1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

سیلاب زدہ پاکستان کو قرض واپسی میں راحت دی جائے، اقوام متحدہ

23 ستمبر 2022

اقوام متحدہ کا کہنا ہے کہ پاکستان کو قرض دینے والے ملکوں کو قرضوں کی واپسی میں راحت دینے پر غور کرنا چاہئے تاکہ پاکستانی حکام سیلاب سے متاثرین کے لیے امدادی کارروائیوں پر توجہ زیادہ مرکوز کرسکیں۔

Pakistan | Monsun Überschwemmungen
تصویر: Akhtar Soomro/REUTERS

برطانوی روزنامے فنانشیل ٹائمز نے اقوام متحدہ کے ایک پالیسی دستاویز کے حوالہ دیتے ہوئے کہا ہے کہ حالیہ سیلاب کی وجہ سے ملک کے مالیاتی بحران میں کافی اضافہ ہوا ہے۔ اس لیے پاکستان کو بین الاقوامی قرضوں کی ادائیگی اور قرض دہندگان کے ساتھ قرضوں کی تنظیم نو کرنی چاہئے۔

پاکستان میں حالیہ سیلاب سے کم ازکم 33 ملین افراد متاثر ہوئے ہیں اور 1576 افراد ہلاک ہوچکے ہیں۔ تاہم ہلاکتوں کی اصل تعداد اس سے زیادہ ہو سکتی ہے۔ جب کہ 30 ارب ڈالر سے زیادہ کے نقصانات کا اندازہ ہے۔

اخبار نے کہا ہے کہ پالیسی دستاویز، جسے اقوام متحدہ کا ترقیاتی پروگرام (یو این ڈی پی) اس ہفتے حکومت پاکستان کے ساتھ شیئر کرے گا، میں کہا گیا ہے کہ ملک کو قرضے دینے والوں کو قرضوں کی واپسی میں راحت دینے پر غور کرنا چاہئے تاکہ پاکستانی پالیسی سازوں کو قرض کی ادائیگی پر اپنی توجہ مرکوز کرنے کے بجائے سیلاب کی تباہی سے پیدا شدہ حالات کے مدنظر راحت اور امدادی کاموں کو ترجیح دینے کا زیادہ موقع مل سکے۔

سیلابی بحران: کیا عالمی برادری پاکستان کے نقصان کی تلافی کرے گی؟

پاکستان میں تباہ کن سیلاب کے لیے مغرب ذمہ دار؟

پاکستان نے اس سے قبل سیلاب کی وجہ سے 30 ارب ڈالر کے نقصانات کا اندازہ لگایا تھا۔ حکومت پاکستان اور اقوام متحدہ کے سکریٹری جنرل انٹونیو گوٹیرش، دونوں نے، سیلاب کے لیے موسمیاتی تبدیلی کو ذمہ دار قرار دیا ہے۔

انفراسٹرکچر کی تیاری کے بدلے قرض واپسی میں نرمی کی تجویز

اخبار نے لکھا ہے کہ پالیسی دستاویز میں قرضوں کی تنظیم نو یا تبادلہ کی تجویز پیش کی گئی ہے، جس کے تحت قرض دہندگان پاکستان کی طرف سے موسمیاتی تبدیلیوں سے بچنے والے انفراسٹرکچر کی تیاری میں سرمایہ کاری پر رضامندی کے بدلے میں قرض کی ادائیگیوں میں راحت دیں گے۔

سیلاب کے بعد بڑے پیمانے پر پھیلنے والی تباہی اور انفراسٹرکچر کو پہنچنے والے نقصانات کے مدنظر یہ تشویش لاحق ہوگئی کہ پاکستان قرضوں کو واپس نہیں کرسکے گا۔

اس دوران بچوں کے بہبود کے اقوام متحدہ کے ادارے یونیسیف نے سیلاب سے متاثرین کی مدد کے لیے 39 ملین ڈالر کی اپنی اپیل کا اعادہ کیا۔ یونیسیف نے اپنے ایک بیان میں بتایا کہ اس رقم کا اب تک صرف ایک تہائی ہی حاصل ہوسکا ہے۔

پاکستان میں سیلاب سے بچوں کی تعلیم بھی شدید متاثر

02:49

This browser does not support the video element.

سینکڑوں بچے بھی ہلاک، یونیسیف

یونیسیف نے اپنے بیان میں بتایا کہ مونسون کی غیر معمولی بارشوں اور سیلاب کی وجہ سے پاکستان میں کم

 از کم 1576 افراد ہلاک ہوچکے ہیں جب کہ 12862 دیگر زخمی ہوئے ہیں۔

ادارے کے مطابق پاکستان میں حالیہ سیلابوں سے 16 ملین بچے متاثر ہوئے ہیں اور کم از کم 3.4 ملین کو فوری زندگی بچانے والی امداد کی ضرورت ہے۔ صرف صوبہ سندھ میں ہی تقریباً 300بچے ہلاک ہوچکے ہیں۔ یونیسیف نے متاثرہ خاندانوں کی صورت حال کو 'تشویش ناک‘ قرار دیا ہے۔

یونیسیف کا کہنا ہے کہ تین کروڑ 40 لاکھ سے زائد بچے بے گھر ہوچکے ہیں اور سیلاب کی وجہ سے 550 سے زائد بچے اب تک ہلاک ہوچکے ہیں۔ "اگر انہیں خاطر خواہ اور فوری امداد فراہم نہ کی گئی تو مزید بچوں کے اپنی زندگی سے ہاتھ دھو بیٹھنے کا خطرہ ہے۔"

پاکستان: سیلاب کے بعد وبائی امراض، ایک جان لیوا آفت

کیا امداد پاکستانی سیلاب متاثرین تک پہنچ رہی ہے؟

شدید بارشوں سے پاکستانی آثار قدیمہ کو بھی نقصان

اقوام متحدہ کی خصوصی سفیر ہالی وڈ اداکار انجیلینا جولی نے سیلاب زدہ بعض علاقوں کا دورہ اور متاثرین  سے ملاقات کرنے کے بعد میڈیا کے لیے جاری ایک بیان میں کہا،"میں نے ایسی غیر معمولی تباہی پہلے کبھی نہیں دیکھی۔ میری دلی ہمدردی متاثرین کے ساتھ ہے۔"

اقوام متحدہ کی خصوصی سفیر ہالی وڈ اداکار انجیلینا جولیتصویر: National Flood Response Coordination Centre/AP/picture alliance

دریں اثنا نیویارک میں اقوام متحدہ جنرل اسمبلی کے اجلاس میں شرکت کے لیے آئے پاکستان کے وزیر خزانہ مفتاح اسماعیل نے میڈیا سے بات چیت کر تے ہوئے کہا کہ عالمی برادری پاکستان کے اندر سیلاب سے ہونے والی تباہی پر قابل ذکر ردعمل دے رہی ہے۔

مفتاح اسماعیل نے بتایا کہ پاکستان کے سیلاب زدگان کے لیے فرانس جلد ایک ڈونر کانفرنس بھی منعقد کرے گا۔اور وزیراعظم شہباز شریف جمعے کے روز اپنے خطاب میں سیلاب کی تباہ کاریوں سے دنیا کوآگاہ کریں گے۔

ج ا/ ص ز (روئٹرز، اے پی)

سیلاب متاثرین قلی اپنا بوجھ اٹھانے سے بھی قاصر

03:16

This browser does not support the video element.

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ سیکشن پر جائیں

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ

ڈی ڈبلیو کی مزید رپورٹیں سیکشن پر جائیں