سیاہ فام، ایشین امریکی شہریوں سے نفرت: جرائم میں واضح اضافہ
31 اگست 2021
امریکا میں سیاہ فام شہریوں اور ایشیائی نژاد باشندوں سے نفرت کی وجہ سے رونما ہونے والے جرائم میں گزشتہ برس واضح اضافہ ہوا۔ 2020ء میں پولیس کو رپورٹ کیے گئے ایسے جرائم کی تعداد میں 40 سے 70 فیصد تک اضافہ ریکارڈ کیا گیا۔
اشتہار
امریکی دارالحکومت واشنگٹن سے منگل اکتیس اگست کو ملنے والی رپورٹوں کے مطابق وفاقی تحقیقاتی ادارے ایف بی آئی کی طرف سے جاری کردہ تازہ ترین اعداد و شمار کے مطابق گزشتہ برس سیاہ فام اور ایشیائی نژاد امریکی شہریوں کے خلاف مختلف طرح کے جرائم کی شرح کے حوالے سے خاص طور پر برا رہا۔
2020ء میں 2019ء کے مقابلے میں ایسے جرائم کی جو سالانہ تعداد ریکارڈ کی گئی، وہ پچھلے 12 سال کے دوران اپنی بلند ترین سطح پر رہی۔ مزید یہ کہ یہ تعداد ایسے جرائم کی ہے، جن کی پولیس کو باقاعدہ اطلاع دی گئی۔ اگر ان واقعات کو بھی شامل کیا جائے، جن کی پولیس میں کوئی شکایت درج نہیں کرائی گئی، تو یہ تعداد کہیں زیادہ بنتی ہے۔
سیاہ فام شہریوں کے خلاف جرائم
ایف بی آئی کے جاری کردہ ڈیٹا کے مطابق پچھلے سال امریکا میں سیاہ فام باشندوں کی پولیس اہلکاروں کے ہاتھوں ہلاکتوں کے متعدد واقعات کے بعد جو وسیع تر احتجاجی مظاہرے شروع ہوئے تھے، ان کی وجہ سے 'بلیک لائیوز میٹر‘ یا 'سیاہ فاموں کی زندگیاں بھی اہم ہیں‘ نامی تحریک کو کافی ہوا ملی تھی۔
اس کے باوجود امریکا میں نسل پرستی اور خاص طور پر سیاہ فام شہریوں سے نفرت کی بنیاد پر جرائم کے ارتکاب میں 40 فیصد اضافہ ہوا اور ان کی تعداد 2019ء میں 1,972 کے مقابلے میں 2020ء میں بہت زیادہ ہو کر 2,755 ہو گئی۔
اشتہار
ایشیائی نژاد امریکی شہریوں پر حملے
امریکا کے وفاقی تحقیقاتی ادارے کے مطابق پچھلے سال ملک میں مختلف نوعیت کی نسل پرستانہ وجوہات کی بنیاد پر بہت سے ایشیائی نژاد باشندوں کو بھی خاص طور پر مختلف جرائم کا نشانہ بنایا گیا۔
ایشیائی امریکی باشندوں کے خلاف 2019ء میں مجموعی طور پر پولیس کو 161 نسل پرستانہ یا دانستہ مجرمانہ حملوں کی اطلاع دی گئی تھی۔ اس کے برعکس گزشتہ برس ایسے جرائم کی تعداد 70 فیصد اضافے کے ساتھ 274 ہو گئی۔
ایک اہم پہلو یہ بھی ہے کہ امریکا میں ایشیائی نژاد باشندوں کے خلاف نفرت انگیز جرائم کی شرح میں کووڈ انیس کی عالمی وبا کے آغاز سے اضافہ دیکھا گیا ہے اور تازہ ڈیٹا بھی اس رجحان کی تصدیق کرتا ہے۔
امریکی اٹارنی جنرل کا موقف
سیاہ فام اور ایشیائی نسل کے باشندوں سے نفرت کے نتیجے میں رونما ہونے والے ان جرائم سے متعلق تازہ ترین سالانہ ڈیٹا جاری کیے جانے کے بعد امریکی اٹارنی جنرل میرِک گارلینڈ نے کہا کہ یہ اعداد و شمار اس امر کی طرف اشارہ کرتے ہیں کہ اس مسئلے کے حل کے لیے 'فوری اور بھرپور توجہ‘ کی ضرورت ہے۔
ان جملہ جرائم میں سے نصف سے زائد واقعات میں متاثرہ افراد کی تذلیل کی گئی، گالیاں دی گئیں اور انہیں ڈرایا دھمکایا گیا۔ تقریباﹰ 18 فیصد جرائم متاثرہ افراد پر شدید نوعیت کے جسمانی حملوں کے واقعات تھے۔
تشویش ناک بات یہ ہے کہ امریکا میں گزشتہ برس مختلف رنگ یا نسل کے افراد سے نفرت کی بنا پر ایسے جرائم کے دوران کم از کم 22 افراد کو قتل بھی کر دیا گیا۔
م م / ع آ (روئٹرز، اے ایف پی)
پولیس کے ہاتھوں سیاہ فاموں کے قتل پر امریکا سراپا احتجاج
امریکا میں پولیس کے ہاتھوں سیاہ فاموں کے خلاف منظم غیر منصفانہ سلوک کے خلاف مظاہروں نے پر تشدد شکل اختیار کر لی ہے۔ صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے مطابق ملکی فوج اس صورتحال کو کنٹرول کرنے کے لیے تیار ہے اور استعمال کی جا سکتی ہے۔
تصویر: picture-alliance/newscom/C. Sipkin
’میرا دم گھٹ رہا ہے‘
پولیس کی طرف سے سیاہ فام باشندوں کے ساتھ گزشتہ کئی دہائیوں سے جاری مبینہ ظالمانہ طرز عمل کے خلاف تازہ مظاہروں کا آغاز پیر 25 مئی کو چھیالیس سالہ افریقی نژاد امریکی شہری جارج فلوئڈ کی ہلاکت کے بعد ہوا۔ ایک پولیس افسر نے فلوئڈ کو منہ کے بل گرا کر اس کے ہاتھوں میں ہتھ کڑی ڈالنے کے باوجود اس کی گردن کو اپنے گھٹنے سے مسلسل دبائے رکھا۔ اس کی وجہ سے فلوئڈ سانس گھٹنے سے موت کے منہ میں چلا گیا۔
تصویر: picture-alliance/newscom/C. Sipkin
پر امن احتجاج سے پرتشدد جھڑپیں
ہفتے کے دن تک زیادہ تر مظاہرے پر امن تھے مگر رات کے وقت کچھ جگہوں پر پرتشدد واقعات بھی پیش آئے۔ واشنگٹن میں وائٹ ہاؤس کے باہر نیشنل گارڈز تعینات کر دیے گئے۔ انڈیاناپولس میں کم از کم ایک شخص گولی لگنے سے ہلاک ہو گیا مگر پولیس کا کہنا تھا کہ اس میں اس کا کوئی کردار نہیں۔ فلاڈیلفیا میں پولیس اہلکار زخمی ہوئے جبکہ نیویارک میں پولیس کی گاڑی نے احتجاجی مظاہرین کو ٹکر دے ماری۔
تصویر: picture-alliance/ZUMA/J. Mallin
دکانوں میں لوٹ مار اور توڑ پھوڑ
لاس اینجلس میں ’بلیک لائیوز میٹر‘کے نعرے لگانے والے مظاہرین پر پولیس کی طرف سے لاٹھی چارج کیا گیا اور ان پر ربڑ کی گولیاں چلائی گئیں۔ بعض شہروں، جن میں لاس اینجلس، نیویارک، شکاگو اور مینیاپولس شامل ہیں، مظاہرے جھڑپوں میں بدل گئے۔ ساتھ ہی لوگوں نے مقامی دکانوں اور کاروباروں میں تھوڑ پھوڑ اور لوٹ مار کی۔
تصویر: picture-alliance/AP Photo/C. Pizello
’لوٹ مار کب شروع ہوئی ۔۔۔‘
امریکی صدر نے دھمکی دی ہے کہ وہ مظاہروں کو کچلنے کے لیے فوج بھیج سکتے ہیں۔ ٹرمپ کے بقول ان کی انتظامیہ پرتشدد مظاہروں کو سختی سے روکے گی۔ ٹرمپ کے یہ الفاظ ملک بھر میں غم و غصے کا سبب بنے۔ ٹرمپ نے تشدد کی ذمہ داری انتہائی بائیں بازو سے تعلق رکھنے والے گروپوں پر عائد کی۔ تاہم مینیسوٹا کے گورنر کے بقول ایسی غیر مصدقہ اطلاعات ہیں کہ سفید فاموں کی برتری پر یقین رکھنے والے لوگ تشدد کو بھڑکا رہے ہیں۔
تصویر: picture-alliance/ZUMA/K. Birmingham
میڈیا بھی نشانہ
ان مظاہروں کی کوریج کرنے والے بہت سے صحافیوں کو بھی سلامتی کے ذمہ دار اداروں کے اہلکاروں نے نشانہ بنایا۔ جمعے کو سی این این کے سیاہ فام رپورٹر عمر جیمینیز اور ان کے ساتھی کو پولیس نے گرفتار کر لیا۔ کئی صحافیوں کو اس وقت نشانہ بنایا گیا یا گرفتار کیا گیا جب وہ براہ راست رپورٹنگ کر رہے تھے۔ ڈی ڈبلیو کے صحافی اسٹیفان سیمونز پر بھی اس وقت گولی چلا دی گئی جب وہ ہفتے کی شب براہ راست رپورٹ دینے والے تھے۔
تصویر: Getty Images/S. Olson
مظاہروں کا سلسلہ دنیا بھر میں پھیلتا ہوا
یہ مظاہرے پھیل کر اب دیگر ممالک تک پہنچ چکے ہیں۔ ہمسایہ ملک کینیڈا میں ہفتے کے روز ہزاروں افراد نے ٹورانٹو اور وینکوور میں سڑکوں پر مارچ کیا۔ جرمنی، برطانیہ اور نیوزی لینڈ کے علاوہ کئی یورپی ملکوں میں بھی سیاہ فاموں کے خلاف ناروا سلوک اور نسل پرستی کے خلاف مظاہرے کیے گئے ہیں۔ ان مظاہروں میں امریکی مظاہرین کے ساتھ اظہار یک جہتی بھی کیا گیا۔
تصویر: picture-alliance/NurPhoto/A. Shivaani
ہیش ٹیگ جارج فلوئڈ
ہفتے کے روز جرمن دارالحکومت برلن میں واقع امریکی سفارت خانے کے سامنے ہزاروں لوگوں نے مارچ کیا۔ مظاہرین نے جارج فلوئڈ کی ہلاکت اور امریکا میں منظم انداز میں نسل پرستی پھیلائے جانے کے خلاف احتجاج کیا۔