1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

سیلاب کے دنوں میں ماہواری کے دن

20 ستمبر 2022

پاکستان وہ ملک ہے، جہاں عورتوں کو سہولت فراہم کرنے والی ہر ضرورت کی چیز غیر ضروری سمجھی جاتی ہے اور کچھ صفائی کی اشیاء کے بارے میں یہ خیال کیا جاتا ہے کہ وہ ’بےغیرتی اور بےحیائی‘ کے زمرے میں آتی ہیں۔

صبا حسینتصویر: privat

سیلاب متاثرین کے لیے امدادی سرگرمیاں شروع ہوئیں تو زیادہ تر سامان راشن کپڑوں اور خیموں کی صورت میں بھیجا گیا۔ توجہ دلائی گئی تو امدادی سامان میں ضرورت کے دیگر سامان کے ساتھ سینٹری پیڈز بھی نطر آنے لگے، جو سیلاب کی زد میں آنے والی خواتین کی صفائی اور سہولت کے لیے بھجوائے گئے تھے۔ پاکستان میں ایسے لوگ بھی بستے ہیں، جو یہ سمجھتے ہیں کہ صحت ہر انسان کا بنیادی حق ہے۔

لیکن پدر سری معاشرے میں بسنے والے مردوں کے اپنے کچھ مسائل ہیں۔ وہ عورتوں کے وجود سے تو ہچکچاتے ہی ہیں، ضرورت کی اشیاء سے بھی شرما جاتے ہیں۔ بعض پر تو سینیٹری پیڈ جیسی ضرورتوں پر نظر پڑتے ہی 'وحشت طاری‘ ہو جاتی ہے۔ ان صاحبان کی نظر امداد میں دیے گئے پیڈز پر پڑی تو انہیں عذاب کی ایک اور وجہ مل گئی۔

 ان کی سمجھ بوجھ کے مطابق سینٹری پیڈز ایک غیر ضروری چیز ہے اور اس کو محض 'بےشرمی‘ کے فروغ کے لیے امدادی سامان میں بھیجا گیا ہے۔ بدقسمتی یہ ہے کہ ان حضرات کو عذاب کی تمام وجوہات کا علم ہے مگر خون سے پیدا ہونے والے کسی ایک بھی انفیکشن کا علم نہیں ہے۔ انہیں نہیں پتہ کہ صفائی نہ ہونے کی وجہ سے ہماری خواتین میں کون کون سی بیماریاں جنم لیتی ہیں۔

اچھا ہمارے ملک کے کچھ مرد تو اتنے کوئی معصوم نکلے کہ سینٹری پیڈز کا موازنہ شیوِنگ کِٹس سے کرنے لگے۔ ان کی معصومیت بجا بھی ہے کیونکہ ہمارے سماج میں ماہواری پر بات ہوتی ہی کہاں ہے، جو ان کو معلوم ہو کہ ماہواری کے دنوں میں ایک عورت کس طرح کے چیلنجز سے گزرتی ہے۔

 کچھ دن پہلے جی سی یونیورسٹی لاہور میں طالبات کی سہولت کے لیے سینٹری پیڈز وینڈنگ مشین کوریڈور میں نصب کی گئی تھی۔ یہ معصومیت ہی تھی کہ جب نیکی کرنے پہ آئے تو بیچ چوراہے پر کر دی۔ اب آپ خود سوچیں سینٹری پیڈز کا کوریڈور میں کیا کام ہے؟

شاید ہمارے ملک کے مرد خواتین کے مسائل پر بھی ان کی رائے لینا گوارا نہیں کرتے۔

تو ہم سیلاب میں متاثرہ خواتین کی ماہواری پر بات کر رہے تھے کہ سینٹری پیڈز کے بارے میں سوشل میڈیا پر سب اپنی رائے دے رہے تھے۔ کچھ کا کہنا تھا کہ سنیٹری پیڈز غیر ضروری ہیں، تو کوئی جواب میں کہہ رہا تھا کہ کیا سیلاب کی وجہ سے خواتین کی ماہواری بند ہو جاتی ہے؟

کسی کا کہنا تھا کہ ان خواتین کو سینٹری پیڈز استعمال کرنا ہی کہاں آتا ہو گا؟ کوئی کہہ رہا تھا کہ کپڑے جیسے سینٹری پیڈز بھجوائے جانے چاہیئں۔

اٹھائیس دن کی زندگی!

اس صورت حال کا مشاہدہ کرنے کے بعد میں میں نے سوچا سیلاب سے متاثرہ خواتین سے بات کر کے ان کی رائے بھی تو پوچھوں۔ انہی دنوں ہمارے ہسپتال میں آئی ہوئی کچھ متاثرہ خواتین سے میں نے پوچھا کہ وہ سیلاب کے دنوں میں ماہواری کے دوران کیا استعمال کرتی ہیں؟ 

ایک خاتون کا تعلق خیرپور سے تھا۔ اس نے بتایا کہ عام طور پر وہ کپڑے کا استعمال کرتی ہیں لیکن سیلاب کے دنوں میں خواتین یا تو پاؤڈر سے خون روکنے کی کوشش کر رہی ہیں یا پھر شرمندگی سے بچنے کے لیے بھینس کے سوکھے گوبر کا استعمال کر رہی ہیں۔

 جب میرے کانوں میں بھینس کے سوکھے گوبر کی بات پڑی تو مجھے یقین نہیں آیا۔ میں نے پھر سے تصدیق کی تو اس خاتون نے جواب میں پھر وہی جواب دہرایا کہ شرمندگی سے بچنے کے لیے اور کسی سے سوال کرنے سے بچنے کے لیے اکثر خواتین سوکھے گوبر کا استعمال کر رہی ہیں۔

 یہ جواب سن کر مجھے پہلی بار اندازہ ہوا کہ صرف مردوں کو ہی نہیں بلکہ بطور ایک عورت مجھے بھی اس ملک میں بسنے والی خواتین کے مسائل کا درست اندازہ نہیں ہے۔

پاکستان:صحت کے مسائل بحران کی صورت اختیار کرنے کے دہانے پر؟

 

نوٹ: ڈی ڈبلیو اُردو  کے کسی بھی بلاگ، تبصرے یا کالم میں ظاہر کی گئی رائے مصنف یا مصنفہ کی ذاتی رائے ہوتی ہے، جس سے متفق ہونا ڈی ڈبلیو کے لیے قطعاﹰ ضروری نہیں ہے۔

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ سیکشن پر جائیں

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ

ڈی ڈبلیو کی مزید رپورٹیں سیکشن پر جائیں