اسلام آباد کے قریب واقع سید پور کے مندر میں اگر کوئی عبادت کرتا ہوا دکھائی دے، تو اسے فوراً روک دیا جاتا ہے۔ حیرت کی بات یہ ہے کہ پاکستان کے دارالحکومت میں ایک بھی مندر نہیں ہے، جہاں ہندو عبادت کر سکتے ہوں۔ یہ صورتحال دل کو گہرے دکھ سے بھر دیتی ہے، کیونکہ یہ ہمارے معاشرتی عدم برداشت کا کھلم کھلا اظہار ہے۔
میرے والد بتاتے تھے کہ ان کے بچپن میں ان کے گاؤں میں دیوالی کے موقع پر چاہے مسلمان ہوں یا ہندو، ہر گھر میں دیے جلائے جاتے تھے۔ یہاں تک کہ میری ایک پھوپھی کا نام لچھمی تھا۔ یہ ہمارے اجداد کی ایک خوبصورت اور محبت بھری روایت تھیں۔ ہر مذہب کے لوگ ایک دوسرے کی خوشیوں اور تہواروں میں شریک ہوتے تھے۔ کوئی برتری کی دوڑ میں نہیں تھا اور کسی کو کمتری کا شکوہ نہیں تھا۔ ہر طرح کے نام بھی رکھے جاتے تھے، جو دونوں کمیونٹیز کے درمیان اتحاد کی علامت تھے۔
کہتے ہیں ماضی ہمیشہ مستقبل سے بہتر لگتا ہے لیکن کیا یہ سچ نہیں ہے کہ ان پچھتر سالوں میں ہم ہمیشہ تقسیم ہوتے رہے ہیں؟
سید پور، مرگلہ کی پہاڑیوں کی ڈھلوان پر واقع ایک چھوٹا سا گاؤں ہے، جسے اربن ولیج کہنا زیادہ مناسب ہوگا۔ کہا جاتا ہے کہ اس دیہات کو بسانے والے گکھڑ، راجپوت اور ملیہار قبائل تھے۔ پھر پندرہویں صدی میں مغل سلطنت سے وابستہ فتح علی بیگ یہاں آئے، جس کی وجہ سے اس گاؤں کو فتح پور کے نام سے جانا جانے لگا۔ کچھ وقت کے بعد، اکبر بادشاہ کے دور میں، یہ گاؤں سید خان گکھڑ کو کسی جنگ میں اکبر بادشاہ کی خدمات کے عوض دیا گیا، جس کے بعد گاؤں کا نام فتح پور سے بدل کر سید پور ہو گیا۔
پندرہویں صدی کی آخر میں، مان سنگھ نے یہاں مندر تعمیر کروایا اور اس کے ساتھ ایک دھرم شالہ بھی بنوائی۔ مرگلہ سے چار تالاب، یعنی رام کنڈ، لکشمن کنڈ، سیتا کنڈ، اور ہنومان کنڈ، بہتے تھے، جنہیں بعد میں پختہ کیا گیا۔ مندر اور دھرم شالہ کے ساتھ، سکھوں نے بیسویں صدی میں ایک گردوارہ بنایا جو گرو نانک کے فلسفے کی تعلیم کے لیے ایک اسکول کے طور پر کام کرتا تھا۔ تقسیم سے پہلے، گرو نانک، کالی اور لکشمی دیوی کے عقیدت مند یہاں عبادت کرتے تھے، لیکن تقسیم کے بعد سب کچھ بدل گیا۔
تقسیم کے بعد، کالی اور لکشمی دیوی کے مجسمے ہجرت کر گئے یا ہٹا دیے گئے۔ دھرم شالہ میں بنے نقوش کو وائٹ واش کر کے ان پر پھولوں کے نقش بنا دیے گئے۔ وہ چار تالاب، جو کبھی مقدس پانی کی علامت تھے، یا تو ریستوران کے نیچے دب گئے یا گندگی کے ڈھیر میں تبدیل ہو گئے۔
یہاں کی ہوا میں اب بھی ایک تاریخ بستی ہے، جو ہمیں یاد دلاتی ہے کہ ہم سب ایک ہی دھرتی کے بچے ہیں۔ سید پور کی کہانی نہ صرف تقسیم کی تلخیوں کی آئینہ دار ہے بلکہ ہماری اجتماعی یادداشت میں موجود اس محبت، رواداری اور ہم آہنگی کی بھی عکاسی کرتی ہے، جو کبھی ہمارے معاشرے کا حصہ تھی۔ یہ کہانی ہمیں یاد دلاتی ہے کہ ماضی کی خوبصورت روایات کو دوبارہ زندہ کرنا اور ہر مذہب و ثقافت کو برابر احترام دینا ہی ہمارا اصل ورثہ ہے اور ہمارے اجداد کی مشترکہ تاریخ اور ثقافت کو بھلانا نہیں چاہیے بلکہ اس پر فخر کرنا چاہیے۔
نوٹ: ڈی ڈبلیو اردو کے کسی بھی بلاگ، تبصرے یا کالم میں ظاہر کی گئی رائے مصنف یا مصنفہ کی ذاتی رائے ہوتی ہے، جس سے متفق ہونا ڈی ڈبلیو کے لیے قطعاﹰ ضروری نہیں ہے۔