سیاسی پناہ کی درخواستیں جمع کرا سکتے ہیں جس ملک کے ذریعے وہ یورپی یونین کی حدود میں داخل ہوئے۔ اس قانون کی وجہ سے یونین کی بیرونی سرحدوں پر واقع یونان اور اٹلی جیسے ممالک کو پناہ گزینوں کا سب سے زیادہ بوجھ برداشت کرنا پڑا ہے۔
گزشتہ برس مہاجرین کی بہت بڑی تعداد میں یونان اور اٹلی آمد کے بعد جرمنی نے ’ڈبلن قوانین‘ کے برخلاف شامی پناہ گزینوں کے لیے اپنی سرحدیں کھول دی تھیں جس کی وجہ سے اٹلی اور بالخصوص یونان پر تارکین وطن کا بوجھ کم ہوا تھا۔ لیکن یونین کی سطح پر پناہ گزینوں کی منتقلی کا کوئی مرکزی قانون بنانا ایک مشکل کام ہو گا۔ کئی یورپی ممالک ایسے ہیں جو تارکین وطن کو اپنے ہاں پناہ نہیں دینا چاہتے۔ ایسے ممالک یونین کی بیرونی سرحدوں پر واقع ممالک کے اظہار یکجہتی دکھانے سے یقیناﹰ ہچکچائیں گے۔
اب یورپی کمیشن نے اعلان کیا ہے کہ سیاسی پناہ کا ایک نیا اور متفقہ یورپی قانون بنانے کے لیے تمام ممکنہ امکانات پر غور کیا جائے گا۔ جس کے بعد رواں برس کے آخر تک ایک حتمی قانون تیار کر لیا جائے گا۔
غیر قانونی تارکین وطن کی یونان سے ترکی واپسی
01:50
یورپی یونین کے کمشنر برائے مہاجرت دیمیتریس اورامُوپولوس کا کہنا تھا، ’’ڈبلن قواعد تیار کرتے ہوئے یکجہتی کا تصور ملحوظ خاطر نہیں رکھا گیا تھا جس میں مہاجرین کا بوجھ تمام رکن ممالک کو یکساں طور پر برداشت کرنا پڑے۔ (نئے قوانین میں) اس پہلو کو شامل کرنے کی ضرورت ہے۔ پناہ گزینوں کی تقسیم کا موجودہ نظام یقینی طور پر مستحکم نہیں ہے۔‘‘
نئے قوانین کی فوری ضرورت اس لیے بھی درپیش ہے کیوں کہ یورپ اور ترکی کے مابین طے شدہ معاہدے کے مطابق یونان آنے والے تمام غیر قانونی تارکین وطن کو تو واپس ترکی بھیج دیا جائے گا، لیکن ہر شامی مہاجر کے بدلے یونین ترک کیمپوں میں رہنے والے ایک شامی مہاجر کو یونین میں پناہ دے گی۔
یورپی یونین میں تارکین وطن کی تقسیم کے منصوبے پر عمل درآمد اب تک نہیں ہو پا رہا۔ اصولی طور پر اب تک لاکھوں تارکین وطن کو اٹلی اور یونان سے دیگر یورپی ممالک منتقل کر دیا جانا چاہیے تھا لیکن اب تک صرف گیارہ سو کے قریب لوگوں کو ہی منتقل کیا جا سکا ہے۔
یونین کے کچھ رکن ممالک زیادہ تر مشرق وسطیٰ کے شورش زدہ ممالک سے آنے والے مسلمان تارکین وطن کو اپنے ہاں پناہ دینے کے لیے تیار نہیں ہیں۔ برسلز اور پیرس میں ہونے والے دہشت گردانہ حملوں کے بعد اس رجحان میں اضافہ بھی ہوا ہے۔
یورپی یونین اور ترکی کے مابین طے پانے والے معاہدے کے مطابق یونان پہنچنے والے غیر قانونی تارکین وطن کی ترکی واپسی کا عمل پیر چار اپریل سے شروع ہو جائے گا۔
تصویر: DW/G. Harvey
ترکی واپسی کی تیاری
یورپی یونین اور ترکی کے مابین طے پانے والے معاہدے کے مطابق یونان پہنچنے والے غیر قانونی تارکین وطن کی ترکی واپسی کا عمل پیر چار اپریل سے شروع ہو جائے گا۔ فی الحال واضح نہیں ہے کہ پیر کے روز کتنے پناہ گزین ملک بدر کیے جائیں گے۔
تصویر: Getty Images/AFP/A. Isakovic
سڑکوں پر گزرتے شب و روز
ہزاروں تارکین وطن اپنی جانیں خطرے میں ڈال کر یونان تک تو پہنچ گئے لیکن پہلے سے معاشی زبوں حالی کے شکار اس ملک میں انہیں رہائش فراہم کرنے کے لیے خاطر خواہ انتظامات نہیں ہیں۔ آج ایتھنز حکام نے پیریئس کے ساحلی علاقے پر موجود تارکین وطن کو دیگر یونانی علاقوں میں منتقل کرنا شروع کر دیا ہے۔
تصویر: Reuters/A.Konstantinidis
لیسبوس سے انخلاء
ترکی سے غیر قانونی طور پر یونان پہنچنے والے زیادہ تر تارکین وطن لیسبوس نامی یونانی جزیرے پر پہنچتے ہیں۔ معاہدہ طے پانے کے بعد تارکین وطن کو لیسبوس کے کیمپوں سے نکال کر دیگر علاقوں کی جانب لے جایا جا رہا ہے جس کے بعد انہیں واپس ترکی بھیجنے کے اقدامات کیے جائیں گے۔
تصویر: Reuters/M. Karagiannis
یاس و امید کے درمیان
ہزاروں تارکین وطن یونان اور مقدونیہ کی سرحد پر واقع ایڈومینی کیمپ میں اب بھی اس امید سے بیٹھے ہیں کہ کسی وقت سرحد کھول دی جائے گی اور وہ جرمنی اور دیگر مغربی یورپی ممالک کی جانب اپنا سفر جاری رکھ سکیں گے۔ ان ہزاروں تارکین وطن کے ہمراہ بچے اور عورتیں بھی موجود ہیں۔
تصویر: DW/D. Tosidis
خاردار تاروں کے سائے میں
مقدونیہ اور یونان کے مابین سرحد مکمل طور پر بند ہے۔ تارکین وطن متبادل راستوں کے ذریعے مقدونیہ پہنچنے کی ایک سے زائد منظم کوششیں کر چکے ہیں لیکن ہر مرتبہ انہیں گرفتار کر کے واپس بھیج دیا جاتا ہے۔ پناہ گزینوں نے مقدونیہ کی سکیورٹی فورسز کی جانب سے تشدد اور ناروا سلوک کی شکایات بھی کیں ہیں۔
تصویر: picture-alliance/dpa
یورپ میں بھی پولیس سے جھڑپیں
یونانی حکام تارکین وطن سے بارہا درخواست کر چکے ہیں کہ وہ ایڈومینی سے دوسرے کیمپوں میں منتقل ہو جائیں۔ کیمپ خالی کروانی کی کوششوں کے دوران یونانی پولیس اور تارکین وطن نے احتجاج اور مظاہرے کیے۔ اس دوران پولیس اور تارکین وطن میں جھڑپیں بھی ہوئیں۔
تصویر: Getty Images/AFP/A. Isakovic
معاہدے کے باوجود ترکی سے یونان آمد میں اضافہ
اگرچہ یہ بات واضح ہے کہ غیر قانونی طور پر یونان پہنچنے والے تمام تارکین وطن کو معاہدے کی رو سے واپس ترکی بھیج دیا جائے گا۔ اس کے باوجود پناہ گزین بحیرہ ایجیئن کا خطرناک سمندری سفر طے کر کے مسلسل ترکی سے یونان پہنچ رہے ہیں۔ گزشتہ چند دنوں کے دوران تارکین وطن کی آمد میں مزید اضافہ دیکھا گیا ہے۔
تصویر: Getty Images/A. Koerner
لائف جیکٹوں کا ’پہاڑ‘
سمندری سفر کے دوران تارکین وطن کے زیر استعمال لائف جیکٹیں یونانی جزیروں پر اب بھی موجود ہیں۔ انسانی حقوق کے لیے کام کرنے والے اداروں کا کہنا ہے کہ ترکی پناہ گزینوں کے لیے محفوظ ملک نہیں ہے اس لیے انہیں واپس ترکی نہیں بھیجا جانا چاہیے۔ یونین کا کہنا ہے کہ ان اقدامات کے ذریعے تارکین وطن کو خطرناک سمندری راستے اختیار کرنے سے روکا جانے میں مدد حاصل ہو گی۔