1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

سیلابی ریلا اب ملتان کی طرف

رپورٹ:تنویر شہزاد،لاہور11 ستمبر 2014

پاکستانی صوبے پنجاب میں سیلابی ریلا اب جھنگ سے ملتان کی طرف رواں دواں ہے، جہاں پاکستانی فوج کے تازہ دم دستے بھی پہنچ چکے ہیں اور آبادیوں کو بچانے کے لیے کیے جانے والے انتظامات میں تیزی آگئی ہے۔

تصویر: picture alliance/AP/K Chaudary

ملتان شہر کو بچانے کے لئے شیر شاہ بند میں شگاف ڈالنے کی تیاریاں مکمل کر لی گئی ہیں، یہاں دریائے چناب کی سطح میں پانی میں مسلسل اضافہ ہوتا جا رہا ہے، دریا چناب کے نشیبی علاقوں میں آباد بستیوں میں پانی آ چکا ہے جس کے سبب کپاس اور دھان کی فصلوں کو بھی نقصان پہنچنے کی اطلاعات ہیں۔ تقصان سے بچنے کے لیے دریا کے اردگرد کے علاقوں کو خالی کروانے کے لیے اعلانات کیے جا رہے ہیں، امدادی سرگرمیوں میں حصہ لینے کے لیے فوج کے تازہ دم دستے بھی یہاں پہنچ چکے ہیں۔ پنجاب ریسکیو سروس کے اضافی اہلکاروں کی نفری بھی کشتیوں کی بڑی تعداد کے ساتھ یہاں پہنچ چکی ہے۔

محکمہ موسمیات پنجاب کے سربراہ محمد ریاض نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ ابھی بھی تریموں ہیڈ پر سیلاب کا دباؤ برقرار ہے اور یہاں اب بھی پانچ لاکھ کیوسک سے زائد پانی گزر رہا ہے۔ ان کے بقول جھنگ کے علاقوں میں سیلابی پانی کے دباؤ میں اگلے چوبیس گھنٹوں میں کمی آنا شروع ہو جائے گی۔ لیکن ملتان اور مظفر گڑھ کے قریب دریائے چناب کی سطح میں مسلسل اضافہ ہوتا جا رہا ہے،ان کے بقول اس وقت دریائے راوی میں سندھیانی کے مقام پر اونچے درجے کا سیلاب ہے جبکہ باقی دریا معمول کے مطابق بہہ رہے ہیں۔ محکمہ موسمیات کا کہنا کہ کہ مزید سیلاب کا باعث بننے والی بارشوں کا اگلے چند دنوں میں کوئی امکان نہیں ہے۔ یہ بات بھی قابل زکر ہے کہ محکمہ موسمیات نے اگلے چند دنوں میں بدترین سیلابی ریلے کے سندھ میں پہنچنے کی وارننگ بھی جاری کر دی ہے۔

دریا کے اردگرد کے علاقوں کو خالی کروانے کے لیے اعلانات کیے جا رہے ہیںتصویر: Tauseef Mustafa/AFP/Getty Images

ملتان میں سیلاب کی کوریج کرنے والے ایک صحافی جام بابر نے بتایا کہ ملتان کے نزدیک ابھی ساڑھے تین لاکھ کیوسک پانی گذر رہا ہے اور اطلاعات یہ ہیں کہ ابھی ڈھائی لاکھ کیوسک پانی آج رات کے دوران یا اگلے روز یہاں پہنچ سکتا ہے۔ شجاع آباد کے جام بابر کا کہنا تھا کہ سیلابی اطلاعات نے لوگوں میں خوف و ہراس پھیلا دیا ہے اور وہ محفوط مقامات کی طرف جا رہے ہیں۔ بعض علاقوں سے ایک کالعدم تنظیم کے بھی امدادی سرگرمیوں میں حصہ لینے کی اطلاعات مل رہی ہیں۔

انہوں نے بتایا کہ سیلاب زدہ علاقوں کے غریب لوگوں میں یہ احساس پا یا جا رہا ہے کہ حکومتیں نئے ڈیم بنانے یا شہروں کی طرف والے دریائی بندوں کو مضبوط بنانے کی بجائے ہر بار ان کی بستیوں کو ہی بند توڑ کر تباہ کیوں کرتی ہیں۔

سیلاب زدگان کی امداد کے لیئے قائم کی گئی پنجاب کابینہ کی خصوصی کمیٹی کے سربراہ کرنل ریٹائرڈ شجاع خانزادہ نے جمعرات کے روز لاہور میں صحافیوں کو بتایا کہ حالیہ سیلاب نے پنجاب کے اکیس اضلاع کو متاثر کیا ہے، اس سیلاب کی وجہ سے اٹھارہ لاکھ افراد اب تک متاثر ہو چکے ہیں جبکہ دس لاکھ مربع ایکڑ زرعی رقبہ بھی اس سیلاب کی زد میں آیا ہے۔ حالیہ بارشوں اور سیلاب کے دوران اب تک صوبہ پنجاب میں ایک سو چوراسی افراد ہلاک ہو چکے ہیں۔

جھنگ کے علاقوں میں سیلابی پانی کے دباؤ میں اگلے چوبیس گھنٹوں میں کمی آنا شروع ہو جائے گیتصویر: Reuters/Mani Rana

پنجاب میں محکمہ صحت کے حکام کے مطابق سیلاب زدہ علاقوں سے موصولہ اطلاعات کے مطابق پندرہ ہزار سے زائد افراد کو سانس کی بیماریاں لاحق ہو چکی ہیں، جبکہ دس ہزار سے زائد سیلاب متاثرین جلدی بیماریوں اور پانچ ہزار سے زائد افراد کو پیٹ کی بیماریوں کا سامنا ہے۔ سیلاب زدہ علاقوں سے 20 ایسے افراد بھی ہسپتالوں میں لائے گئے ہیں جنہیں سانپوں نے ڈسا ہے۔

پنجاب کی حکومت نے سیلاب سے متاثرہ خاندانوں کو بیس ہزار روپے فی کس کے حساب سے امداد دینے کا اعلان کیا ہے۔ اٹھارہ ہزاری کے نمبردار میاں عمر نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ حکومت کے سیلاب زدگان کی مدد کے دعوے درست نہیں ہیں ابھی تک سیلابی پانی میں پھنسے ہوئے بہت سے لوگوں تک کوئی امداد نہیں پہنچی ہے۔

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں
ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ سیکشن پر جائیں

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ

ڈی ڈبلیو کی مزید رپورٹیں سیکشن پر جائیں