سیلاب کے بعد مہلک بیماریاں کروڑوں بچوں کو شکار بنا رہی ہیں
8 ستمبر 2010ان نقصانات کا پورا اندازہ لگانا بھی ابھی مشکل ہے۔ سیلاب کی طوفانی موجوں کی خوفناک یادیں بچوں کےاعصاب پر اب بھی سوار ہیں۔ دوسری جانب ناگہانی آفت کے بعد پھیلنے والی مختلف اقسام کی بیماریاں مثلاً چکن پاکس، خسرہ، ملیریا، زرد بُخار، ہیضہ، اسہال اور جلدی بیماریاں کروڑوں بچوں کو اپنا شکار بنا رہی ہیں۔ بلاشبہ سیلاب کے سبھی متاثرین کی حالت اچھی نہیں ہے لیکن متاثرہ بچوں کی صحت کی صورتحال نہایت تشویش ناک ہے۔ اُس پر ستم یہ کہ پاکستان کے ہسپتالوں اور کلینکس میں نہ تو کافی طبی عملہ موجود ہے اور نہ ہی ضروری سہولیات فراہم ہیں۔ اقوام متحدہ کے مطابق پاکستان میں آج کل 72 ہزار سے زائد بچوں کی جانوں کو شدید خطرات لاحق ہیں۔
پشاور کے قریب شہر پابی کے ایک ہسپتال کے ڈاکٹر اسد اللہ خان اپنے ہسپتال کی صورتحال کچھ یوں بیان کرتے ہیں ’جن مریضوں کا یہاں اعلاج کیا گیا تھا وہ ٹھیک ہو کر اپنے گھروں کو چلے گئے اور وہاں سے پھر سخت اسہال لے کر دربارہ ہسپتال پہنچے۔ مسئلہ یہ ہے کہ ان کے دیہات میں پینے کا صاف پانی میسر نہیں ہے اس لئے یہ بار بار بیمار پڑ رہے ہیں‘۔
حالیہ سیلاب سے متاثر ہونے والے 20 ملین افراد میں ایک بڑی تعداد بچوں کی ہے، جو بیماریوں کے پھیلنے اور طبی سہولیات کی کمی کے سبب رفتہ رفتہ دم توڑ رہے ہیں۔ ان بچوں کے والدین اور گھر والوں کی نفسیاتی حالت ناگفتہ یہ ہے۔ یونیسیف کے بہبود اطفال کے ڈائریکٹر اینتھنی لیک نے جنوبی پنجاب کے ایک ضلع میں بچوں کے لئے قائم کردہ ایک سینٹر کا دورہ کیا۔ بچوں کی صورتحال پر روشنی ڈالتے ہوئے انہوں نے کہا:’’ان بچوں کی آنکھوں میں جو دُکھ اور صدمہ میں نے دیکھا، اس سے پہلے شاید ہی کبھی دیکھا ہو۔‘‘ انہوں نے بتایا کہ اس مرکز میں بچوں سے کاغذ پر ڈرائنگ بنانے کو کہا گیا، تو چھوٹی بچیوں نے زیادہ تر اپنی اپنی گُڑیا کی تصویر بنائی تھی اور جن حسرت بھری نگاہوں سے وہ اپنی گُڑیاؤں کو دیکھ رہی تھیں، اُس سے اُن کے صدمے اور ذہنی حالت کا بخوبی اندازہ ہو رہا تھا۔
گھر بار سے محروم ہونے والے لاتعداد خاندان ایسے ہیں، جن میں ایک یا ایک سے زیادہ بچوں کو کسی نہ کسی مہلک بیماری نے آن گھیرا ہے۔ امدادی کیمپوں میں نہ تو کھانا میسر ہے، نہ ہی پینے کا صاف پانی اور نہ ہی کوئی طبی ضروریات۔ یہ لوگ اب مایوس ہو کر اپنے
تباہ شدہ مکانات کی طرف لوٹنا چاہتے ہیں، جیسے کہ جیکب آباد کا ایک شہری محمد جاوید کا کہنا ہے’ اب میں واپس اپنے گھر جانا چاہتا ہوں۔ مجھے سیلابی پانی سے گزر کر جانا ہوگا۔ یہاں کوئی کشتی میسر نہیں ہے، اس لئے ہمیں پیدل ہی یہ مسافت طے کرنا ہوگی‘۔
سیلاب زدگان پر طرح طرح کی مہلک بیماریاں تو حملہ کر ہی رہی ہیں لیکن ساتھ ساتھ پانی میں موجود سانپ اور بچھو بھی اُنہیں ڈس رہے ہیں۔
رپورٹ: کشور مصطفیٰ
ادارت: امجد علی