یورپی یونین نے سیاسی پناہ کے اپنے قوانین میں نئی اصلاحات کا فیصلہ کیا ہے جن کا مقصد یورپ کا رخ کرنے والے تارکین وطن کو ان کی مرضی کے مطابق مختلف یورپی ممالک کا رخ کرنے سے روکنا ہے۔
تصویر: picture-alliance/F. May
اشتہار
نیوز ایجنسی اے ایف پی کی بدھ تیرہ جولائی کے روز برسلز سے موصولہ رپورٹوں کے مطابق یورپی یونین کے رکن ممالک میں سیاسی پناہ کے یکساں قوانین نہ ہونے کے باعث اب تک اٹھائیس رکنی یونین میں داخل ہونے والے تارکین وطن زیادہ تر اپنی پسند کے ممالک کا رخ کرتے ہیں۔ یہ بات اس بلاک میں یکساں قوانین کی عدم موجودگی یونین کے رکن ممالک کے مابین اکثر تناؤ کا باعث بنتی ہے۔
یورپی یونین کے مہاجرین سے متعلقہ امور کے نگران کمشنر دیمیتریس آوراموپولوس نے برسلز میں ایک پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہا، ’’ہم اپنی پالیسیوں میں اصلاحات لانا چاہتے ہیں۔ سیاسی پناہ کے یورپی قوانین میں نئی تبدیلیوں کا مقصد صرف کم از کم مطلوبہ معیارات ہی کو یقینی بنانا نہیں ہے بلکہ ان کا مقصد سیاسی پناہ کے موجودہ ’بکھرے ہوئے‘ قوانین کو یکساں، مؤثر اور منصفانہ بنانا ہے۔‘‘
مہاجر خاندان افغان، مسئلہ مشرقی، مسئلہ مغرب میں
03:23
This browser does not support the video element.
2015ء کے دوران یورپی یونین میں مجموعی طور پر تیرہ لاکھ سے زائد تارکین وطن سیاسی پناہ کی تلاش میں آئے تھے۔ زیادہ تر مشرق وسطیٰ، ایشیا اور افریقہ سے تعلق رکھنے والے ان تارکین وطن کی اکثریت نے جرمنی اور سویڈن جیسے امیر یورپی ممالک کا رخ کیا تھا، جس کی وجہ سے ان دونوں ممالک پر دیگر یورپی ریاستوں کی نسبت مہاجرین کا بوجھ بہت زیادہ رہا۔
دیمیتریس آوراموپولوس کے مطابق قوانین میں مجوزہ تبدیلیوں کا مقصد سیاسی پناہ کی تلاش میں یورپ کا رخ کرنے والے تارکین وطن کو قانونی تحفظ اور نابالغ پناہ گزینوں کو یقینی تحفظ کی فراہمی کے علاوہ یورپ بھر میں ایسے عمومی معیارات کا تعین ہے جن کے ذریعے یونین کا ہر رکن ملک پناہ گزینوں کی میزبانی کرنے اور انہیں اپنے ہاں پناہ دینے کا یکساں طور پر پابند ہو گا۔
نئی قانونی تبدیلیوں کو منظور کرنے کے لیے یونین کے رکن ممالک اور یورپی پارلیمان میں بحث کی جائے گی اور منظوری کے بعد یہ قوانین نافذ العمل ہو جائیں گے۔ نئی اصلاحات میں یونین کے رکن ممالک سے یہ مطالبہ بھی کیا گیا ہے کہ وہ تارکین وطن کی سیاسی پناہ کی درخواستیں منظور ہونے کے چھ ماہ کے بعد انہیں روزگار کی فراہمی یقینی بنانے کے لیے بھی اقدامات کریں۔
علاوہ ازیں آئندہ تارکین وطن کے لیے یہ بھی لازمی ہو گا کہ وہ اسی یورپی ملک میں قیام کریں، جہاں انہوں نے سیاسی پناہ کی درخواستیں جمع کرا رکھی ہوں گی۔ اس سے قبل رواں برس مئی کے مہینے میں بھی سیاسی پناہ کے یورپی قوانین میں تبدیلیاں کی گئی تھیں، جن میں تارکین وطن پر عائد یہ پابندی اٹھا لی گئی تھی کہ وہ صرف اسی ملک میں سیاسی پناہ کی درخواستیں دے سکتے ہیں، جہاں سے وہ یورپی یونین کی حدود میں داخل ہوئے ہوں۔
اس منصوبے کے تحت تارکین وطن کو یونان اور اٹلی جیسے ممالک سے نکال کر یونین کے دیگر رکن ممالک میں ’منصفانہ طور پر تقسیم‘ کرنا بھی شامل تھا، تاہم مشرقی یورپ سے کئی رکن ریاستوں نے تارکین وطن کو اپنی سرزمین پر پناہ دینے سے انکار کر دیا تھا۔
یورپی یونین اور ترکی کے مابین طے پانے والے معاہدے کے مطابق یونان پہنچنے والے غیر قانونی تارکین وطن کی ترکی واپسی کا عمل پیر چار اپریل سے شروع ہو جائے گا۔
تصویر: DW/G. Harvey
ترکی واپسی کی تیاری
یورپی یونین اور ترکی کے مابین طے پانے والے معاہدے کے مطابق یونان پہنچنے والے غیر قانونی تارکین وطن کی ترکی واپسی کا عمل پیر چار اپریل سے شروع ہو جائے گا۔ فی الحال واضح نہیں ہے کہ پیر کے روز کتنے پناہ گزین ملک بدر کیے جائیں گے۔
تصویر: Getty Images/AFP/A. Isakovic
سڑکوں پر گزرتے شب و روز
ہزاروں تارکین وطن اپنی جانیں خطرے میں ڈال کر یونان تک تو پہنچ گئے لیکن پہلے سے معاشی زبوں حالی کے شکار اس ملک میں انہیں رہائش فراہم کرنے کے لیے خاطر خواہ انتظامات نہیں ہیں۔ آج ایتھنز حکام نے پیریئس کے ساحلی علاقے پر موجود تارکین وطن کو دیگر یونانی علاقوں میں منتقل کرنا شروع کر دیا ہے۔
تصویر: Reuters/A.Konstantinidis
لیسبوس سے انخلاء
ترکی سے غیر قانونی طور پر یونان پہنچنے والے زیادہ تر تارکین وطن لیسبوس نامی یونانی جزیرے پر پہنچتے ہیں۔ معاہدہ طے پانے کے بعد تارکین وطن کو لیسبوس کے کیمپوں سے نکال کر دیگر علاقوں کی جانب لے جایا جا رہا ہے جس کے بعد انہیں واپس ترکی بھیجنے کے اقدامات کیے جائیں گے۔
تصویر: Reuters/M. Karagiannis
یاس و امید کے درمیان
ہزاروں تارکین وطن یونان اور مقدونیہ کی سرحد پر واقع ایڈومینی کیمپ میں اب بھی اس امید سے بیٹھے ہیں کہ کسی وقت سرحد کھول دی جائے گی اور وہ جرمنی اور دیگر مغربی یورپی ممالک کی جانب اپنا سفر جاری رکھ سکیں گے۔ ان ہزاروں تارکین وطن کے ہمراہ بچے اور عورتیں بھی موجود ہیں۔
تصویر: DW/D. Tosidis
خاردار تاروں کے سائے میں
مقدونیہ اور یونان کے مابین سرحد مکمل طور پر بند ہے۔ تارکین وطن متبادل راستوں کے ذریعے مقدونیہ پہنچنے کی ایک سے زائد منظم کوششیں کر چکے ہیں لیکن ہر مرتبہ انہیں گرفتار کر کے واپس بھیج دیا جاتا ہے۔ پناہ گزینوں نے مقدونیہ کی سکیورٹی فورسز کی جانب سے تشدد اور ناروا سلوک کی شکایات بھی کیں ہیں۔
تصویر: picture-alliance/dpa
یورپ میں بھی پولیس سے جھڑپیں
یونانی حکام تارکین وطن سے بارہا درخواست کر چکے ہیں کہ وہ ایڈومینی سے دوسرے کیمپوں میں منتقل ہو جائیں۔ کیمپ خالی کروانی کی کوششوں کے دوران یونانی پولیس اور تارکین وطن نے احتجاج اور مظاہرے کیے۔ اس دوران پولیس اور تارکین وطن میں جھڑپیں بھی ہوئیں۔
تصویر: Getty Images/AFP/A. Isakovic
معاہدے کے باوجود ترکی سے یونان آمد میں اضافہ
اگرچہ یہ بات واضح ہے کہ غیر قانونی طور پر یونان پہنچنے والے تمام تارکین وطن کو معاہدے کی رو سے واپس ترکی بھیج دیا جائے گا۔ اس کے باوجود پناہ گزین بحیرہ ایجیئن کا خطرناک سمندری سفر طے کر کے مسلسل ترکی سے یونان پہنچ رہے ہیں۔ گزشتہ چند دنوں کے دوران تارکین وطن کی آمد میں مزید اضافہ دیکھا گیا ہے۔
تصویر: Getty Images/A. Koerner
لائف جیکٹوں کا ’پہاڑ‘
سمندری سفر کے دوران تارکین وطن کے زیر استعمال لائف جیکٹیں یونانی جزیروں پر اب بھی موجود ہیں۔ انسانی حقوق کے لیے کام کرنے والے اداروں کا کہنا ہے کہ ترکی پناہ گزینوں کے لیے محفوظ ملک نہیں ہے اس لیے انہیں واپس ترکی نہیں بھیجا جانا چاہیے۔ یونین کا کہنا ہے کہ ان اقدامات کے ذریعے تارکین وطن کو خطرناک سمندری راستے اختیار کرنے سے روکا جانے میں مدد حاصل ہو گی۔