1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

سیالکوٹ کے فٹ بال برازیل ورلڈ کپ میں

عاصم سليم21 مئی 2014

پاکستانی شہر سيالکوٹ کے ايک صنعت کار نے ايک خواب ديکھا اور پھر اس کی تعبیر میں انہونی کو ہونی کر دکھایا۔ برازيل ميں جون میں شروع ہونے والے فٹ بال ورلڈ کپ مقابلوں ميں خواجہ اختر کی فيکٹری کے بنے ہوئے فٹبال استعمال ہوں گے۔

تصویر: Getty Images/AFP
’فارورڈ‘ نامی کمپنی کے کارکنوں کا ايک چوتھائی حصہ خواتین پر مشتمل ہےتصویر: picture-alliance/ dpa

يورپی ملک جرمنی ميں 2006ء ميں ہونے والے فٹ بال کے ورلڈ کپ مقابلوں کے دوران شائقين کے شور و غل اور مقابلوں کے ماحول کو ديکھ کر خواجہ اختر نے يہ خواب ديکھا تھا کہ دنيا کے سب سے بڑے فٹ بال ٹورنامنٹ ميں ان کی فيکٹری ميں تيار کردہ گيند استعمال ہونے چاہییں۔ پاکستان کے مغربی صوبہ پنجاب کے شہر سيالکوٹ ميں قائم ان کی فيکٹری ميں جو فٹ بال تیار کیے جاتے ہیں، وہ يورپی فٹ بال کلبوں کے اعلیٰ ترين ٹورنامنٹ چيمپئنز ليگ کے علاوہ جرمنی کی قومی فٹ بال ليگ بنڈس ليگا اور فرانسيسی ليگ ميں تو استعمال ہوتے رہے ہیں تاہم خواجہ اختر کی کمپنی کو اس وقت تک ورلڈ کپ کے ليے بال تيار کرنے کا کبھی موقع نہيں ملا تھا۔

گزشتہ برس البتہ يہ سب کچھ بدل گيا اور اس پاکستانی صنعت کار کو بالآخر ايک موقع ملا کہ وہ اپنے خواب سچ کر دکھائیں۔ 2013ء کے موسم خزاں میں جب خواجہ اختر کو معلوم ہوا کہ کھيلوں کا سامان تيار کرنے والی معروف جرمن کمپنی Adidas کے ليے ورلڈ کپ کی خاطر فٹ بال تيار کرنے والی ايک چينی کمپنی طلب کو پورا کرنے سے قاصر رہی ہے، تو اختر نے فوری طور پر ایڈیڈاس کے ايک وفد کو سيالکوٹ کے دورے کی دعوت دے ڈالی تاکہ وہ اپنی کمپنی کا معائنہ کروا کر ورلڈ کپ کے ليے فٹ بال تيار کرنے کا کنٹریکٹ حاصل کر سکیں۔

اس سلسلے ميں خواجہ اختر اور ایڈيڈاس کے نمائندوں کے مابين ہونے والی ابتدائی ملاقات ناکام رہی تھی۔ اختر کے سب سے بڑے بيٹے حسن مسعود خواجہ نے اس کی وجہ بيان کرتے ہوئے کہا، ’’انہوں نے کہا تھا کہ ہماری فيکٹری ميں ’پتھر کے زمانے‘ کا سامان نصب ہے۔‘‘

ورلڈ کپ ٹورنامنٹ بارہ جون سے تيرہ جولائی تک جنوبی امريکی ملک برازيل ميں کھيلا جائے گاتصویر: Daniel Mueller/Greenpeace

حسن مسعود خواجہ کے بقول ایڈيڈاس کے نمائندوں کی واپسی کے بعد ان کے والد نے ايک ميٹنگ کی اور فيکٹری ملازمين سے کہا، ’’يہ ہمیں ملنے والا واحد موقع ہے۔ اگر ہم نے انہيں يہ دکھايا کہ ہم يہ نہيں کر سکتے، تو ہميں دوبارہ ایسا موقع نہيں ملے گا۔‘‘

اس کے بعد آنے والے دنوں ميں خواجہ اختر کی کمپنی نے انہونی کو ہونی کر دکھايا۔ عام طور پر ايک نئی پروڈکشن لائن کی تیاری کے لیے چھ ماہ درکار ہوتے ہيں ليکن ایڈيڈاس کے پاس وقت کم تھا اور اسی ليے کمپنی کو اس کام کے ليے صرف 33 دن ديے گئے۔ سيالکوٹ کے اس صنعت کار نے مقررہ ہدف پورا کر ليا اور يوں انہیں کنٹريکٹ دے دیا گیا۔

خواجہ اختر کا خاندان سيالکوٹ ميں پچھلے چاليس برسوں سے فٹ بال تیار کرنے والی ’فارورڈ‘ نامی کمپنی چلا رہا ہے۔ صرف پچاس ملازمين کے ساتھ شروع کی گئی اس کمپنی ميں آج قريب 1400 افراد کام کرتے ہيں۔ ان کارکنوں کا ايک چوتھائی حصہ خواتین پر مشتمل ہے۔

فيکٹری ميں کام کرنے والی ايک خاتون شکيلہ اشرفی نے بتايا کہ انہوں نے اپنی آمدنی سے سب سے پہلے ايک ٹيلی وژن خريدا۔ اس خاتون نے بتايا کہ جب بارہ جون سے فٹ بال کا عالمی کپ شروع ہو گا، تو وہ اپنے ان پڑوسيوں کو اپنے گھر آنے کی دعوت دیں گی، جو پاکستانی عوام کی ایک بہت بڑی اکثریت کی طرح بس کرکٹ کے کھیل کے دلدادہ ہیں۔ شکیلہ اشرفی نے مزيد کہا، ’’ميچ ديکھنے کے ليے ہم سب کو اکھٹا کريں گے۔ ميں چاہتی ہوں کہ وہ ديکھيں کہ ہم کيا بناتے ہيں اور يہ فٹ بال کہاں جاتے ہيں؟‘‘

پاکستان کو اگرچہ کرکٹ کے کھيل ميں ايک بڑی طاقت کے طور پر ديکھا جاتا ہے ليکن فٹ بال کی عالمی رينکنگ ميں پاکستان کا نمبر 159 واں ہے۔ فٹ بال کا امسالہ ورلڈ کپ ٹورنامنٹ بارہ جون سے تيرہ جولائی تک جنوبی امريکی ملک برازيل ميں کھيلا جائے گا۔

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ سیکشن پر جائیں

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ

ڈی ڈبلیو کی مزید رپورٹیں سیکشن پر جائیں