سیز فائر ڈیل لیکن فضائی حملہ، شام میں آٹھ شہری ہلاک
عاطف بلوچ، روئٹرز
25 جولائی 2017
دمشق کے قریب واقع باغیوں کے زیر قبضہ علاقے میں کیے گئے ایک تازہ فضائی حملے میں کم از کم آٹھ شہری ہلاک جبکہ متعدد زخمی ہو گئے ہیں۔ گزشتہ ویک اینڈ پر ہی اس علاقے میں جنگ بندی کا اعلان کیا گیا تھا۔
اشتہار
خبر رساں ادارے اے ایف پی نے پچیس جولائی بروز منگل بتایا ہے کہ شامی دارالحکومت دمشق کے نواح میں واقع باغیوں کے زیر قبضہ ایک علاقے میں پیر کی شام فضائی حملہ کیا گیا، جس کے نتیجے میں آٹھ شہری لقمہ اجل بن گئے۔ سیریئن آبزرویٹری فار ہیومن رائٹس نے عینی شاہدین کے حوالے سے بتایا ہے کہ یہ کارروائی مشرقی غوطہ کے شہر عربین میں کی گئی۔ اس خونریز کارروائی کے نتیجے میں ہلاک ہونے والوں میں چار بچے اور ایک خاتون بھی شامل ہیں۔
آبزرویٹری کے سربراہ رامی عبدالرحمان نے اے ایف پی سے گفتگو میں کہا کہ یہ حملہ شامی جنگی طیاروں یا دمشق حکومت کی اتحادی روسی افواج نے کیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ عربین میں جنگجوؤں کے ٹھکانوں کو نشانہ بنانے کی کوشش کی گئی لیکن ہلاک یا زخمی شہری ہوئے۔ انہوں نے بتایا کہ اس تازہ حملے میں کم ازکم تیس افراد زخمی بھی ہوئے ہیں۔
حلب کو ’مکمل تباہی‘ سے بچانے کی کوشش
01:56
یہ فضائی کارروائی ایک ایسے وقت میں کی گئی ہے، جب گزشتہ ہفتے کے دن ہی مشرقی غوطہ میں جنگ بندی کا ایک معاہدہ طے پایا تھا۔
ایران، روس اور شامی باغیوں کے حامی ملک ترکی کے مابین مذاکرات کے نتیجے میں اس علاقے میں سیز فائر کی کوششیں ممکن ہوئی تھیں۔ شامی فوج نے کہا تھا کہ وہ اس علاقے میں باغیوں کے خلاف ایکشن نہیں کرے گی۔
دوسری طرف شامی حکومت کے حامی اخبار ’الوطن‘ نے لکھا ہے کہ جس مقام پر یہ تازہ کارروائی کی گئی ہے، وہاں سیز فائر کا اطلاق نہیں ہوتا کیونکہ اس علاقے میں القاعدہ کے حامی دہشت گرد گروہ فعال ہیں۔
بتایا جاتا ہے کہ عربین کا کنٹرول فتح الشام اور اس کی حامی تنظیم ’فیلق الرحمان‘ کے پاس ہے۔ ناقدین کے مطابق باغیوں کے زیر قبضہ علاقوں میں انتہا پسند گروہ بھی فعال ہیں اور اسی لیے ان علاقوں میں مکمل سیز فائر کی کوششیں کارآمد ثابت نہیں ہو رہی ہیں۔
شامی حکومت، روس اور ایران کا اصرار ہے کہ ایسے علاقوں میں جنگ بندی نہیں کی جائے گی، جہاں ’دہشت گرد گروہ‘ فعال ہیں۔ روس نے پیر کے دن ہی کہا تھا کہ وہ مشرقی غوطہ میں سیز فائر معاہدے کی نگرانی کے لیے چیک پوسٹس قائم کرے گا تاکہ یہ امر یقینی بنایا جائے کہ باغیوں کے خلاف کوئی کارروائی نہ ہو۔
حلب: ایک شاندار شہر تاراج ہوا
جنگ سے پہلے حلب شمالی شام کا ایک بارونق اور ہنستا بستا شہر تھا، جو شام کا اقتصادی مرکز اور سیاحوں میں بے حد مقبول تھا۔ موازنہ دیکھیے کہ کھنڈر بن چکے مشرقی حلب کے کئی مقامات پہلے کیسے تھے اور اب کس حال میں ہیں۔
اموی جامع مسجد پہلے
سن 2010ء میں ابھی اُس باغیانہ انقلابی تحریک نے حلب کی جامع الاموی کے دروازوں پر دستک نہیں دی تھی، جو تب پوری عرب دُنیا میں بھڑک اٹھی تھی۔ یہ خوبصورت مسجد سن 715ء میں تعمیر کی گئی تھی اور یونیسکو کے عالمی ثقافتی ورثے میں شامل ہے۔
تصویر: Reuters/K. Ashawi
اموی جامع مسجد آج
سن 2013ء کی جھڑپوں کے نتیجے میں اس مسجد کو شدید نقصان پہنچا۔ چوبیس مارچ سن 2013ء کو اس مسجد کا گیارہویں صدری عیسوی میں تعمیر ہونے والا مینار منہدم ہو گیا۔ آج یہ مسجد ایک ویران کھنڈر کا منظر پیش کرتی ہے۔
تصویر: Reuters/O. Sanadiki
حمام النحاسین پہلے
حلب شہر کے قدیم حصے میں واقع اس حمام میں 2010ء کے موسمِ خزاں میں لوگ غسل کے بعد سکون کی چند گھڑیاں گزار رہے ہیں۔
تصویر: Reuters/K. Ashawi
حمام النحاسین آج
چھ سال بعد اس حمام میں سکون اور آرام نام کو نہیں بلکہ یہاں بھی جنگ کے خوفناک اثرات دیکھے جا سکتے ہیں۔
تصویر: Reuters/O. Sanadiki
حلب کا قلعہ پہلے
حلب کا یہ قلعہ دنیا کے قدیم ترین اور سب سے بڑے قلعوں میں شمار ہوتا ہے۔ اس کے اندر واقع زیادہ تر عمارات تیرہویں صدی عیسوی میں تعمیر ہوئیں۔
تصویر: Reuters/S. Auger
حلب کا قلعہ آج
ایک دور تھا کہ بڑی تعداد میں سیاح اس قلعے کو دیکھنے کے لیے دور دور سے جایا کرتے تھے۔ اب جنگ کے نتیجے میں اس کا بڑا حصہ تباہ و برباد ہو چکا ہے۔
تصویر: Reuters/O. Sanadiki
حلب کا قدیم علاقہ پہلے
چوبیس نومبر 2008ء: حلب شہر کا قدیم حصہ۔ لوگ رنگ برنگی روشنیوں کے درمیان ایک کیفے میں بیٹھے ہیں۔
تصویر: Reuters/O. Sanadiki
حلب کا قدیم علاقہ آج
تیرہ دسمبر 2016ء: حلب شہر کا قدیم علاقہ راکھ کے ڈھیر میں تبدیل ہو چکا ہے۔
تصویر: Reuters/O. Sanadiki
شھباء مول (ڈیپارٹمنٹل اسٹور) پہلے
یہ تصویر دسمبر 2009ء کی ہے۔ حلب کے مشہور ڈیپارٹمنٹل اسٹور شھباء مول کی چھت سے کرسمس کے تحائف لٹک رہے ہیں۔ اس پانچ منزلہ ڈیپارٹمنٹل اسٹور کا افتتاح 2008ء میں ہوا تھا اور اس کا شمار ملک کے سب سے بڑے اسٹورز میں ہوتا تھا۔
تصویر: Reuters/K. Ashawi
شھباء مول (ڈیپارٹمنٹل اسٹور) آج
آج جو کوئی بھی گوگل میں شھباء مول کے الفاظ لکھتا ہے تو جواب میں اُسے یہ لکھا نظر آتا ہے: ’مستقل طور پر بند ہے۔‘‘ اس اسٹور کو 2014ء میں کی جانے والی بمباری سے شدید نقصان پہنچا تھا۔
تصویر: Reuters/A. Ismail
قدیم حلب کا ایک خوبصورت بازار پہلے
یہ تصویر 2008ء کی ہے، جس میں قدیم حلب کے ایک بازار کا داخلی دروازہ روشنیوں سے جگمگا رہا ہے۔
تصویر: Reuters/O. Sanadiki
قدیم حلب کا ایک خوبصورت بازار آج
یہ تصویر دسمبر 2016ء کی ہے، جس میں قدیم حلب کے اس مشہور بازار کا داخلی دروازہ تقریباً مکمل طور پر تباہ ہو چکا ہے۔