ایران کے جنوب مشرقی علاقے میں دو پولیس اہلکار ہلاک
11 مارچ 2023
پاکستان اور افغانستان کی سرحد سے ملحقہ شورش زدہ ایرانی علاقے سیستان بلوچستان میں گشت پر مامور دو ایرانی پولیس اہلکاروں کو گھات لگا کر ہلاک کر دیا گیا ہے۔
اشتہار
ایرانی سرکاری میڈیا کی طرف سے ہفتہ 11 مارچ کو ملنے والی رپورٹوں سے پتا چلا ہے کہ مسلح افراد نے ایران کے شورش زدہ جنوب مشرقی صوبے سیستان بلوچستان میں گشت پر مامور دو ایرانی پولیس اہلکاروں کو گھات لگا کر ہلاک کر دیا۔
ایرانی سرکاری خبر رساں ایجنسی IRNA نے بتایا کہ یہ اہلکار گولشن قصبے میں جمعہ کی نماز کے دوران ''سکیورٹی فراہم کرنے پر مامور تھے‘‘ جب ان پر حملہ ہوا۔
خبر رساں ایجنسی IRNA کی رپورٹ میں بغیر مزید تفصیلات بیان کیے کہا گیا ہے کہ سیستان بلوچستان میں جھڑپیں ہوئی ہیں جن کے نتیجے میں مجرموں کے ہاتھوں لیفٹیننٹ کرنل محسن پدینی اور لیفٹیننٹ احسان شاہراکی ہلاک ہوئے ہیں۔
افغانستان اور پاکستان کی سرحد سے متصل ایران کی سرحد پر واقع صوبہ سیستان بلوچستان میں ہفتہ وار مظاہروں کا سلسلہ جاری ہے۔ یہ مظاہرے گزشتہ ستمبر میں ایران میں افغان مہاجر کا حملہ، کم از کم دس افراد ہلاکن میں ایک پولیس افسر کے ہاتھوں ایک نوعمر لڑکی کے ساتھ مبینہ جنسی زیادتی کے بعد سے جاری ہیں۔
یہ مظاہرے ایران میں 22 سالہ ایرانی کرد لڑکی مہسا امینی کی تہران میں اخلاقی پولیس کے ہاتھوں خواتین کے لیے اسلامی جمہوریہ کے لباس کوڈ کی مبینہ خلاف ورزی کے الزام میں گرفتاری کے بعد حراست میں ہلاکت پر ملک گیر مظاہروں کے دو ہفتے بعد شروع ہوئے تھے۔
یہ خطہ ایران کے غریب ترین علاقوں میں سے ایک مانا جاتا ہے اور یہاں بلوچ اقلیت آباد ہے، جو ایران میں اکثریتی شیعہ آبادی کے درمیان سنی اسلام کو ماننے والے مسلمانوں کا گروپ ہیں۔
اس علاقے میں پہلے بھی منشیات کی اسمگلنگ کرنے والے گروہوں کے ساتھ ساتھ بلوچ اقلیت اور سنی مسلم انتہا پسند گروپوں کے باغیوں کے ساتھ جھڑپیں ہوتی رہی ہیں۔
یاد رہے کہ سیستان بلوچستان کی دو ممالک پاکستان اور افغانستان کے ساتھ گیارہ سو کلومیٹر زمینی سرحد ہے اور بے روزگاری کی شرح زیادہ ہونے کی وجہ سے یہ تیل کی مصنوعات، خاص طور پر ڈیزل کی اسمگلنگ کا ایک اہم علاقہ ہے۔
اس شورش زدہ علاقے میں دو ایرانی پولیس اہلکاروں کی مسلح افراد کے ہاتھوں ہلاکت کے بارے میں اب تک مزید تفصیلات سامنے نہیں آئی ہیں نہ ہی کسی گروہ یا انفرادی مجرموں نے اس ہلاکت کی ذمہ داری قبول کی ہے۔
ایرانی لڑکیوں کے تنگ، چُست اور رنگا رنگ ملبوسات
انقلاب ایران کے بعد ایک ضابطہٴ لباس بھی نافذ کر دیا گیا تھا۔ بہت سے لوگ اس کی خلاف ورزی بھی کرتے ہیں۔ اب ایرانی لڑکیوں کے لباس تنگ اور رنگین ہوتے جا رہے ہیں اور وہ حکومتی اداروں کا سامنا کرنے کے لیے بھی تیار نظر آتی ہیں۔
تصویر: IRNA
بال نظر نہ آئیں
ایران میں 1979ء کے بعد سے یہ قانون نافذ ہے کہ خواتین ’مہذب‘ لباس پہنیں گی۔ ضابطہٴ لباس کے مطابق خواتین کے سَر مکمل طور پر ڈھکے ہونے چاہییں، پتلون یا شلوار لمبی ہونی چاہیے اور ممکن ہو تو ملبوسات کے رنگ گہرے اور سیاہ ہونے چاہییں۔
تصویر: Isna
خاموش مزاحمت
گزشتہ سینتیس برسوں سے زائد عرصے سے ایرانی خواتین ضابطہٴ لباس کے خلاف خاموش مزاحمت جاری رکھے ہوئے ہیں۔ یہ خواتین اسکارف اور لمبا کوٹ تو پہنتی ہیں لیکن اپنے انداز میں۔ اسکارف کے ساتھ بال بھی نظر آتے ہیں۔
تصویر: Getty Images/AFP/A. Kenare
بار بار معائنہ
پولیس کی نظر میں رنگین اور نئے ڈیزائن کے کپڑے ناپسندیدہ ہیں۔ ہر سال موسم گرما میں ایرانی سڑکوں پر ’اخلاقی پولیس‘ کے اہلکاروں کی تعداد بڑھا دی جاتی ہے۔ جو بھی قوانین کی خلاف ورزی کرتا ہے، اسے روک لیا جاتا ہے۔ اس دوران اکثر بحث و مباحثے کا آغاز ہو جاتا ہے کہ آیا واقعی سب کچھ ضابطہٴ لباس کے عین مطابق ہے۔
تصویر: ISNA
سخت نتائج
اگر ’اخلاقی پولیس‘ مطمئن نہیں ہوتی تو جرمانہ کر دیا جاتا ہے اور بعض اوقات گرفتار بھی۔ گرفتار ہونے والی خواتین کو تحریری طور پر لکھ کر دینا ہوتا ہے کہ وہ آئندہ ضابطہٴ لباس کی خلاف ورزی نہیں کریں گی۔
تصویر: FARS
کپڑے رنگین، چُست اور مختصر
متعدد ایرانی لڑکیاں ان حکومتی جرمانوں سے بے خوف نظر آتی ہیں۔ ’اخلاقی پولیس‘ کی مسلسل نگرانی کے باوجود نوجوان لڑکیاں رنگین، چھوٹے اور تنگ لباس پہنے نظر آتی ہیں۔ متعدد ماڈلز سوشل میڈیا میں نئے فیشن کے لباس پیش کرتی ہیں۔
تصویر: Hasan Koleini
دباؤ کے باوجود نئے فیشن
ایرانی ماڈل شبنم مولاوی کی تصویر امریکی فیشن میگزین FSHN کے سرورق پر شائع ہوئی تھی۔ مئی میں اس ماڈل کو گرفتار کر لیا گیا تھا۔ اس ماڈل پر ’غیراسلامی ثقافت کی تشہیر‘ کا الزام عائد کیا گیا تھا لیکن چند دن بعد ہی اسے ضمانت پر رہائی مل گئی تھی۔
تصویر: fshnmagazine.com
روحانی حکومت اور پردہ
روحانی کی حکومت میں پردے کے معاملے میں نرمی برتے جانے کی توقع کی جا رہی تھی لیکن نئے فیشن کے کپڑوں کی دلدادہ خواتین کے لیے یہ حکومت بھی ’سخت‘ ثابت ہوئی ہے۔ خواتین نئے فیشن کے ملبوسات پر کوئی سمجھوتہ کرتی نظر نہیں آتیں۔
تصویر: Isna
خالی وعدے
صدر حسن روحانی نے 2012ء میں اپنی انتخابی مہم کے دوران یہ وعدہ کیا تھا کہ وہ اقتدار میں آنے کے بعد ’سڑکوں پر خواتین کو ہراساں‘ کیے جانے کے عمل کا خاتمہ کر دیں گے۔ لیکن ڈریس کوڈ کی نگرانی کے ذمہ دار 20 اداروں میں سے چند ہی ان کے کنٹرول میں ہیں۔
تصویر: FARS
خفیہ اخلاقی پولیس
اب تہران حکومت نے ’خفیہ اخلاقی پولیس‘ بھی متعارف کروا دی ہے۔ رواں برس اپریل میں تہران پولیس کے سربراہ نے کہا تھا کہ سات ہزار خواتین اور مردوں کو بھرتی کیا گیا ہے، جو ’خفیہ اخلاقی پولیس‘ کا کردار ادا کریں گے۔
تصویر: cdn
انٹرنیٹ پر یکجہتی
جولائی میں سوشل میڈیا پر ایرانی نوجوان مردوں کی طرف سے خواتین کے ساتھ اظہار یکجہتی کے لیے ایک مہم کا آغاز کر دیا گیا تھا۔ ضابطہٴ لباس کے خلاف احتجاج کرتے ہوئے نوجوان لڑکوں نے اپنے سروں پر اسکارف لے کر تصاویر پوسٹ کرنا شروع کر دی تھیں۔