پاکستان کے شمالی حصے میں متحرک سیاہ گلیشیئر اپنے دامن میں واقع کئی دیہات کی تباہی اور چین کے ساتھ منسلک سڑک بندش کا سبب بن سکتا ہے۔
اشتہار
پاکستان کے شمالی حصے میں کئی بلند و بالا پہاڑ اور گلیشیئرز ہیں، جو ایک طرف تو خوب صورتی کا استعارہ ہیں، تاہم دوسری طرف ماحولیاتی تبدیلیوں کے اثرات سے بری طرح متاثر بھی ہیں۔ بتایا گیا ہے کہ ہنزہ ضلعے کے حسن آباد گاؤں کا گاؤں برف کے دو سو میٹر بلند ایک گلیشیئرز کے دامن میں واقع ہے، تاہم یہ گلیشیئر تیزی سے حرکت کر رہا ہے۔ تھامس روئٹرز فاؤنڈیشن کے مطابق مئی کی گرمی میں اس گلیشیئر سے برف کے بڑے بڑے ٹکڑے الگ ہو کر اس پہاڑ کے دامن میں گرے ہیں۔
بتایا گیا ہے کہ یہ گلیشیئر گزشتہ برس جولائی سے مسلسل حرکت میں ہے۔ مقامی گڈریے فہیم بیگ کے مطابق قراقرم ہائی وے سے قریب ان کا گاؤں گلیشیرز سے پگھل کر اترتے پانی کے دھانے پر ہے۔
تھامس روئٹرز فاؤنڈیشن سے بات چیت کرتے ہوئے فہیم بیگ نے کہا، ’’میں اپنے گلے کے ہم راہ پچھلے سال مئی میں اس گلیشیئر پر خاصا اوپر تک گیا تھا، مگر جب اکتوبر میں ایسا کیا تو گلیشیئر نے وادی کا راستہ مکمل طور پر روک رکھا تھا۔‘‘
ان کا مزید کہنا تھا، ’’پہاڑ کی جانب برف غائب تھی اور وہاں جانے میں شدید دشواری ہو رہی تھی۔ میں کسی طرح سے کوشش کر کے اپنا گلہ نیچے چھوڑ کر پہاڑ کے اوپر پہنچا تو حیران رہ گیا کہ یہ گلیشیئر کتنا تیزی سے حرکت کر رہا ہے۔‘‘
گلگت بلتستان کے ہنگامی حالات کے محکمے کے اسسٹنٹ ڈائریکٹر شہزاد بیگ کا کہنا ہے کہ شیسپر گلیشیئر کی حرکت کی ایک وجہ یہ ہے کہ یہ ٹیکٹونک پلیٹوں پر واقع ہے۔
انہوں نے کہا کہ گزشتہ پانچ برسوں سے موسم سرما میں شدید بارشوں اور برف باری کی وجہ سے برف کے ذخائر میں بے حد اضافہ ہوا ہے اور اس کی وجہ ماحولیاتی تبدیلیاں ہیں۔
ان قدرتی مناظر کو دیکھنے میں بھی کہیں دیر نہ ہو جائے
موسمیاتی تبدیلیوں کے باعث بڑے سنگی مرجانی چٹانوں کے نظام سے لے کر دیو قامت گلیشیئرز جیسے مقامات کے خاتمے سے پہلے پہلے انہیں دیکھنے کے لیے سیاحوں کی تعداد بڑھتی جا رہی ہے۔ یہ سیاح ان مقامات کو مزید خطرے میں ڈال رہے ہیں۔
تصویر: picture-alliance/McPhoto/SBA
عارضی خزانہ
سالانہ بیس لاکھ افراد گریٹ بیریئر ریف (سنگی مرجانی چٹانوں کا نظام) کو دیکھنے آسٹریلیا آتے ہیں۔ ایک سروے کے مطابق تقریبا ستر فیصد سیاح یونیسکو کے اس عالمی ورثے کو اس وجہ سے دیکھنے آ رہے ہیں کیوں کہ یہ معدوم ہونے کے خطرے سے دوچار ہے۔ اگر زمینی درجہ حرارت کو دو سینٹی گریڈ تک محدود بھی کر لیا جائے تو نوے فیصد کورل ختم ہو جائیں گی۔ کورل کو چھونے یا گندگی سے سیاح اس عمل کو تیز بنا سکتے ہیں۔
تصویر: picture-alliance/dpa/N. Probst
انسان کی لائی ہوئی تباہی
اپنی بقاء کے خطرے سے دوچار برفانی ریچھوں کو دیکھنے کے لیے آنے والے کتنی کاربن ڈائی آکسائیڈ کے اخراج کا باعث بنے؟ سن دو ہزار دس کے ایک سروے کے مطابق چرچل اور کینیڈا میں برفانی ریچھ کی سفاری سالانہ 20 میگا ٹن کاربن ڈائی آکسائیڈ کے اخراج کا باعث ہے۔ زیادہ تر سیاح جہازوں سے سفر کرتے ہیں۔ اٹھاسی فیصد موسمیاتی تبدیلیوں کا باعث انسان ہے۔
تصویر: picture-alliance/McPhoto/SBA
براعظم انٹارکٹیکا دیکھنے کا شوق
برفانی ریچھوں کے ساتھ ساتھ گلیشئرز پگھلنے کی تصاویر کو بھی موسمیاتی تبدیلیوں کی نمائندہ تصاویر سمجھا جاتا ہے۔ سیاح کروز شپ کے ذریعے سمندر میں تیرتے ہوئے ایسے عظیم الجثہ برفانے تودے کو دیکھنے کے لیے اچھی خاصی رقم ادا کرتے ہیں۔ سن 1990ء میں براعظم انٹارکٹیکا کی سیاحت کرنے والے افراد کی تعداد پانچ ہزار تھی۔ سن 2018ء میں یہ تعداد 46 ہزار تک پہنچ چکی تھی۔
تصویر: S. Weniger/M. Marek
سیزن کے عروج میں
تیزی سے ختم ہوتی ہوئی قدرتی برف کو دیکھنے کے لیے لازمی نہیں آپ قطب شمالی یا قطب جنوبی جائیں۔ براعظم افریقہ میں کلیمنجارو کی برفانی پہاڑیوں کی سیاحت سے سالانہ چوالیس سے پچاس ملین ڈالر کمائے جاتے ہیں۔ گزشتہ صدی میں وہاں کی 85 فیصد برف ختم ہو گئی ہے۔ باقی ماندہ برف بھی رواں صدی کے وسط تک ختم ہونے کا خدشہ ہے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/R. Schnoz
بے تاج بادشاہ
جب سن 1910ء میں امریکا کے گلئیشیر نیشنل پارک کا افتتاح ہوا تھا تو اس کی ایک سو سے زائد چوٹیاں برف سے ڈھکی ہوئی تھیں۔ اسی مناسبت سے اس کا نام رکھا گیا۔ اب ایسی دو درجن سے بھی کم چوٹیاں باقی بچی ہیں۔ یہ پارک اب موسمیاتی تبدیلیوں کے تحقیقی مرکز میں تبدیل ہو چکا ہے۔ سالانہ تیس لاکھ سیاح یہاں آتے ہیں۔
تصویر: Imago Images/Aurora/J. Miller
ایک جنت کا نقصان
مالدیپ سیاحوں کی جنت ہے۔ اس کے بارہ ہزار کورل جزیرے ہیں، جہاں اڑھائی میٹر بلند شفاف پانی کے نیچے سے سفید ریت نظر آتی ہے۔ سن دو ہزار سترہ میں اس ملک کے صدر نے ایک نیا ایئرپورٹ اور سیاحتی گھر تعمیر کرنے کا اعلان کیا تھا تاکہ موجودہ سے سات گنا زیادہ سیاحوں کی گنجائش پیدا کی جا سکے۔ نئے جزیرے بنانے کے لیے مقامی کمیونیٹیز کو بھی دوسری جگہ آباد کیا جانا ہے۔ ابھی یہ منصوبہ پایا تکمیل نہیں پہنچا۔
تصویر: Colourbox
نمکیں دلدل
رفتہ رفتہ صرف جزیرے ہی زیر آب نہیں آ رہے بلکہ فلوریڈ کا دلدلی ایورگلیڈز نیشنل پارک بھی آہستہ آہستہ غائب ہو رہا ہے۔ گزشتہ صدی کے دوران ایورگلیڈز کا تقریبا نصف حصہ خشک ہو چکا ہے اور اب زراعت کے لیے استعمال ہوتا ہے۔
تصویر: Imago/Robertharding/F. Fell
7 تصاویر1 | 7
ہندوکش کے ہمالیہ خطے سے متعلق بین الاقوامی سینٹر برائے انٹیگریٹڈ ماؤنٹین ڈویلوپمنٹ کی ایک رپورٹ کے مطابق قراقرم اور مغربی ہمالیہ میں موسمی حالات میں نمایاں اضافہ ہوا ہے اور یہاں برف باری بھی بڑھ گئی ہے۔ تاہم اس رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ برف میں یہ بے انتہا اضافہ گو کہ فی الحال مستحکم ہے، تاہم زمینی درجہ حرارت میں مسلسل اضافے کا مطلب یہ ہے کہ انہیں ایک دن پگھلنا ہے۔
اس رپورٹ میں خبر دار کیا گیا ہے کہ اگر بڑے اقدامات نہ کیے گئے تو اس خطے میں گلیشیئرز سن 2100 تک پگھل جائیں گے۔