سیاہ فام امریکیوں کی ہلاکت: ’سفید فام بھی تو مرتے ہیں،‘ ٹرمپ
15 جولائی 2020
امریکا میں پولیس کے ہاتھوں سیاہ فام شہریوں کی مسلسل ہلاکتوں سے متعلق ایک سوال کے جواب میں ایک ٹی وی انٹرویو کے دوران صدر ٹرمپ نے کہا، ’’کتنا خوف ناک سوال ہے۔ سیفد فام شہری بھی تو مارے جاتے ہیں، بلکہ زیادہ تعداد میں۔‘‘
اشتہار
امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ یہ انٹرویو سی بی ایس نیوز کو دے رہے تھے، جو منگل چودہ جولائی کی رات نشر کیا گیا۔ اس انٹرویو کے دوران ایک سوال میں ٹرمپ سے پوچھا گیا کہ کیا وجہ ہے کہ امریکا میں آج بھی افریقی نژاد شہری پولیس کے ہاتھوں مارے جاتے ہیں؟
اس پر صدر ٹرمپ نے فوری طور پر کہا کہ قانون نافذ کرنے والے اداروں کے اہلکاروں کے ہاتھوں تو سفید فام امریکی شہری بھی مارے جاتے ہیں۔ ڈونلڈ ٹرمپ نے پہلے تو اس سوال پر ہی تنقید کی اور کہا، ''کیا خوف ناک سوال ہے!‘‘ اس کے بعد انہوں نے کہا، ''سفید فام بھی تو مارے جاتے ہیں۔ بلکہ زیادہ۔ سفید فام زیادہ بڑی تعداد میں۔‘‘
اس موضوع پر خبر رساں ادارے ڈی پی اے نے لکھا ہے کہ امریکا میں سفید فام شہری بھی پولیس کے ہاتھوں مارے تو جاتے ہیں، لیکن سیاہ فام امریکیوں میں ایسی ہلاکتوں کی تعداد ملکی آبادی میں ان کے تناسب سے کہیں زیادہ ہے۔
آبادی میں تناسب اور ہلاکتوں کی شرح
امریکا میں پولیس کے ہاتھوں مارے جانے والے شہریوں کی اموات سے متعلق ملکی سطح پر کوئی سرکاری اعداد و شمار دستیاب نہیں ہیں۔ اخبار واشنگٹن پوسٹ کے ایک شماریاتی تجزیے کے مطابق یہ درست ہے کہ پولیس کے ہاتھوں مرنے والے شہریوں میں 'بلیک کے مقابلے میں وائٹ‘ ہلاکتیں زیادہ ہوتی ہیں۔ تاہم اس تصویر کا ایک دوسرا رخ بھی ہے۔
امریکا کی مجموعی آبادی میں سفید فام شہریوں کا تناسب 60 فیصد ہے جبکہ سیاہ فام یا افریقی نژاد باشندوں کا تناسب صرف 13 فیصد بنتا ہے۔
اس کے برعکس 2015ء سے لے کر آج تک پولیس کے ہاتھوں مجموعی طور پر جو 5400 امریکی شہری مارے گئے، ان میں سے 45 فیصد سفید فام اور 23 فیصد سیاہ فام تھے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ سیاہ فام امریکیوں میں پولیس کے ہاتھوں مارے جانے کی شرح فیصد سفید فام شہریوں کی ہلاکتوں کی شرح سے کہیں زیادہ ہے۔
سیاہ فام امریکیوں میں ایسی اموات کا امکان تین گنا زیادہ
ہارورڈ یونیورسٹی کی طرف سے گزشتہ ماہ جاری کیے گئے ایک مطالعاتی جائزے کے نتائج کے مطابق امریکا میں سیاہ فام شہریوں کے پولیس کے ہاتھوں مارے جانے کا امکان سفید فام شہریوں کے مقابلے میں تین گنا سے بھی زیادہ ہوتا ہے۔
یہی وہ پہلو ہے جس پر امریکا سمیت کئی ممالک میں پولیس کے ہاتھوں سیاہ فام باشندوں کی ہلاکتوں اور غیر اعلانیہ نسل پرستی کے خلاف 'بلیک لائیوز مَیٹر‘ نامی تحریک کے دوران آواز اٹھائی گئی تھی۔
ان وسیع تر احتجاجی مظاہروں کی وجہ چند ہفتے قبل مینیسوٹا میں جارج فلوئڈ نامی ایک ایسے سیاہ فام شہری کی ہلاکت بنی تھی، جس کا سبب پولیس اہلکار ہی بنے تھے۔ جارج فلوئڈ غیر مسلح تھا اور وہ پولیس اہلکاروں سے بار بار یہ کہتے ہوئے منتیں کرتا رہا تھا، ''میں سانس نہیں لے پا رہا۔‘‘
Black Lives Matter نامی اس احتجاجی تحریک کے دوران صدر ٹرمپ پر یہ الزام بھی لگایا جاتا رہا ہے کہ انہوں نے منظم نسل پرستی اور پولیس کی بربریت کے خلاف کوئی واضح موقف اختیار نہیں کیا تھا۔
م م / ا ا (ڈی پی اے)
پولیس کے ہاتھوں سیاہ فاموں کے قتل پر امریکا سراپا احتجاج
امریکا میں پولیس کے ہاتھوں سیاہ فاموں کے خلاف منظم غیر منصفانہ سلوک کے خلاف مظاہروں نے پر تشدد شکل اختیار کر لی ہے۔ صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے مطابق ملکی فوج اس صورتحال کو کنٹرول کرنے کے لیے تیار ہے اور استعمال کی جا سکتی ہے۔
تصویر: picture-alliance/newscom/C. Sipkin
’میرا دم گھٹ رہا ہے‘
پولیس کی طرف سے سیاہ فام باشندوں کے ساتھ گزشتہ کئی دہائیوں سے جاری مبینہ ظالمانہ طرز عمل کے خلاف تازہ مظاہروں کا آغاز پیر 25 مئی کو چھیالیس سالہ افریقی نژاد امریکی شہری جارج فلوئڈ کی ہلاکت کے بعد ہوا۔ ایک پولیس افسر نے فلوئڈ کو منہ کے بل گرا کر اس کے ہاتھوں میں ہتھ کڑی ڈالنے کے باوجود اس کی گردن کو اپنے گھٹنے سے مسلسل دبائے رکھا۔ اس کی وجہ سے فلوئڈ سانس گھٹنے سے موت کے منہ میں چلا گیا۔
تصویر: picture-alliance/newscom/C. Sipkin
پر امن احتجاج سے پرتشدد جھڑپیں
ہفتے کے دن تک زیادہ تر مظاہرے پر امن تھے مگر رات کے وقت کچھ جگہوں پر پرتشدد واقعات بھی پیش آئے۔ واشنگٹن میں وائٹ ہاؤس کے باہر نیشنل گارڈز تعینات کر دیے گئے۔ انڈیاناپولس میں کم از کم ایک شخص گولی لگنے سے ہلاک ہو گیا مگر پولیس کا کہنا تھا کہ اس میں اس کا کوئی کردار نہیں۔ فلاڈیلفیا میں پولیس اہلکار زخمی ہوئے جبکہ نیویارک میں پولیس کی گاڑی نے احتجاجی مظاہرین کو ٹکر دے ماری۔
تصویر: picture-alliance/ZUMA/J. Mallin
دکانوں میں لوٹ مار اور توڑ پھوڑ
لاس اینجلس میں ’بلیک لائیوز میٹر‘کے نعرے لگانے والے مظاہرین پر پولیس کی طرف سے لاٹھی چارج کیا گیا اور ان پر ربڑ کی گولیاں چلائی گئیں۔ بعض شہروں، جن میں لاس اینجلس، نیویارک، شکاگو اور مینیاپولس شامل ہیں، مظاہرے جھڑپوں میں بدل گئے۔ ساتھ ہی لوگوں نے مقامی دکانوں اور کاروباروں میں تھوڑ پھوڑ اور لوٹ مار کی۔
تصویر: picture-alliance/AP Photo/C. Pizello
’لوٹ مار کب شروع ہوئی ۔۔۔‘
امریکی صدر نے دھمکی دی ہے کہ وہ مظاہروں کو کچلنے کے لیے فوج بھیج سکتے ہیں۔ ٹرمپ کے بقول ان کی انتظامیہ پرتشدد مظاہروں کو سختی سے روکے گی۔ ٹرمپ کے یہ الفاظ ملک بھر میں غم و غصے کا سبب بنے۔ ٹرمپ نے تشدد کی ذمہ داری انتہائی بائیں بازو سے تعلق رکھنے والے گروپوں پر عائد کی۔ تاہم مینیسوٹا کے گورنر کے بقول ایسی غیر مصدقہ اطلاعات ہیں کہ سفید فاموں کی برتری پر یقین رکھنے والے لوگ تشدد کو بھڑکا رہے ہیں۔
تصویر: picture-alliance/ZUMA/K. Birmingham
میڈیا بھی نشانہ
ان مظاہروں کی کوریج کرنے والے بہت سے صحافیوں کو بھی سلامتی کے ذمہ دار اداروں کے اہلکاروں نے نشانہ بنایا۔ جمعے کو سی این این کے سیاہ فام رپورٹر عمر جیمینیز اور ان کے ساتھی کو پولیس نے گرفتار کر لیا۔ کئی صحافیوں کو اس وقت نشانہ بنایا گیا یا گرفتار کیا گیا جب وہ براہ راست رپورٹنگ کر رہے تھے۔ ڈی ڈبلیو کے صحافی اسٹیفان سیمونز پر بھی اس وقت گولی چلا دی گئی جب وہ ہفتے کی شب براہ راست رپورٹ دینے والے تھے۔
تصویر: Getty Images/S. Olson
مظاہروں کا سلسلہ دنیا بھر میں پھیلتا ہوا
یہ مظاہرے پھیل کر اب دیگر ممالک تک پہنچ چکے ہیں۔ ہمسایہ ملک کینیڈا میں ہفتے کے روز ہزاروں افراد نے ٹورانٹو اور وینکوور میں سڑکوں پر مارچ کیا۔ جرمنی، برطانیہ اور نیوزی لینڈ کے علاوہ کئی یورپی ملکوں میں بھی سیاہ فاموں کے خلاف ناروا سلوک اور نسل پرستی کے خلاف مظاہرے کیے گئے ہیں۔ ان مظاہروں میں امریکی مظاہرین کے ساتھ اظہار یک جہتی بھی کیا گیا۔
تصویر: picture-alliance/NurPhoto/A. Shivaani
ہیش ٹیگ جارج فلوئڈ
ہفتے کے روز جرمن دارالحکومت برلن میں واقع امریکی سفارت خانے کے سامنے ہزاروں لوگوں نے مارچ کیا۔ مظاہرین نے جارج فلوئڈ کی ہلاکت اور امریکا میں منظم انداز میں نسل پرستی پھیلائے جانے کے خلاف احتجاج کیا۔